Translate

جمعہ، 1 مئی، 2020

اصحاب دعوت اور آخری معرکہ ، حاجی عبدالوہاب ، مولانا محمد احمد بہاولپوری کی پیشن گوئی ، Corona Virus And Tableeghi Jamat , Tableeghi Jamat , Raiwind ,

اصحابِ دعوت اور آخری معرکہ 

بے نیام۔۔۔منصوراصغر راجہ 

وسط اپریل 2011ء کی ایک سہانی صبح مولانا محمد احمد بہاولپوریؒ نے تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
”دنیا بھر میں پائے جانے والے انسانوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ۱)اصحابِ دعوت،۲) صاحبانِ تصوف،۳)بے عمل مسلمان اور ۴)عالمِ کفر۔یاد رہے کہ جب تک اصحابِ دعوت اور عالمِ کفر کے مابین ٹکراؤ نہیں ہو گا،دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا“۔
عہدِ حاضر میں اصحابِ دعوت کا یہ قافلہ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کے نام سے اپنی منفرد پہچان کا حامل ہے جس کی بنیاد قریباً ایک صدی قبل مولانا الیاس دہلویؒ نے رکھی تھی۔حضرت جی علیہ الرحمہ نے اس پُر فتن دور میں انبیا کرام ؑ کی اس مبارک محنت کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے صرف ایک اصول کے تحت کام شروع کیا تھا کہ بے طلب لوگوں کو بے غرض ہو کر دین کی بات بتائی جائے اور اسی کا نام تبلیغ ہے۔پرانے بزرگ بتاتے ہیں کہ حضرت جیؒ محنت مزدوری کے لیے دہلی آنے والے میواتیوں کو اپنے پاس بٹھاتے اور بڑی لجاجت سے کہتے کہ بھائی! تم میرے پاس بیٹھ کر حقہ بھی پیو، سارے دن کی مزدوری بھی مجھ سے لے لینا اور اس کے عوض مجھ سے پہلا کلمہ سیکھ لو۔یوں خوش نصیب میواتیوں کو اس قافلہِ دعوت کی خشتِ اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔بستی نظام الدین دہلی سے شروع ہونے والی اس محنت کے اہداف بڑے واضح ہیں کہ مخلوق کو اس کے خالق کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ وہ در در پر ماتھا ٹیکنے کے بجائے صرف ایک ربّ کے در کی سوالی بن جائے۔ابن آدم کو یہ بھولا ہوا سبق یاد دلایا جائے کہ رنگینیوں سے مزین یہ کائناتِ رنگ و بُو محض اِ ک جہان ِ فانی ہے جبکہ حیاتِ ابدی تو مرنے کے بعد شروع ہوگی جس کی پہلی منزل قبر ہے اور وہ ایسی زندگی ہے جس کے بارے میں امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ اگر زمین و آسمان کے درمیانی خلا کو رائی کے دانوں سے بھر دیا جائے، ایک ہزار برس بعد ایک پرندہ آئے اور ایک دانہ اٹھا کر لے جائے، تو ایک نہ ایک دن وہ دانے ختم ہو جائیں گے لیکن آخرت کی زندگی کبھی ختم نہ ہوگی۔اس لیے عقلمندی یہی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں سے کچھ وقت اس حیاتِ ابدی کی تیاری کے لیے بھی صرف کیا جائے۔علاوہ ازیں حضرتِ انسان کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا جائے کہ باری تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کو اعمالِ صالح سے مشروط کر رکھا ہے۔اگر کامیابی کے لیے حکومت و وزارت، مال و دولت اور حسن و جمال ہی شرط ہوتے تو فرعون و نمرود، قارون و ہامان اور ابولہب کبھی بھی راندہِ درگاہ نہ ہوتے۔اس قافلہِ دعوت میں شامل ہونے والا ہر خاص و عام اس بات کا پابند ہے کہ وہ  دین کی دعوت دیتے ہوئے چھ نکات سے باہر نہ نکلے۔ بعض ناواقف لوگ اکثر ان چھ نمبروں کا بھی تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں،کہ تبلیغ والوں کو اس کے علاوہ اور کچھ آتا جاتا ہی نہیں ہے حالانکہ وہ بے چارے نہیں جانتے کہ یہ چھ نمبر درحقیقت چھ بیماریوں کا شافی علاج ہیں۔ضعفِ ایمان کا علاج کلمے کی دعوت، حبِ معصیت کا علاج نماز، جہالت و غفلت کا علاج علم و ذکر، حبِ جاہ کا علاج اکرامِ مسلم، حبِ غیر اللہ کا علاج تصحیح نیت اور حبِ الدنیا و کراھیتہ الموت کا علاج دعوت و تبلیغ میں پنہاں ہے۔جنہیں یہ بات سمجھ نہ آئے وہ عملی طور پر آزما کر دیکھ لیں۔
 تحدیث بالنعمت کے طور پر عرض کیے دیتے ہیں، یہ ہماری خوش بختی ہے کہ چند برس پہلے ہمارے ربّ نے ہمیں بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ چار مہینے لگانے کے لیے قبول فرمایا اور بلاشبہ وہ ہماری زندگی کے سنہرے ترین دن تھے۔چار مہینے والوں کا جب آدھا وقت پورا ہوتا ہے تو پھر وہ تبلیغی مرکز رائے ونڈ کے مختلف شعبوں میں دس یا بیس روز کے لیے خدمت پر متعین ہوتے ہیں۔ خدمت کا یہ عمل بھی اصحابِ دعوت کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتاہے۔بحمدللہ ہمیں مرکز کے شعبہ خطوط میں دس روزہ خدمت کی سعادت حاصل ہوئی۔یہ وہ شعبہ ہے جو پاکستان سے باہر دنیا بھر میں مصروفِ کار جماعتوں سے خط کے ذریعے رابطہ رکھتا ہے۔اس شعبے میں سیاہ رنگ کی ایک فائل تھی جس میں اُن تمام خطوط کی نقول رکھی جاتی تھیں جوحضرت حاجی عبدالوہابؒ کی طرف سے بیرونِ ملک کام کرنے والی جماعتوں کو گاہے گاہے لکھے جاتے تھے۔شعبہ خطوط میں موجود بزرگ ہمیں کہتے تھے کہ فارغ اوقات میں ان خطوط کو ضرور پڑھا کرو کہ اس ولی کامل کے مکتوبات میں بھی قدرت نے عجب تاثیر رکھی ہے،اس لیے ان کا مطالعہ بھی فائدے سے خالی نہیں۔چنانچہ ہم فارغ اوقات میں ان خطوط کو ضرور پڑھتے اور ان کے اقتباسات اپنی بیاض میں نوٹ کرتے رہتے۔تبلیغی جماعت کے منہج و اسلوبِ کار کو سمجھنے کے لیے حاجی صاحبؒ کے خطوط میں سے تین اقتباس پیش ہیں۔
2010ء میں برازیل میں مصروف کار ایک جماعت کے نام خط میں وہ لکھتے ہیں:
”سارے عالم میں سو فیصد دین اسلام زندہ ہوجانے کا آسمانی فیصلہ ہم دینی محنت کرنے والوں پر موقوف ہے،اور وہ بھی محنت کرنے والوں کی تعداد پر نہیں بلکہ ان کی صفات پر ہے۔محنت کرنے والے وہ تمام ظاہری شکلیں اورباطنی صفات اختیار کریں جو حضور اقدس ؐ نے اختیار کیں تو محنت کرنے والے تھوڑے بھی ہوں گے تو بھی ان کی تھکا دینے والی محنت، رُلا دینے والی دعا اور گھلا دینے والی فکر پر اللہ دین کو زندہ کریں گے اور ہدایت کے آفتاب کے طلوع ہونے کا فیصلہ فرمائیں گے،چاہے اہل باطل لاکھ  تدبیریں اس کی مخالفت میں اختیار کریں“۔
2008ء میں ایران میں کام کرنے والی ایک جماعت کے نام مکتوب میں ساتھیوں کو ان نصائح سے نوازا:
”اس محنت میں ایمان و یقین کی جدوجہد بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔مادی نقشوں اور چیزوں کا تاثر دل سے نکل جائے، اللہ کی کبریائی،ربوبیت اور الوہیت دلوں پر چھا جائے، اللہ کی خشیت اور تقویٰ دلوں میں آ جائے، اللہ کی ذاتِ عالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور اللہ کے غیر سے اللہ کے ارادے کے بغیر کچھ بھی نہ ہونے کا یقین دلوں کے اندر اُتر جائے۔جب بھی ہمیں مشکلات سے دوچار ہونا پڑے تو بھول کر بھی ہماری نگاہ اسباب کی طرف یعنی اللہ کے غیر کی طرف نہ جائے۔پیارے نبیؐ کے عمل کو ہی اختیار کیا جائے،نماز پڑھ کر اللہ ہی سے مسائل حل کروائیں“۔
2006ء میں جنوبی افریقہ میں مصروفِ عمل ایک جماعت کے نام خط میں رقم فرمایا:
”آپ خوب جانتے ہیں کہ ہمارا یعنی امتِ مسلمہ کا مسئلہ انفرادی، علاقائی یا ملکی نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور عالمی ہے،اس لیے جب تک پوری امت کے پورے دین پر آجانے کی فکر اور اس کے لیے مناسب جدوجہد نہیں کی جائے گی۔ہمارا نہ انفرادی مسئلہ حل ہو گا،نہ علاقائی اور نہ ہی ملکی۔اللہ نے اپنے فضل و احسان سے ہمیں وہ محنت عطا فرمائی جس کے امت میں رواج پا جانے سے ساری امت کے اجتماعی اور ہر ہر امتی کے انفرادی مسائل حل ہو سکتے ہیں“۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اصحابِ دعوت کے اہداف اور ایجنڈا انفرادی و مقامی نہیں بلکہ اجتماعی و عالمی ہے۔موجودہ پُر فتن دور میں خاموشی سے دلوں کو فتح کرنے والی ایسی پُرامن اصلاحی تحریک کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔سنتِ رسولؐ کے احیا ء و فروغ کے لیے دنیا بھر میں سرگرداں اصحابِ دعوت عرصہ دراز سے مغربی تہذیب کے علمبرداروں کو خار کی مانند کھٹک رہے ہیں لیکن قانون کی پاسداری پر یقین رکھنے والے ان مردانِ خدامست پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا۔نائن الیون کے بعد اگرچہ ان کا تعلق دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ساتھ جوڑنے کی سعی کی گئی۔پرویز مشرف کے حبس زدہ عہد میں علاقائی اجتماعات بند کرانے کی کوشش کی گئی۔بیرون ممالک سے رائے ونڈ تشریف لانے والے معزز مہمانوں کے لیے بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جن میں عرب مہمان خاص طور پر نشانہ بنے۔جولائی 2011ء میں اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ عبدا لرحمان ملک نے لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سکیورٹی سٹڈیز نامی سکیورٹی ٹھنک ٹینک کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رائے ونڈ کا تبلیغی مرکز انتہاپسندی کی پرورش گاہ ہے جو انتہاپسندوں کی برین واشنگ میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے۔اس بیان پر قومی سیاسی حلقوں میں خاصی لے دے ہوئی،حتیٰ کہ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی ان سے وضاحت طلب کی۔دوسری طرف انسداد دہشت گردی کے لیے اکابرینِ تبلیغی جماعت نے قومی دفاعی اداروں کے ساتھ ہمیشہ بھرپور تعاون کیا۔سرکاری اداروں نے جب بھی رائے ونڈ مرکز میں سرچ آپریشن کرنے کی خواہش ظاہر کی،حضرات نے مرکز کے دروازے ان کے لیے کھول دئیے۔اس کے باوجود کرونا وبا کی آڑ میں ایسی پُرامن جماعت کے خلاف کارروائیوں کو دیکھ کر یہ شبہ قوی تر ہوجاتا ہے کہ یہ جرثومہ خودرَو نہیں ہے بلکہ اسے کسی کثیر المقاصدعالمی ایجنڈے کے تحت تخلیق کیا گیااور اس ایجنڈے میں تبلیغی جماعت کی بیخ کنی بھی شامل ہے۔
پاک و ہند میں اصحابِ دعوت کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دینا، بھارت میں مرکزی قیادت کے خلاف مقدمے کا اندراج، پاکستان میں تبلیغی مراکز کی تالہ بندی اور مسلسل نگرانی، رائے ونڈ مرکز میں قیام پذیر اکثر علمائے کرام اور کارکنوں کی کرونا رپورٹ منفی آنے کے باوجود انہیں قرنطینہ سینٹر کی طرف زبردستی دھکیلنا اور کرونا کی ہنگامہ آرائی شروع ہوتے ہی بی بی سی اردو کا اپنی رپورٹ میں یہ ”انکشاف“ کہ سندھ کے لوگ تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں،ان ساری کڑیوں کو باہم ملانے سے پوری تصویر واضح ہوجاتی ہے اور بلاشک و شبہ ہم یہ لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ محض تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ آخری معرکے کا نکتہ آغاز ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں اول روز سے ہی اصحابِ دعوت کے خلاف ان کارروائیوں پر قطعاً حیرت نہیں ہورہی بلکہ سچی بات یہ ہے کہ ہم جیسا طفلِ مکتب تو گزشتہ کئی برسوں سے ان حالات کے وقوع پذیر ہونے کا منتظر تھا کیونکہ وسط اپریل 2011ء کی ایک سہانی صبح تبلیغی مرکز رائے ونڈ میں مولانا محمد احمد بہاولپوریؒ کے کہے گئے یہ الفاظ آج بھی ہماری سماعتوں میں گونج رہے ہیں:
”دنیا بھر میں پائے جانے والے انسانوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ۱)اصحابِ دعوت،۲) صاحبانِ تصوف،۳)بے عمل مسلمان اور ۴)عالمِ کفر۔یاد رہے کہ جب تک اصحابِ دعوت اور عالمِ کفر کے مابین ٹکراؤ نہیں ہو گا،دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا“۔
حق تعالیٰ نے چاہا تو اصحابِ دعوت آزمائش کی اس گھڑی کو ہنس کر سہہ جائیں گے کہ آقائے کریمؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پتھر مارنے والوں اور گالیاں دینے والوں کو دعا دینا اُن کی محنت کا اولین اصول ہے،لیکن لمحہ ِ فکر تو اُن لوگوں کے لیے ہے جو اصحابِ دعوت کے خلاف 
عالمِ کفر کے آلہ کار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔انہیں اپنے انجام کی ابھی سے فکر کرلینی چاہئے۔یاد رہے کہ پرویز مشرف کے دور میں جب حاجی عبدالوہابؒ کو یہ حکومتی پیغام ملا کہ ملک بھر میں علاقائی اجتماعات بند کر دئیے جائیں تو انہوں نے جواب میں حکومتی قاصد سے کہا کہ اگر آپ ایسا چاہتے ہیں تو ضرور کر گزریں، میں اس میں ہر گز رکاوٹ نہیں بنوں گا کیونکہ یہ میرا ذاتی کام نہیں ہے۔جس کا یہ کام ہے،وہ جانے اور آپ لوگ جانو۔یہ بالکل وہی جواب تھا جو حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ کو دیا تھا۔آپ جب اپنے دو صد اونٹوں کا تقاضا لے کر ابرہہ کے پاس گئے تو اس نے کہا کہ آپ کیسے سردارِ قریش ہیں،جنہیں اپنے اونٹوں کی تو فکر ہے لیکن کعبۃ اللہ کی کوئی فکر نہیں،جسے ڈھانے کے لیے میں یمن سے یہاں آیا ہوں۔ اس مردِ دانا نے جواباً فرمایا: میں اونٹوں کا مالک ہوں اس لیے مجھ انہی کی فکر ہے۔جس کا گھر تم ڈھانے آئے ہو،وہ جانے اور تم جانو۔اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کعبۃ اللہ کے مالک کی نازل کردہ آخری مقدس کتاب میں محفوظ ہے۔البتہ اصحاب ِ دعوت سے دست بستہ عرض ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں ثابت قدم رہیں اور اپنے مالک کی طرف متوجہ رہیں۔رائے ونڈ مرکز سے ہماری پہلی بڑی تشکیل ضلع بھکر میں ہوئی۔ناموافق حالات اور صحرائے تھل میں ایک بستی سے دوسری بستی تک پیدل چلتے ہوئے  یہ اخبارنویس جب تھک جاتا تو ہمارے پشتون امیر صاحب ہماری دلجوئی کرتے ہوئے بڑے لاڈ سے فرماتے:”منصور صیب! پریشان نہیں ہونا۔ہر تنگی کے بعد اللہ آسانی لے کر آتے ہیں“۔
(یہ کالم روزنامہ امت کراچی/ راولپنڈی میں 23 اپریل  2020 شائع ہوا )



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں