Translate

جمعہ، 1 مئی، 2020

اصحاب دعوت اور آخری معرکہ ، حاجی عبدالوہاب ، مولانا محمد احمد بہاولپوری کی پیشن گوئی ، Corona Virus And Tableeghi Jamat , Tableeghi Jamat , Raiwind ,

اصحابِ دعوت اور آخری معرکہ 

بے نیام۔۔۔منصوراصغر راجہ 

وسط اپریل 2011ء کی ایک سہانی صبح مولانا محمد احمد بہاولپوریؒ نے تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”دنیا بھر میں پائے جانے والے انسانوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ۱)اصحابِ دعوت،۲) صاحبانِ تصوف،۳)بے عمل مسلمان اور ۴)عالمِ کفر۔یاد رہے کہ جب تک اصحابِ دعوت اور عالمِ کفر کے مابین ٹکراؤ نہیں ہو گا،دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا“۔
عہدِ حاضر میں اصحابِ دعوت کا یہ قافلہ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کے نام سے اپنی منفرد پہچان کا حامل ہے جس کی بنیاد قریباً ایک صدی قبل مولانا الیاس دہلویؒ نے رکھی تھی۔حضرت جی علیہ الرحمہ نے اس پُر فتن دور میں انبیا کرام ؑ کی اس مبارک محنت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے صرف ایک اصول کے تحت کام شروع کیا تھا کہ بے طلب لوگوں کو بے غرض ہو کر دین کی بات بتائی جائے اور اسی کا نام تبلیغ ہے۔پرانے بزرگ بتاتے ہیں کہ حضرت جیؒ محنت مزدوری کے لیے دہلی آنے والے میواتیوں کو اپنے پاس بٹھاتے اور بڑی لجاجت سے کہتے کہ بھائی! تم میرے پاس بیٹھ کر حقہ بھی پیو، سارے دن کی مزدوری بھی مجھ سے لے لینا اور اس کے عوض مجھ سے پہلا کلمہ سیکھ لو۔یوں خوش نصیب میواتیوں کو اس قافلہِ دعوت کی خشتِ اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔بستی نظام الدین دہلی سے شروع ہونے والی اس محنت کے اہداف بڑے واضح ہیں کہ مخلوق کو اس کے خالق کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ وہ در در پر ماتھا ٹیکنے کے بجائے صرف ایک ربّ کے در کی سوالی بن جائے۔ابن آدم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے کہ رنگینیوں سے مزین یہ کائناتِ رنگ و بُو محض اِ ک جہان ِ فانی ہے جبکہ حیاتِ ابدی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی جس کی پہلی منزل قبر ہے اور وہ ایسی زندگی ہے جس کے بارے میں امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو رائی کے دانوں سے بھر دیا جائے، ایک ہزار برس بعد ایک پرندہ آئے اور ایک دانہ اٹھا کر لے جائے، تو ایک نہ ایک دن وہ دانے ختم ہو جائیں گے لیکن آخرت کی زندگی کبھی ختم نہ ہوگی۔اس لیے عقلمندی یہی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں سے کچھ وقت اس حیاتِ ابدی کی تیاری کے لیے بھی صرف کیا جائے۔علاوہ ازیں حضرتِ انسان کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا جائے کہ باری تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کو اعمالِ صالح سے مشروط کر رکھا ہے۔اگر کامیابی کے لیے حکومت و وزارت، مال و دولت اور حسن و جمال ہی شرط ہوتے تو فرعون و نمرود، قارون و ہامان اور ابولہب کبھی بھی راندہِ درگاہ نہ ہوتے۔اس قافلہِ دعوت میں شامل ہونے والا ہر خاص و عام اس بات کا پابند ہے کہ وہ  دین کی دعوت دیتے ہوئے چھ نکات سے باہر نہ نکلے۔ بعض ناواقف لوگ اکثر ان چھ نمبروں کا بھی تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں،کہ تبلیغ والوں کو اس کے علاوہ اور کچھ آتا جاتا ہی نہیں ہے حالانکہ وہ بے چارے نہیں جانتے کہ یہ چھ نمبر درحقیقت چھ بیماریوں کا شافی علاج ہیں۔ضعفِ ایمان کا علاج کلمے کی دعوت، حبِ معصیت کا علاج نماز، جہالت و غفلت کا علاج علم و ذکر، حبِ جاہ کا علاج اکرامِ مسلم، حبِ غیر اللہ کا علاج تصحیح نیت اور حبِ الدنیا و کراھیتہ الموت کا علاج دعوت و تبلیغ میں پنہاں ہے۔جنہیں یہ بات سمجھ نہ آئے وہ عملی طور پر آزما کر دیکھ لیں۔
 تحدیث بالنعمت کے طور پر عرض کیے دیتے ہیں، یہ ہماری خوش بختی ہے کہ چند برس پہلے ہمارے ربّ نے ہمیں بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ چار مہینے لگانے کے لیے قبول فرمایا اور بلاشبہ وہ ہماری زندگی کے سنہرے ترین دن تھے۔چار مہینے والوں کا جب آدھا وقت پورا ہوتا ہے تو پھر وہ تبلیغی مرکز رائے ونڈ کے مختلف شعبوں میں دس یا بیس روز کے لیے خدمت پر متعین ہوتے ہیں۔ خدمت کا یہ عمل بھی اصحابِ دعوت کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتاہے۔بحمدللہ ہمیں مرکز کے شعبہ خطوط میں دس روزہ خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔یہ وہ شعبہ ہے جو پاکستان سے باہر دنیا بھر میں مصروفِ کار جماعتوں سے خط کے ذریعے رابطہ رکھتا ہے۔اس شعبے میں سیاہ رنگ کی ایک فائل تھی جس میں اُن تمام خطوط کی نقول رکھی جاتی تھیں جوحضرت حاجی عبدالوہابؒ کی طرف سے بیرونِ ملک کام کرنے والی جماعتوں کو گاہے گاہے لکھے جاتے تھے۔شعبہ خطوط میں موجود بزرگ ہمیں کہتے تھے کہ فارغ اوقات میں ان خطوط کو ضرور پڑھا کرو کہ اس ولی کامل کے مکتوبات میں بھی قدرت نے عجب تاثیر رکھی ہے،اس لیے ان کا مطالعہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔چنانچہ ہم فارغ اوقات میں ان خطوط کو ضرور پڑھتے اور ان کے اقتباسات اپنی بیاض میں نوٹ کرتے رہتے۔تبلیغی جماعت کے منہج و اسلوبِ کار کو سمجھنے کے لیے حاجی صاحبؒ کے خطوط میں سے تین اقتباس پیش ہیں۔
2010ء میں برازیل میں مصروف کار ایک جماعت کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں:
”سارے عالم میں سو فیصد دین اسلام زندہ ہوجانے کا آسمانی فیصلہ ہم دینی محنت کرنے والوں پر موقوف ہے،اور وہ بھی محنت کرنے والوں کی تعداد پر نہیں بلکہ ان کی صفات پر ہے۔محنت کرنے والے وہ تمام ظاہری شکلیں اورباطنی صفات اختیار کریں جو حضور اقدس ؐ نے اختیار کیں تو محنت کرنے والے تھوڑے بھی ہوں گے تو بھی ان کی تھکا دینے والی محنت، رُلا دینے والی دعا اور گھلا دینے والی فکر پر اللہ دین کو زندہ کریں گے اور ہدایت کے آفتاب کے طلوع ہونے کا فیصلہ فرمائیں گے،چاہے اہل باطل لاکھ  تدبیریں اس کی مخالفت میں اختیار کریں“۔
2008ء میں ایران میں کام کرنے والی ایک جماعت کے نام مکتوب میں ساتھیوں کو ان نصائح سے نوازا:
”اس محنت میں ایمان و یقین کی جدوجہد بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔مادی نقشوں اور چیزوں کا تاثر دل سے نکل جائے، اللہ کی کبریائی،ربوبیت اور الوہیت دلوں پر چھا جائے، اللہ کی خشیت اور تقویٰ دلوں میں آ جائے، اللہ کی ذاتِ عالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور اللہ کے غیر سے اللہ کے ارادے کے بغیر کچھ بھی نہ ہونے کا یقین دلوں کے اندر اُتر جائے۔جب بھی ہمیں مشکلات سے دوچار ہونا پڑے تو بھول کر بھی ہماری نگاہ اسباب کی طرف یعنی اللہ کے غیر کی طرف نہ جائے۔پیارے نبیؐ کے عمل کو ہی اختیار کیا جائے،نماز پڑھ کر اللہ ہی سے مسائل حل کروائیں“۔
2006ء میں جنوبی افریقہ میں مصروفِ عمل ایک جماعت کے نام خط میں رقم فرمایا:
”آپ خوب جانتے ہیں کہ ہمارا یعنی امتِ مسلمہ کا مسئلہ انفرادی، علاقائی یا ملکی نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور عالمی ہے،اس لیے جب تک پوری امت کے پورے دین پر آجانے کی فکر اور اس کے لیے مناسب جدوجہد نہیں کی جائے گی۔ہمارا نہ انفرادی مسئلہ حل ہو گا،نہ علاقائی اور نہ ہی ملکی۔اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ہمیں وہ محنت عطا فرمائی جس کے امت میں رواج پا جانے سے ساری امت کے اجتماعی اور ہر ہر امتی کے انفرادی مسائل حل ہو سکتے ہیں“۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصحابِ دعوت کے اہداف اور ایجنڈا انفرادی و مقامی نہیں بلکہ اجتماعی و عالمی ہے۔موجودہ پُر فتن دور میں خاموشی سے دلوں کو فتح کرنے والی ایسی پُرامن اصلاحی تحریک کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔سنتِ رسولؐ کے احیا ء و فروغ کے لیے دنیا بھر میں سرگرداں اصحابِ دعوت عرصہ دراز سے مغربی تہذیب کے علمبرداروں کو خار کی مانند کھٹک رہے ہیں لیکن قانون کی پاسداری پر یقین رکھنے والے ان مردانِ خدامست پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا۔نائن الیون کے بعد اگرچہ ان کا تعلق دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ساتھ جوڑنے کی سعی کی گئی۔پرویز مشرف کے حبس زدہ عہد میں علاقائی اجتماعات بند کرانے کی کوشش کی گئی۔بیرون ممالک سے رائے ونڈ تشریف لانے والے معزز مہمانوں کے لیے بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جن میں عرب مہمان خاص طور پر نشانہ بنے۔جولائی 2011ء میں اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ عبدا لرحمان ملک نے لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سکیورٹی سٹڈیز نامی سکیورٹی ٹھنک ٹینک کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رائے ونڈ کا تبلیغی مرکز انتہاپسندی کی پرورش گاہ ہے جو انتہاپسندوں کی برین واشنگ میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔اس بیان پر قومی سیاسی حلقوں میں خاصی لے دے ہوئی،حتیٰ کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی ان سے وضاحت طلب کی۔دوسری طرف انسداد دہشت گردی کے لیے اکابرینِ تبلیغی جماعت نے قومی دفاعی اداروں کے ساتھ ہمیشہ بھرپور تعاون کیا۔سرکاری اداروں نے جب بھی رائے ونڈ مرکز میں سرچ آپریشن کرنے کی خواہش ظاہر کی،حضرات نے مرکز کے دروازے ان کے لیے کھول دئیے۔اس کے باوجود کرونا وبا کی آڑ میں ایسی پُرامن جماعت کے خلاف کارروائیوں کو دیکھ کر یہ شبہ قوی تر ہوجاتا ہے کہ یہ جرثومہ خودرَو نہیں ہے بلکہ اسے کسی کثیر المقاصدعالمی ایجنڈے کے تحت تخلیق کیا گیااور اس ایجنڈے میں تبلیغی جماعت کی بیخ کنی بھی شامل ہے۔
پاک و ہند میں اصحابِ دعوت کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینا، بھارت میں مرکزی قیادت کے خلاف مقدمے کا اندراج، پاکستان میں تبلیغی مراکز کی تالہ بندی اور مسلسل نگرانی، رائے ونڈ مرکز میں قیام پذیر اکثر علمائے کرام اور کارکنوں کی کرونا رپورٹ منفی آنے کے باوجود انہیں قرنطینہ سینٹر کی طرف زبردستی دھکیلنا اور کرونا کی ہنگامہ آرائی شروع ہوتے ہی بی بی سی اردو کا اپنی رپورٹ میں یہ ”انکشاف“ کہ سندھ کے لوگ تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں،ان ساری کڑیوں کو باہم ملانے سے پوری تصویر واضح ہوجاتی ہے اور بلاشک و شبہ ہم یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ محض تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ آخری معرکے کا نکتہ آغاز ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اول روز سے ہی اصحابِ دعوت کے خلاف ان کارروائیوں پر قطعاً حیرت نہیں ہورہی بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم جیسا طفلِ مکتب تو گزشتہ کئی برسوں سے ان حالات کے وقوع پذیر ہونے کا منتظر تھا کیونکہ وسط اپریل 2011ء کی ایک سہانی صبح تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں مولانا محمد احمد بہاولپوریؒ کے کہے گئے یہ الفاظ آج بھی ہماری سماعتوں میں گونج رہے ہیں:
”دنیا بھر میں پائے جانے والے انسانوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ۱)اصحابِ دعوت،۲) صاحبانِ تصوف،۳)بے عمل مسلمان اور ۴)عالمِ کفر۔یاد رہے کہ جب تک اصحابِ دعوت اور عالمِ کفر کے مابین ٹکراؤ نہیں ہو گا،دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا“۔
حق تعالیٰ نے چاہا تو اصحابِ دعوت آزمائش کی اس گھڑی کو ہنس کر سہہ جائیں گے کہ آقائے کریمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پتھر مارنے والوں اور گالیاں دینے والوں کو دعا دینا اُن کی محنت کا اولین اصول ہے،لیکن لمحہ ِ فکر تو اُن لوگوں کے لیے ہے جو اصحابِ دعوت کے خلاف 
عالمِ کفر کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔انہیں اپنے انجام کی ابھی سے فکر کرلینی چاہئے۔یاد رہے کہ پرویز مشرف کے دور میں جب حاجی عبدالوہابؒ کو یہ حکومتی پیغام ملا کہ ملک بھر میں علاقائی اجتماعات بند کر دئیے جائیں تو انہوں نے جواب میں حکومتی قاصد سے کہا کہ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو ضرور کر گزریں، میں اس میں ہر گز رکاوٹ نہیں بنوں گا کیونکہ یہ میرا ذاتی کام نہیں ہے۔جس کا یہ کام ہے،وہ جانے اور آپ لوگ جانو۔یہ بالکل وہی جواب تھا جو حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ کو دیا تھا۔آپ جب اپنے دو صد اونٹوں کا تقاضا لے کر ابرہہ کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ آپ کیسے سردارِ قریش ہیں،جنہیں اپنے اونٹوں کی تو فکر ہے لیکن کعبۃ اللہ کی کوئی فکر نہیں،جسے ڈھانے کے لیے میں یمن سے یہاں آیا ہوں۔ اس مردِ دانا نے جواباً فرمایا: میں اونٹوں کا مالک ہوں اس لیے مجھ انہی کی فکر ہے۔جس کا گھر تم ڈھانے آئے ہو،وہ جانے اور تم جانو۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کعبۃ اللہ کے مالک کی نازل کردہ آخری مقدس کتاب میں محفوظ ہے۔البتہ اصحاب ِ دعوت سے دست بستہ عرض ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت قدم رہیں اور اپنے مالک کی طرف متوجہ رہیں۔رائے ونڈ مرکز سے ہماری پہلی بڑی تشکیل ضلع بھکر میں ہوئی۔ناموافق حالات اور صحرائے تھل میں ایک بستی سے دوسری بستی تک پیدل چلتے ہوئے  یہ اخبارنویس جب تھک جاتا تو ہمارے پشتون امیر صاحب ہماری دلجوئی کرتے ہوئے بڑے لاڈ سے فرماتے:”منصور صیب! پریشان نہیں ہونا۔ہر تنگی کے بعد اللہ آسانی لے کر آتے ہیں“۔
(یہ کالم روزنامہ امت کراچی/ راولپنڈی میں 23 اپریل  2020 شائع ہوا )



چندے کا پھند ا,Jamaat Ahmadiya, Humanity First, مرزا غلام احمد قادیانی ،قادیانی رائل فیملی کی چندہ انڈسٹری

چندے کا پھند ا

بے نیام۔۔۔منصور اصغرراجہ 

مرزا بشیر الدین محمود کے عہد میں جب بانی جماعتِ احمدیہ مرزا قادیانی کے صاحبزادے اور ”خلیفہ وقت “ کے بھائی صاحبزادہ شریف احمد کو قادیان کے بازار میں ایک گداگر کے لڑکے حنیف نے سرعام لاٹھیوں سے پیٹا اور بات تھانے کچہری تک جا پہنچی تو بعض مقامی اخبارات نے اس کیس کی خبر کی سرخی یوں جمائی کہ ”صاحبزادہ حنیف اور صاحبزادہ شریف کا مقدمہ“۔احرار رہنما ماسٹر تاج الدین انصاری ؒ کے مطابق بعض مقامی اخباروں نے اس ”صاحبزادگی “ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ دونوں صاحبزادگان نذرو نیاز پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ایک اعلیٰ پیمانے پر نذر وصول کرتا ہے اور دوسرا گھٹیا طریقے سے نذرانے کے بجائے خیرات پر اکتفا کرتا ہے (ہم نے قادیان میں کیا دیکھا، طاہر عبدالرزاق:115)۔
 مرزا قادیانی کے ”سلسلہ نبوت“ میں چندے کے نظام کو ریڑھ کی ہڈی کا درجہ حاصل ہے کیونکہ گورداسپور کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بیٹھ کر خانہ ساز نبوت تراشنے کا سب سے بڑا محرک پاپی پیٹ ہی تھا۔پروفیسر الیاس برنیؒ نے اپنی کتاب ”قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ“ میں تحفہ قیصریہ، حقیقۃ الوحی، سیرت المہدی جدید، خطوط امام بنام غلام اور انوار العلوم جیسی امہات کتب سے جو قادیانی روایات نقل کی ہیں،اُن کے مطابق دراصل جب برطانوی استعمار برصغیر میں جعلی نبی تلاش کر رہا تھا تو عین انہی ایام میں مرزا قادیانی خاندانی زوال کے باعث غربت کے ہاتھوں تنگ آئے ہوئے تھے۔اگرچہ ان کے والد مرزا غلام مرتضیٰ دربار گورنری میں کرسی نشین بھی تھے اور انگریز سرکار کے ایسے خیر خواہ تھے کہ 1857ء کی جنگ آزادی میں انہوں نے پچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کر اور پچاس جوان جنگجو بہم پہنچا کر اپنی حیثیت سے زیادہ انگریز سرکار کی مدد کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی ریاست زوال پذیر ہوتی گئی اور ان کی حیثیت ایک معمولی درجے کے زمیندار کی سی رہ گئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریز سرکار نے اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے بعد قادیان کے اس رئیس گھرانے کو مزید نوازنے کے بجائے ان کی خاندانی جاگیر ضبط کرکے سات سو روپے سالانہ اعزازی پنشن مقرر کردی جو مرزا قادیانی کے داد ا کی وفات کے بعد صرف 180روپے رہ گئی،اور تایا کے بعد تو وہ بھی بند ہو گئی۔مرزا قادیانی خود تسلیم کرتے ہیں کہ،”ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی امید نہیں تھی کہ دس روپے ماہوار آئیں گے“(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن،ج 22، ص 220)۔
ایسی کمزور مالی حالت کے باوجود مرزا قادیانی کے شوق شاہانہ تھے۔سیرت المہدی جدید میں بیان کی گئی قادیانی روایات کے مطابق انہیں اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے بہت پسند تھے۔سالم مرغ کا کباب اور گوشت کی خوب بھنی ہوئی بوٹیاں مرغوب تھیں۔تیتر،بٹیر،فاختہ اور مرغ کا گوشت بھی پسند فرماتے تھے۔گڑ کے بنے ہوئے میٹھے چاول،انگور،بمبئی کا کیلا،ناگپوری سنگترے،سیب،سردے اور آم زیادہ پسند تھے۔بازاری مٹھائیوں سے بھی کسی قسم کا پرہیز نہ تھا۔روغن بادام،مشک و عنبر اور مفرح عنبری کا تو مذکور ہی کیا،اعصابی کمزوری دور کرنے کے لیے آنجہانی مرزا ”زدجام عشق“نامی جو الہامی نسخہ تیار کرتے تھے،وہ بھی خاصا مہنگا تھا کیونکہ اس کی تیاری میں زعفران،دارچینی،جائفل،افیون،مشک،عقر قرحا،شنگرف اور قرنفل استعمال ہوتی تھی۔علاوہ ازیں ولایت سے سربند بوتلوں میں آنے والی طاقتور شراب ٹانک وائن سے بھی شوق فرماتے تھے۔ان عیاشیوں کے لیے پیسہ درکار تھا۔چنانچہ جس طرح چھینکا ٹوٹنے پر بلی کے بھاگ جاگ جاتے ہیں،ویسے ہی انگریز سرکار کی طرف سے جعلی نبوت کی نوکری ملنے پر بانی جماعتِ احمدیہ کے بھی مقدر جاگ اٹھے۔لہٰذا انہوں نے اپنی ذاتی غربت مٹانے کے لیے اپنی ’’امت“ سے چند ے کا مطالبہ شروع کیا اور اس سلسلے میں انبیاکرام پر بہتان طرازی سے بھی گریز نہ کیا۔ذرا ان کے مطالبے کے الفاظ پر غور فرمائیے:
 ”قوم کو چاہیے کہ ہر طرح سے اس سلسلے کی خدمت بجا لاوئے۔مالی طور پر بھی خدمت کی بجاآوری میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔رسول کریم ؐ،حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کیے گئے۔پس ہماری جماعت کے لوگوں کو بھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتا تو اسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے“(ملفوظات،ج 6، ص38)۔چنانچہ انہوں نے اپنی ”امت“ کے لیے چندے کے نام پر ایسا مضبوط پھندا تیار کیا کہ وہ مہد سے لحد تک چندے ہی میں الجھی رہے۔
اگر چہ ابتدا ء میں مرزا قادیانی نے مبلغ اسلام کا روپ دھار کر پوری مسلمان قوم کو لوٹنے کی بھی سعی کی۔لیکن دعویٰ جعلی نبوت کے بعد تو اول بذات خود انہوں نے اور بعد ازاں ان کے جانشین مرزا محمود نے اپنی جماعت میں چندے کا ایسا مضبوط نظام قائم کیا کہ جسے قادیانی رائل فیملی کی ”چندہ انڈسٹری“ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔اس خانہ ساز نبوت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جس طرح بھوک کے ہاتھوں ستایا ہوا غریب آدمی دو جمع دو کا جواب چارروٹیاں دیتا ہے،اسی طرح مرزا قادیانی کو بھی وحی، الہامات اور خوابوں میں چندے کے منی آرڈر ہی آتے دکھائی دیتے تھے۔مثال کے طور پر ایک مرتبہ صبح سویرے اس جعلی نبی پر وحی کے یہ الفاظ نازل ہوئے،”عبداللہ خان ڈیرہ اسماعیل خان“۔موصوف نے اس وحی کا مطلب یہ نکالا کہ عبداللہ خان نامی کوئی شخص ڈیرہ اسماعیل خان سے اسی روز انہیں کچھ رقم بھیجے گا۔قادیان کے کچھ ہندو بانی جماعتِ احمدیہ پر وحی اترنے کے منکر تھے۔چنانچہ”نزولِ وحی“ کے بعد مرزا قادیانی بھاگے بھاگے ان ہندوؤں کے پاس پہنچے اور انہیں تازہ ترین وحی کے مندرجات سے آگاہ کرتے ہوئے چیلنج کیا کہ اگر عبداللہ خان نامی آدمی نے آج ہی مجھے پیسے نہ بھیجے تو سمجھ لینا کہ میں حق پر نہیں۔ستم یہ ہوا کہ اس نام کے آدمی کی طرف سے ارسال کردہ منی آرڈر اسی روز مرزا قادیانی کو موصول ہو گیا جس پر ہندو منکرین مبہوت رہ گئے (حقیقہ الوحی،روحانی خزائن،ج 22، ص 275)۔ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے۔مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ نقد چندے،تحائف اور ہدایا کی آمد کے سلسلے میں خدا کی طرف سے انہیں جو الہامات ہوئے،ان کی تعداد پچاس ہزار تھی:”یاد رہے کہ خدا تعالیٰ کی مجھ سے یہ عادت ہے کہ اکثر جو نقد روپیہ آنے والا ہو یا اور چیزیں تحائف کے طور پر ہوں۔ان کی خبر قبل از وقت بذریعہ الہام یا خواب کے مجھ کو دے دیتا ہے اور اس قسم کے نشانات پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہوں گے (حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن،ج 22، ص 346)۔قادیانیت سے تائب ہونے والے ملک جعفر خان معروف قانون دان اور سابق وفاقی وزیر تھے۔انہوں نے پون صدی قبل اپنی کتاب ”احمدیہ تحریک“ میں لکھا: ”میری رائے میں خاندانی اقتدار اور وجاہت قائم کرنا مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کالا زمی جزو تھا“۔(صفحہ 14)
اس چند ہ انڈسٹری اور خاندانی اقتدار کو مرزا بشیر الدین محمود نے اپنے عہد میں کچھ اس طرح مستحکم کیا کہ اُن کے باوا کی ”امت“ ان کی ذاتی غلام بن کر رہ گئی۔شیخ راحیل احمدؒ پیدائشی قادیانی تھے۔نصف صدی تک جماعتِ احمدیہ کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر کام کیا۔جماعت کی رگ رگ سے واقف تھے۔انہوں نے ”مضامین ِ راحیل“ میں قادیانی چندے کی پچاس مدات بیان کی ہیں جن میں پندرہ سے زائد مدات لازمی ہیں جن میں کسی بھی قادیانی گھرانے کا ہر فرد چندہ ضرور دیتا ہے ورنہ اس کا ایمان اور اخلاص مشکوک ہوجاتا ہے۔ان میں سب سے دلچسپ چندہ بہشتی مقبرے کا ہے۔شیخ راحیل احمد ؒ کے بقول ”شروع میں جنت کے لیے پہلے صرف احمدی ہونا شرط تھا۔پھر مالی قربانی شرط بنی۔پھر معیاری چندے شرط بنے،اور یہ بھی کافی نہیں، تو اب کچھ وصیت کراؤ تب کچھ بات بنے گی۔اس قسم کا تاثر دیا جاتا ہے کہ ویسے تو اللہ غفور الرحیم ہے،اگر بخشنا چاہے گا تو علیٰحدہ بات ہے ورنہ جنت میں جانے والے لوگ بہشتی مقبرہ سے ہی لیے جائیں گے۔اِس کے بعد اگر اُس کی مرضی ہوئی تو باقی جنتی بھی احمدیوں سے ہی لیے جائیں گے“(مضامین ِ راحیل:255)۔بہشتی مقبرے کا چندہ تو اتنا مشہور تھا کہ اردو کے منفرد انشا پرداز خواجہ حسن نظامیؒ نے ایک مرتبہ مرزا محمود کی دعوت پر اپنے چند دوستوں کے ہمراہ قادیان کا دورہ کیا۔واپسی پر انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ہم نے قادیان میں امور عامہ کا دور ہ کیا، نشرو اشاعت او ر تحریک جدید کے دفاتر دیکھے، اور پھر بہشتی مقبرے پہنچے تو اسے سبزہِ نورستہ کے اعتبارسے واقعی جنت معنوی پایا۔لیکن ایک بات بڑی حیران کن تھی کہ اس کے تمام درختوں اور پیڑوں پر قطار اندر قطار بیٹھے ہوئے پرندے ایک ہی راگ الاپ رہے تھے، چندہ،چندہ،چندہ۔
لیکن دوسری طرف گھر کے کچھ ایسے بھیدی بھی تھے جو مرزا قادیانی کی زندگی میں ہی لوگوں کو چیخ چیخ کر بتایا کرتے تھے کہ یہ نبوت نہیں محض دکانداری ہے۔ اس کی ایک مثال مرزا شیر علی ہیں۔مرزا شیر علی،مرزا قادیانی کے برادر نسبتی اور ان کے بیٹے مرزا فضل احمدکے خسر تھے۔بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی۔سفید رنگ تھا۔تسبیح ہاتھ میں لیے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے۔وہ قادیان میں بہشتی مقبرے کی سڑک پر دارالضعفاء کے پاس بیٹھ جاتے۔ہاتھ میں ایک لمبی تسبیح ہوتی۔تسبیح کے دانے پھیرتے جاتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے۔بُرا لٹیرا ہے۔لوگوں کو لوٹنے کے لیے دوکان کھول رکھی ہے۔جو کوئی نیا آدمی آتا،اسے اپنے پاس بلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کردیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے۔آخر میں نے کیوں نہ اسے مان لیا۔اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں۔میں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے کے لیے کھولی گئی ہے۔اصل میں آمدنی کم تھی۔بھائی نے جائیداد سے بھی محروم کر دیا۔اس لیے یہ دکان کھول لی ہے۔آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کہ پتا نہیں کتنا بڑا بزرگ ہو گا۔پتا تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں۔یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لیے آپ کو بتائی ہیں (انوارالعلوم،ج 18، ص 237)۔
جب اس طرح کے عادی چندہ خورکسی وبا یا آفت کی وجہ سے پریشان مسلمانوں کی امداد کے لیے میدان میں نکلیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔پنجابی محاورے کے مطابق ہندو بنئے نے ایویں ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ اس کی ماں اگر سر بازار منہ کے بل گری ہے تو کچھ دیکھ کر ہی گری ہوگی۔اس لیے جماعت ِ احمدیہ کے ذیلی ادارے Humanity Firstکی رفاہی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔چند برس پہلے ایک سابق قادیانی مربی نے اپنے انٹرویو میں ہمیں بتایا تھا کہ وہ اندرون سندھ میں محض چند ٹافیوں کے عوض سادہ لوح مسلمانوں سے جماعت ِ احمدیہ کا رکنیت فارم بھروا لیتے تھے۔واقفان حال بتاتے ہیں کہ Humanity First کوئی رفاہی ادارہ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کا تبلیغی ادارہ ہے جو رفاہی سرگرمیوں کی آڑ میں قادیانیت کا پرچار کرتا ہے۔شیخ راحیل احمد ؒ کے الفاظ میں ”ہیومینٹی فرسٹ کی تنظیم بظاہر انسانی ہمدردی کی تنظیم ہے لیکن حقیقت میں شعبہ تبلیغ کا ذیلی ادارہ ہے۔جہاں تبلیغ کے چانس ہوں،وہیں ان کی انسانی ہمدردی جاگتی ہے“(مضامین ِ راحیل:254)۔ضرورت اس امر کی ہے کہ علماکرام،سکالرز،فتنہ قادیان سے آگاہی رکھنے والے عصری و دینی اداروں کے اساتذہ کرام،قانون دان اور قلمکار بھی اس طرف فوری توجہ دیں اور عوام الناس کو اس فتنے سے آگاہ کریں کہ چند ہزار روپوں کی خاطر اپنے ایمان کا سودا کرنا ہمیشہ کے خسارے کا سودا ہے۔باری تعالیٰ دور حاضر کے ہر چھوٹے بڑے فتنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔

(یہ کالم روزنامہ امت کراچی/ راولپنڈی میں 18 اپریل  2020 شائع ہوا )