Translate

منگل، 7 مارچ، 2017

کپتان کے " میٹھے" بول

ایک فقیر صبح سویرے اپنا کشکول لیے حسب معمول گھر سے نکلا ۔وہ جس دروازے پر بھی دستک دیتا ،جواباً اسے خیرات میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا کیونکہ یہ اس دور کا قصہ ہے جب لوگوں کے دل بہت بڑے اور وسیع ہوا کرتے تھے ۔وہ رہتے اگرچہ کچے گھروں میں تھے لیکن ان کے اندر اک دوجے کا احساس بہت زیادہ تھا ۔ابھی رشتوں کا تقدس اور احترام باقی تھا ابھی یہ احساس باقی تھا کہ اگر گھر کے دروازے پر کھڑا کوی حاجت مند اللہ کے نام پر سوال کرے تو اسے خالی واپس نہیں لوٹانا چاہیے ۔گھر کی بزرگ خواتین گھر میں پکنے والے دو وقت کے کھانے میں پنڈ کے کسی غریب مسکین کا حصہ ضرور رکھتی تھیں تاکہ رزق میں بھی برکت رہے اور صدقہ خیرات بھی نکلتا رہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس صدقہ خیرات کے اشتہار نہیں لگاے جاتے تھے بلکہ یہ سارا عمل خاموشی سے ہوتا تاکہ حاجت مند کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔اورہاں ابھی فقیر کو دھتکارنے کا رواج نہیں تھا۔اس فقیر کو بھی کہیں سے آٹا ملا ۔کسی نے اناج کی ایک مٹھی کشکول میں ڈال دی ۔کسی نے پانی یا لسی پلا ی اور کسی نے صرف دعا دیتے ہوے دوبارہ آنے کی تاکید کی ۔چلتے چلتے آدھا دن گزر گیا ۔ادھر سورج ڈھلنے لگا،ادھر فقیر کی بھوک چمکنے لگی ۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے ایک دروازے پر دستک دی ۔بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا تو فقیر بولا،"اماں روٹی کھانی ہے ۔میرے پاس آٹا تو ہے لیکن روٹی کیسے پکاوں "۔بوڑھی اماں نے اسے اندر بلالیا کہ لاو میں تمہیں روٹی پکا دیتی ہوں۔اماں نے آٹا پرات میں ڈالا اور اسے گوندھنے کی تیاری کرنے لگیں ۔فقیر بھی چولہے کے قریبی رکھی پیڑ ھی پر بیٹھ گیا۔اماں ابھی آٹے میں پانی ہی گھول رہی تھیں کہ فقیر کی نظر صحن میں بندھی بھینس اور اس کے اردگرد پھدکتی چھوٹی سی کٹی {بھینس کا مادہ بچہ }پر جا پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقیر کو نجانے کیا سوجھی کہ بولا۔اماں کیا تمہاری بھینس نے سجرا بچہ دیا ہے ۔اماں نے کہا کہ ہاں ہماری بھینس نے دو روز پہلے ہی کٹی دی ہے ۔۔۔۔۔۔فقیر بولا کہ اماں اگر تمہاری بھینس مر جاے تو پھر یہ دو دن کی کٹی کیا کرے گی ۔۔۔۔۔۔اماں کو فقیر کا یہ احمقانہ سوال اچھا تو نہ لگا لیکن انہوں نے اسے ڈانٹنے کی بجاے نرمی سے صرف اتنا ہی کہا کہ پتر،اللہ ہماری بھینس کو سلامت رکھے۔ اس طرح کی باتیں نہیں کرتے ،تمہیں تو دعا دینی چاہیے ۔اس پر وہ احمق آدمی سر ہلا کر رہ گیا ۔اسی اثنا میں گھر کے اندرونی کمرے سے ایک پیاری سی لڑکی باہر آی جس نے نیے کپڑے پہن رکھے تھے اور مناسب طریقے سے بنی ٹھنی ہوی تھی ۔اس کی دونوں کلایوں میں کھنکتی چوڑیاں صاف بتا رہی تھیں کہ اس کی نیی نیی شادی ہوی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اسے دیکھتے ہی فقیرکی رگ حماقت پھر پھڑک اٹھی اور اس نے اماں سے لڑکی کے بارے میں پوچھ لیا ۔اماں نے خوشی سے بتایا، پتر یہ میری بہو ہے ۔۔۔،میں نے ابھی پچھلے مہینے ہی اپنے بڑے بیٹے کا بیاہ کیا ہے ۔فقیر اگر عقلمند ہوتا تو اس کے لیے اتنا جواب کافی تھا لیکن عقلمند ہوتا تو تب نا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اماں پر جھٹ سے اگلا سوال داغ دیا کہ ۔۔۔اماں اگر تمہارا بیٹا مر جاے تو تمہاری یہ بہو کیا کرے گی ،۔۔۔۔۔۔اماں کا تو میٹر گھوم گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کہاں کا آٹا اور کہاں کی روٹی ۔۔۔۔۔انہوں نے فقیر کو دوچار موٹی موٹی گالیاں دیں ،پرات میں گھولا ہوا آٹا اور پانی اس کی چادر میں الٹا اور باہر کی راہ دکھای ۔اب سچویشن کچھ یوں بن گیی کہ فقیر گلی گلی چلا جا رہا تھا ۔اس کی چادر میں سے آٹے اور پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔رستے میں اگر کوی  آدمی اس بارےمیں پوچھتا تو فقیر شرمندہ ہو کر کہتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری زبان کی شیرینی اور مٹھاس ہے جو چادر میں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے بچپن میں یہ کہانی اپنی نانی اماں سے سنی تھی۔کیونکہ ہماری ساری تربیت اپنی نانی اماں کی آغوش میں ہی ہوی ،اس لیے وہ ہمیں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج جب تحریک انصاف کے کپتان پی ایس ایل فاینل میں شرکت کے لیے پاکستان آنے والے غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلوکٹے کہہ رہے تھے تو ہمیں نانی اماں سے سنی ہوی یہ کہانی بے اختیار یاد آی۔ایک قومی ہیرو ،سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی کی زبان کی یہ " شیرینی اور مٹھاس" بے حد افسوس ناک ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ تین خوبیاں انسان کو باکمال بنا دیتی ہیں ،ٹھنڈا دماغ ،میٹھی زبان اور نرم دل ۔۔۔۔۔۔۔۔افسو س اس معاملے میں کپتان کا دامن خالی نظر آتا ہے ۔

1 تبصرہ: