Translate
بدھ، 22 مارچ، 2017
منگل، 21 مارچ، 2017
بدھ، 15 مارچ، 2017
پیر، 13 مارچ، 2017
ہفتہ، 11 مارچ، 2017
جمعہ، 10 مارچ، 2017
جمعرات، 9 مارچ، 2017
بدھ، 8 مارچ، 2017
منگل، 7 مارچ، 2017
کپتان کے " میٹھے" بول
ایک فقیر صبح سویرے اپنا کشکول لیے حسب معمول گھر سے نکلا ۔وہ جس دروازے پر بھی دستک دیتا ،جواباً اسے خیرات میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا کیونکہ یہ اس دور کا قصہ ہے جب لوگوں کے دل بہت بڑے اور وسیع ہوا کرتے تھے ۔وہ رہتے اگرچہ کچے گھروں میں تھے لیکن ان کے اندر اک دوجے کا احساس بہت زیادہ تھا ۔ابھی رشتوں کا تقدس اور احترام باقی تھا ابھی یہ احساس باقی تھا کہ اگر گھر کے دروازے پر کھڑا کوی حاجت مند اللہ کے نام پر سوال کرے تو اسے خالی واپس نہیں لوٹانا چاہیے ۔گھر کی بزرگ خواتین گھر میں پکنے والے دو وقت کے کھانے میں پنڈ کے کسی غریب مسکین کا حصہ ضرور رکھتی تھیں تاکہ رزق میں بھی برکت رہے اور صدقہ خیرات بھی نکلتا رہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس صدقہ خیرات کے اشتہار نہیں لگاے جاتے تھے بلکہ یہ سارا عمل خاموشی سے ہوتا تاکہ حاجت مند کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔اورہاں ابھی فقیر کو دھتکارنے کا رواج نہیں تھا۔اس فقیر کو بھی کہیں سے آٹا ملا ۔کسی نے اناج کی ایک مٹھی کشکول میں ڈال دی ۔کسی نے پانی یا لسی پلا ی اور کسی نے صرف دعا دیتے ہوے دوبارہ آنے کی تاکید کی ۔چلتے چلتے آدھا دن گزر گیا ۔ادھر سورج ڈھلنے لگا،ادھر فقیر کی بھوک چمکنے لگی ۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے ایک دروازے پر دستک دی ۔بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا تو فقیر بولا،"اماں روٹی کھانی ہے ۔میرے پاس آٹا تو ہے لیکن روٹی کیسے پکاوں "۔بوڑھی اماں نے اسے اندر بلالیا کہ لاو میں تمہیں روٹی پکا دیتی ہوں۔اماں نے آٹا پرات میں ڈالا اور اسے گوندھنے کی تیاری کرنے لگیں ۔فقیر بھی چولہے کے قریبی رکھی پیڑ ھی پر بیٹھ گیا۔اماں ابھی آٹے میں پانی ہی گھول رہی تھیں کہ فقیر کی نظر صحن میں بندھی بھینس اور اس کے اردگرد پھدکتی چھوٹی سی کٹی {بھینس کا مادہ بچہ }پر جا پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقیر کو نجانے کیا سوجھی کہ بولا۔اماں کیا تمہاری بھینس نے سجرا بچہ دیا ہے ۔اماں نے کہا کہ ہاں ہماری بھینس نے دو روز پہلے ہی کٹی دی ہے ۔۔۔۔۔۔فقیر بولا کہ اماں اگر تمہاری بھینس مر جاے تو پھر یہ دو دن کی کٹی کیا کرے گی ۔۔۔۔۔۔اماں کو فقیر کا یہ احمقانہ سوال اچھا تو نہ لگا لیکن انہوں نے اسے ڈانٹنے کی بجاے نرمی سے صرف اتنا ہی کہا کہ پتر،اللہ ہماری بھینس کو سلامت رکھے۔ اس طرح کی باتیں نہیں کرتے ،تمہیں تو دعا دینی چاہیے ۔اس پر وہ احمق آدمی سر ہلا کر رہ گیا ۔اسی اثنا میں گھر کے اندرونی کمرے سے ایک پیاری سی لڑکی باہر آی جس نے نیے کپڑے پہن رکھے تھے اور مناسب طریقے سے بنی ٹھنی ہوی تھی ۔اس کی دونوں کلایوں میں کھنکتی چوڑیاں صاف بتا رہی تھیں کہ اس کی نیی نیی شادی ہوی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اسے دیکھتے ہی فقیرکی رگ حماقت پھر پھڑک اٹھی اور اس نے اماں سے لڑکی کے بارے میں پوچھ لیا ۔اماں نے خوشی سے بتایا، پتر یہ میری بہو ہے ۔۔۔،میں نے ابھی پچھلے مہینے ہی اپنے بڑے بیٹے کا بیاہ کیا ہے ۔فقیر اگر عقلمند ہوتا تو اس کے لیے اتنا جواب کافی تھا لیکن عقلمند ہوتا تو تب نا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اماں پر جھٹ سے اگلا سوال داغ دیا کہ ۔۔۔اماں اگر تمہارا بیٹا مر جاے تو تمہاری یہ بہو کیا کرے گی ،۔۔۔۔۔۔اماں کا تو میٹر گھوم گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کہاں کا آٹا اور کہاں کی روٹی ۔۔۔۔۔انہوں نے فقیر کو دوچار موٹی موٹی گالیاں دیں ،پرات میں گھولا ہوا آٹا اور پانی اس کی چادر میں الٹا اور باہر کی راہ دکھای ۔اب سچویشن کچھ یوں بن گیی کہ فقیر گلی گلی چلا جا رہا تھا ۔اس کی چادر میں سے آٹے اور پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔رستے میں اگر کوی آدمی اس بارےمیں پوچھتا تو فقیر شرمندہ ہو کر کہتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری زبان کی شیرینی اور مٹھاس ہے جو چادر میں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے بچپن میں یہ کہانی اپنی نانی اماں سے سنی تھی۔کیونکہ ہماری ساری تربیت اپنی نانی اماں کی آغوش میں ہی ہوی ،اس لیے وہ ہمیں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج جب تحریک انصاف کے کپتان پی ایس ایل فاینل میں شرکت کے لیے پاکستان آنے والے غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلوکٹے کہہ رہے تھے تو ہمیں نانی اماں سے سنی ہوی یہ کہانی بے اختیار یاد آی۔ایک قومی ہیرو ،سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی کی زبان کی یہ " شیرینی اور مٹھاس" بے حد افسوس ناک ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ تین خوبیاں انسان کو باکمال بنا دیتی ہیں ،ٹھنڈا دماغ ،میٹھی زبان اور نرم دل ۔۔۔۔۔۔۔۔افسو س اس معاملے میں کپتان کا دامن خالی نظر آتا ہے ۔
پیر، 6 مارچ، 2017
ہفتہ، 4 مارچ، 2017
جمعہ، 3 مارچ، 2017
جمعرات، 2 مارچ، 2017
بدھ، 1 مارچ، 2017
دنیا نیوز سے نکالے گیے صحافی دوستوں سے اظہار یکجہتی
ہم آج شام ہی گاوں سے واپس لوٹے تو یہ افسوس ناک خبر سننے کو ملی کہ گزشتہ دو روز سے دنیا نیوز میں ہمارے صحافی بھایوں پر آزمایش آی ہوی ہے ۔ان دو دنوں میں 30صحافی دنیا نیوز کی ملازمت سے فارغ کردیے گیے ہیں، جن میں چار اینکر ،دو اساینمنٹ ایڈیٹر ،کچھ سینیر پروڈیوسر اور بیورو دفاتر کے کچھ ذمہ داران شامل ہیں ۔ہمارے نزدیک زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق یہ " کارنامہ "برادرم سہیل وڑایچ صاحب کے ہاتھوں انجام دلایا گیا ہے ،جو خود کوی تعلیم فروش ،گھی فروش ،تمباکو فروش سیٹھ نہیں بلکہ ایک صحافی ہیں ۔۔۔۔اس معاملے میں ان کا نام سن کر ہمیں شاید اس لیے بھی زیادہ تکلیف پہنچی کہ ان جیسے وضعدار ،اعلیِ تعلیم یافتہ اور خاندانی آدمی سے ہمیں ایسے کسی اقدام کی توقع نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ ہماری خوش فہمی تھی ۔چندسال پہلے جب ہم نواے وقت گروپ کے ساتھ وابستہ تھے تو انہی دنوں ادیبانہ اسلوب میں دل کو چھو لینے والا کالم لکھنے والے ایک معروف کالم نویس نواے وقت کو خیر باد کہہ کر جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ ہو گیے ۔شنید یہ تھی کہ نواے وقت انہیں ہزاروں میں تنخواہ دیتا تھا لیکن جنگ لاکھوں روپے کے بھاری معاوضے پر لے کر گیا تھا۔اس موقعہ پر ہم نے ایک بزرگ صحافی سے یہ جملہ سنا ،جو آدمی لاکھوں روپے تنخواہ پر جاے گا ،اسے عام صحافی کے مسایل کا کیا احساس ہو گا اور عام آدمی کی پریشانیوں سے کیا سروکار ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید سہیل وڑایچ صاحب بھی اب اسی قبیل میں شامل ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔وڑایچ صاحب کے اس اقدام کے سلسلے میں دو آرا ابھی تک صحافی برادری میں گردش کررہی ہیں ۔۔۔۔پہلی یہ کہ سہیل وڑایچ صاحب چونکہ جنگ گروپ سے برسوں پرانا تعلق توڑ کر بڑی بھاری تنخواہ پر دنیا گروپ میں تشریف لاے ہیں ،اور اس سطح کے لوگ جب اپنی نیی دنیا بساتے ہیں تو وہاں اپنی ٹیم ساتھ لاتے ہیں ۔۔۔۔ممکن ہے کہ وڑایچ صاحب نے اس لیے یہ تلوار چلای ہو ۔ہماری اطلاع کے مطابق وڑایچ صاحب روزنامہ دنیا کے کچھ سینیر کالم نویسوں کے کالموں پر بھی آج کل اعتراض کرتے پاے جاتے ہیں ۔اور ممکن ہے کہ اگلے چند روز میں روزنامہ دنیا سے چند سینیر کالم نویسوں کو فارغ کیے جانے کی خبر بھی آجاے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں دوسری راے یہ گردش کر رہی ہے کہ سہیل وڑایچ صاحب جس میڈیا گروپ کو چھوڑ کر دنیا گروپ میں آے ہیں ،اس گروپ کا یہ پرانا طریقہ واردات ہے کہ وہ اپنے مدمقابل میڈیا گروپ کی جڑیں کاٹنے کے لیے اپنے لوگ اس گروپ میں شامل کر دیتے ہیں جو مدمقابل کو اندر ہی اندر نقصان پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے صحافی برادری میں یہ راے بھی زیر بحث ہے کہ سہیل وڑایچ صاحب کا یہ اقدام کہیں ایسی ہی کوی چال تو نہیں۔۔۔۔۔ہم سہیل وڑایچ صاحب اور دنیا گروپ کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اپنے ان صحافی بھایوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں جنہیں دنیا نیوز کی ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے ۔اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں صحافتی تنظیموں اور لاہور پریس کلب کی طرف سے احتجاجی تحریک چلانے کی جو باتیں سامنے آ رہی ہیں ،وہ بے حد خوش آیند ہیں۔لیکن یہ اعلان صرف اعلان تک ہی محدود نہیں رہنے چاہییں بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدام بھی ہونا چاہیے ۔۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صحافی برادری کے نمبرداروں اور نمایندوں کی کمزوری ہے کہ ایک کارکن صحافی لوگوں کے مسایل کی خاطر صبح سے شام تک بھاگتا رہتا ہے لیکن جب خود اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کم از کم اس بار تو صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کی قیادت کو اپنے وجود اور طاقت کا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔۔۔۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)