Translate

پیر، 27 فروری، 2017

میڈیا اور دہشت گردی

دو ڈھای برس پہلے کی بات ہے ۔گرمیوں کے دن تھے اور دوپہر کے وقت ہم اپنے دفتر میں بیٹھے معمول کے کام کاج میں مصروف تھے کہ یکایک ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کا شور مچا دیا ۔پہلے ایک چینل پر ٹکر چلا کہ "نشتر ہسپتال ملتان میں دھماکے کی آواز سنای دی ہے" ۔اس کے ساتھ ہی چینلز کے نیوز اینکر چیخنے چلانے لگے اور سب سے پہلے خبر دینے کی دوڑ شروع ہو گیی۔فطری طور پر ہمیں بھی پریشانی لاحق ہوی کہ خدا خیر کرے کہ نشتر ہسپتال جنوبی پنجاب کا بڑا سرکاری ہسپتال ہے ۔۔۔نجانے کتنا نقصان ہوا ہو گا۔۔۔۔۔صرف ہم ہی نہیں بلکہ یقینی طور پر اس وقت ٹی وی دیکھنے والا ہر شخص ہی پریشان ہوا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن حیرت اس وقت ہوی جب کچھ دیر بعد چینلز پر خاموشی چھا گیی اور پھر ایک آدھ چینل پر یہ ٹکر چلا کہ "نشتر ہسپتال میں دھماکے کی آواز پانی کا ایک پایپ پھٹنے کی وجہ سے پیدا ہوی "۔۔۔۔۔کچھ چینلز نے تو اس وضاحت کی ضرور ت بھی محسوس نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔23فروری کو بھی چینلز نے یہی حرکت کی ۔ابھی چینلز پر ڈیفنس میں ہونے والے دھماکے کی تفصیلات آ رہی تھیں ۔شہر بھر میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا ۔والدین اپنے بچوں کو لینے کے لیے سکولوں کی طرف بھاگ رہے تھے کہ اسی اثنا میں چینلز نے شور مچا دیا کہ گلبرگ میں بھی دھماکے کی آواز سنی گیی ہے ۔یہ نام نہاد بریکنگ نیوز سنتے ہی پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہو گیی کہ الہیِ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی روز محض ایک گھنٹے کے اندر لاہور میں دو دھماکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الہی خیر۔۔۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی فوری طور پر گلبرگ کی طرف بھاگے ۔لیکن جب تحقیق ہوی تو پتہ چلا کہ وہاں سے گزرتے کسی رپورٹر نے کسی گاڑی کا ٹایر پھٹنے کی آواز سنی تھی اور فوراً اپنے چینل پر گلبرگ میں بھی دھماکے کی خبر چلوا دی اور باقی چینلز نے تحقییق کرنے کی بجاے بھیڑ چال کے اصول پر عمل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا ایک ہدف خوف و ہراس پھیلانا بھی ہوتا ہے ۔اور یہی کام ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔تو پھر دونوں میں کیا فرق باقی رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم شاید پہلے بھی کہیں ذکر کر چکے ہیں کہ ہم گزشتہ پانچ سال سے رپورٹنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔اگر ایک ہی خبر کی کسی دوسرے سورس سے تصدیق نہ ہو تو اس خبر کو فایل کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ہمارے اساتذہ نے تو ہمیں یہ سبق سکھایا کہ اگر تمہیں کوی یہ کہے کہ میاں ایک کتا تمہارا کان منہ میں دباے بھاگے جا رہا تھا تو کتے کے پیچھے لپکنے سے پہلے ایک بار اپنا کان ضرور دیکھ لیا کرو۔۔۔۔آج کل کے رپورٹرز ۔۔۔۔۔۔۔ہماری مراد الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹرز کی اکثریت  سے ہے { اکثریت اس لیے کہا کہ یہاں بھی سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں }۔۔۔۔۔۔۔۔کی پھرتیوں کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ شاید انہیں یہ سبق الٹ پڑھایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل ہر شخص ہی راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچنا چاہتا ہے ۔۔۔۔ہر شخص چشم زدن میں صف اول کا اینکر بننے کے خواب دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے ٹھیک سے چند جملے لکھنے نہیں آتے ،وہ بھی چاہتا ہے کہ صحافت کا ابتدای سبق "خبر نویسی" پڑھنے اور سیکھنے کی بجاے راتوں رات کالم نویس بن جاے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن بعض لوگ اس سلسلے میں رپورٹر کو بے قصور قرار دیتے ہیں ۔۔۔۔اس طبقہ فکر کا کہنا ہے کہ دراصل جب سے میڈیا نے انڈسٹری کی صورت اختیار کی ہے اور اس کی باگ ڈور تمباکو فروش ،گھی فروش، ،آٹا فروش اور تعلیم فروش لوگوں کے ہاتھ میں آی ہے ،،،،ہمارے ٹی وی چینلز میں سے ایڈیٹر کا عہدہ تو جیسے غایب ہی کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔اوپر سے نیچے تک صرف ریٹنگ کی فکر ہوتی ہے ،اس کے لیے خواہ اپنے کپڑے اتارنے پڑیں یا ایف سی کے کسی جوان سے تھپڑ کھانے پڑیں مالکان کی بلا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کپڑے اتارنے والی بات ہم نے ازراہ طنز بالکل نہیں کہی بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ کے لیے کپڑنے اتارنےیا اتروانے میں کوی شرم محسوس نہیں کی جاتی اور بدقسمتی سے یہ کام اعلی ترین سطح سے ہوتا ہے ۔۔۔۔ایک معروف ٹی وی چینل پر نیوز پروڈکشن کے شعبے میں فرایض انجام دینے والے ایک دوست گزشتہ دنوں ہم سے ملنے آے تو انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا کہ گزشتہ موسم گرما میں ایک روز وہ کسی دوسرے شہر میں موجود اپنی خاتون رپورٹر کا بیپر  ریکارڈ کر رہے تھے کہ اتنے میں ان کے نیوز ڈایریکٹر ان کے پاس آ گیے ۔خاتون رپورٹر خوبصورت بھی تھی اور صحت مند جسم کی مالک بھی ،اسے دیکھتے ہی ڈایریکٹر نے نیوز پروڈیوسر سے کہا کہ " دیکھو اس لڑکی کا بیپر دوبارہ ریکارڈ کرو ۔اور اسے کہو کہ ڈوپٹہ اتار کر  کیمرے کے سامنے آے اور صرف اس کا چہرہ کور کرنے کی بجاے اسے سر سے پاوں تک دکھاو "۔۔۔۔۔۔۔جب چینلز میں اہم پوسٹوں  پر ایسے لوگ براجمان ہونگے تو پھر جو بھی ہو کم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نیوز اینکرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔محلے میں باہم لڑ پڑنے والی خواتین اتنی نہ چیختی ہونگی ،جتنا یہ لوگ خبر پڑھتے ہوے چیختے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیوز کاسٹر کو تو سپاٹ لہجے میں خبر پڑھنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔نیوز کاسٹر اور رپورٹر خبر پڑھتے اور سٹوری فایل کرتے وقت اپنے جذبات ایک طرف رکھ دیتا ہے  تاکہ معروضیت برقرار رہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔۔۔۔ہم کبھی کبھی بی بی سی اردو یا وایس آف امریکہ کا اردو بلیٹن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے نیو ز کاسٹر ہمارے کانوں میں رس گھول رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلبرگ دھماکے کی غلط خبر چلانے والے چینلز کو پیمرا نے نوٹس تو جاری کیا ہے لیکن صرف نوٹس کافی نہیں بلکہ اس سلسلے میں کوی ضابطہ طے کرنی کی ضرورت ہے اور ان چینلز کو کسی قاعدے قانون کے تابع کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم جب چینلز پر مچی اس ہڑبونگ کو دیکھتے ہیں تو اکثر سوچتے ہیں کہ کاش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ وقت واپس لوٹ آے جب رات نو بجے کے خبرنامے کے بعد پی ٹی وی کی نشریات بند ہو جاتی تھیں اور لوگ چین کی نیند سو جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے کاش 

پیر، 20 فروری، 2017

صرف ایک تھپکی

ہماری اما ں مرحومہ کو بڑا شوق تھا کہ ان کا اکلوتا بیٹا ایک اچھا مقرر بنے۔ چونکہ ہمارے بڑے ماموں ٹیچرتھے تو وہ ان سے اکثر کہا کرتیں کہ آپ منصور کو بھی کبھی کبھار سٹیج پر کھڑا کیا کریں تاکہ اسے لوگوں کے سامنے کھڑے ہونے اور بولنے کی عادت ہو جاے ۔ہم اس وقت پہلی جماعت میں تھے ۔سکول میں سالانہ تقریری مقابلہ ہونے والا تھا ۔پہلی جماعت کا چھوٹا سا بچہ بھلا کیا تقریر کر سکتا تھا۔لیکن مقابلے سے ایک دن پہلے ریہرسل کے دوران ماموں جان نے اچانک ہمیں اپنی طرف بلاتے ہوے اعلان کر دیا کہ آج منصور تلاوت کرے گا ۔ہمیں آج بھی یاد ہے کہ پرایمری سکول میں لگے بڑے سے کیکر کے درخت کے نیچے سب طلبہ بیٹھے تھے اورمجمع کےسامنے چند اساتذہ کرسیوں پر تشریف فرما تھے ۔ہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کر اساتذہ کے سامنے پہنچنے تک محاورتاً نہیں حقیقتاً زمانے لگے ۔ٹانگیں تھرتھر کانپ رہی تھیں۔گلا خشک ہوا جا رہا تھا۔جب ہم مجمع کے سامنے پہنچے تو ماموں فرمانے لگے کہ سورت فاتحہ پڑھ دو ۔ہم نے کانپتے کانپتے تلاوت شروع کی اور اس کے ساتھ ہی ہمار ی آواز بھرا گیی ،گلا رندھ گیا اور ابتدای دو تین آیتیں پڑھنے کے بعد ہی ہم رو پڑے ۔طلبہ کے مجمع میں سے دبے دبے قہقہے بلند ہوے ۔اتنے میں ہمارے پیچھے تشریف فرما ایک سینیر ٹیچر ماسٹر محمد منیر مرحوم نے آگے بڑھ کر ہمیں اپنی گود میں لے لیا ۔ ہماری پیشانی چومی ، سر پر پیار سے پھیرا اور ہماری دل جوی کے لیے چند تعریفی کلمات بھی ارشاد فرماے ۔۔۔۔اس طرح اگلے چند منٹوں میں ہم خاصے سنبھل گیے لیکن پھر بھی آیندہ کیی رو ز تک ہماری طبیعت پر اس حادثے کا اثر باقی رہا اور ہم ساتھی طلبہ کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ہم نے اگلے چھ سات برسوں تک سکول کے سٹیج کا رخ نہ کیا۔اماں اکثر ڈانٹتی رہتیں کہ ہم تقریری مقابلوں میں حصہ کیوں نہیں لیتے ۔لیکن ہم ٹال مٹول کردیتے ۔بالآخر ہم ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھے ،جب ہم ایک بار پھر سکول کے سٹیج پر نمودار ہوے ۔مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں تقریری مقابلہ تھا اور ہم نے اس میں ایک نظم پڑھی تھی جس پر ہمیں بطورانعام ایک کتاب بھی ملی ۔اب کی بار تھوڑا سا حوصلہ بڑھا۔ دسویں جماعت میں تھے جب پہلی بار ہم نے تقریر کرنے کے لیے اپنا نام لکھوایا ۔غالباً ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبوی پر لب کشای کرنی تھی ۔مقابلے سے ایک روز پہلے ریہرسل کے دوران جب ہم نے بھی اپنی باری پر تقریر کی تو ہمارے ایک استاذ صاحب نے ہماری تعریف کرتے ہوے فرمایا کہ ،اس طالب علم کے شعر پڑھنے کا ایک خاص انداز ہے جو بہت اچھا ہے ۔یہ جب شعر پڑھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مقرر شعر پڑھ رہا ہے ۔باقی مقررین میں یہ خوبی ذرا کم دیکھنے میں آی ہے ۔"سچ پوچھیے تو ہمیں یوں لگا کہ ہمیں ہماری تقریر کا انعام ابھی مل گیا ہے ۔استاذ گرامی کا یہ تعریفی جملہ آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتا رہتا ہے ۔ان کی یہ ایک تھپکی قدم قدم پر ہمارا حوصلہ بڑھاتی رہی ۔اس ایک تھپکی نے ہی یہ دن بھی دکھاے کہ علما کی میڈیا ورکشاپ میں لیکچر ہو یا سیاسی جلسے میں سیاسی تقریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلی جماعت میں تلاوت کرتے ہوے رو پڑنے والا بچہ اب نہیں گبھراتا اورنہ ہی سٹیج پرکھڑے ہو کر مجمع کا سامنا کرتے ہوے اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ استاذ کی صرف ایک تھپکی شاگرد کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔تلاوت کے دوران روپڑنے کا یہ واقعہ گزشتہ دنوں ہمیں تب یاد آیا ،جب جماعت اول میں زیر تعلیم ہمارے بیٹے نے اپنے مکتب میں بارہ ربیع الاول کے موقعہ پر تلاوت کی ۔ہم بھی قریب ہی بیٹھے ہوے تھے اور سات سالہ عبداللہ کے چہرے کی طرف بغور دیکھ رہے تھے ۔اس نے جلدی سے سورۃ کوثر تلاوت کی ۔اس دوران اس کا چہرہ لال سرخ ہو چکا تھا ۔صدق اللہ العظیم کہتے ہی وہ گولی کی طرح اپنی نشست کی طرف لپکا جس پر ہم مسکرا کر رہ گیے ۔ہمیں خدشہ تو تھا کہ کہیں صاحبزادہ اپنے ابا کی بچپن کی روایت زندہ نہ کردے لیکن برخوردار اپنے ابا سے زیادہ باہمت نکلا ۔....سیانے سچ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک شاباش ،ایک تھپکی ،حوصلہ افزای کے لیے کہا گیا صرف ایک جملہ وہ اثر دکھاتا ہے جو لمبے چوڑے لیکچر نہیں دکھا سکتے ۔ہمارے ایک استاذ فرمایا کرتے تھے کہ غلطی کرنے پر بچے کے کان ضرور ضرور کھینچنے چاہییں ،لیکن کسی امتحان میں ناکامی پر اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ناکامیوں سے ہی انسان سیکھتا ہے۔اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ
مجھے پستیوں سے گلہ نہیں کہ ملی ہیں ان سے بلندیاں
میرے حق میں دونوں مفید ہیں ،کہ نشیب ہی سے فراز ہے

ہفتہ، 18 فروری، 2017

Who Was Major Target In Blast At Mall Road Lahore??


In a recent suicide attack on DIG Traffic Capt (R) Mobeen, an eyewitness Rana Naseer informed that the suicide bomber was 15 feet away from his target and blew himself coming closer to DIG. The witness further added that he lost his senses for few minutes and assumed himself as dead. Another witness Awais Bashir, resident of Kala Shah Kaku told that the blast was at his back while he was on Mall road. One of the victim Umair Riaz who works for a pharmaceutical company told "Daily Ummat",s correspondent Mansoor Asghar Raja that he was just ten feet away from the place of blast, his legs got badly injured. According to Umair blast occurred exactly four minutes after the successful discussions with the protesters. Workers of Falah e Insaniyat Foudation were the first ones who came to rescue. Several employees of pharmaceutical companies got injured in this blast outside Punjab Assembly. The injured were shifted to Ganga Ram hospital, Meu hospital and Services hospital Lahore. Senior politicians from different parties visited the injured though the attendants of the injured didn't appreciate this act. In the presence of correspondent "Daily Ummat" , Qamar Zaman Kaira (PPP) and Khurram Nawaz Gandapur (PAT) visited the injured while one of the attendants exclaimed," We are fed-up of such people, they do not have any idea how a common man is surviving but they visit us to take the photographs for gaining popularity". Seventeen years old Umair Riaz also got seriously injured in the blast, he is a resident of Sheikhupura and an employee of pharmaceutical company. He told "Daily Ummat" that the senior police officials reached there few minutes before the blast. Once DIG Traffic reached he asked the protesters to move to the foot path so that the road opens for traffic. Exactly four minutes after the discussion there was a blast. Since there was a truck between me and the place of blast therefore I survived.

مزارات پر سکیورٹی ہای الرٹ


جمعرات، 16 فروری، 2017

پنجاب میں کراچی طرز کا آپریشن


شامی جیل میں اجتماعی پھانسیاں۔۔۔3

۔۔۔"نصف شب گزر چکی تھی جب مجھے دوبارہ تفتیشی کمرہ میں لے جایا گیا جہاں راید ثلجہ نامی ایک افسر میرا منتظر تھا۔مجھے دیکھتے ہی بولا ،"تم اخوان کے ساتھ اپنے تعلق اور ان کے لیے کام کرنے کا اعترا ف نہیں کر رہی لیکن آج اللہ نے ایک ایسا شخص ہمارے پاس بھیج دیا ہے جس نے تمہارے سارے پول کھول دیے ہیں۔تمہاری سہیلی ماجدہ ہمیں بتا چکی ہے کہ اس نے خود تمہارے پاس اسلحہ دیکھا تھا۔"۔۔۔میں نے جواباً کہا کہ ،"آپ لوگ ماجدہ کو میرے سامنے لاییں تاکہ وہ یہی بات میرے منہ پر کہے "۔۔۔وہ بولا ،"ماجدہ جھوٹ نہیں کہہ رہی ،وہ تم سے زیادہ سچی ہے ۔تمہارا تو لیموں کی طرح پیلا پڑتا رنگ ہی تمہارے جھوٹا ہونے کی گواہی دے رہا ہے "۔۔۔۔میں نے کہا کہ ،"میں گزشتہ دو راتوں سے مسلسل جاگ رہی ہوں۔اس دوران میں نے کچھ کھایا نہ پیا ۔اور نہ ہی تم لوگوں نے مجھے بیت الخلا تک جانے کی اجازت دی ۔اس دوران مجھے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مجھے مارنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی گیی۔اس کے بعد بھی تم کہتے ہوکہ میرا رنگ پیلا کیوں ہو گیا ہے "۔۔۔۔اس نے میری با ت کا جواب دینے کی بجاے دربان کو بلا کر مجھے دوبارہ سیل میں بند کرنے کا حکم دیا ۔میں شدید خوف کے عالم میں سیل کے اندر سکڑ ی سمٹی بیٹھی تھی ۔میں نے اس ڈر سے کمبل بھی نہ کھولا کہ کہیں میری آنکھ نہ لگ جاے اور اگر اس دوران کوی اہلکار آگیا اور اس نے مجھے سویا پایا تو خفا ہو گا۔کچھ ہی دیر بعد اچانک باہرسے چیخنے چلانے ،ہانکنے اور بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں۔مجھے خیال آیا کہ کچھ اور مظلوموں کی نیی کھیپ آی ہے ۔اور واقعی ایسا ہی تھا۔چند لمحوں بعد ہی اہلکار چھ سات نوعمرلڑکوں کو دھکیلتے ہوے اندر لے آے ،جن کی عمریں بمشکل بارہ سے پندرہ برس تک تھیں۔ان سب کو کسی مسجد سے گرفتار کر کے لایا گیا اور جس سیل میں بند کیا گیا ،اس کا رقبہ میٹر ڈیڑھ میٹر سے زیادہ نہ تھا۔وہ سب سخت خوفزدہ تھے ۔ان میں سے ایک لڑکا بار بار بیت الخلا جانے کی درخواست کر رہا تھا لیکن اہلکار سال نو کی خوشی میں موج مستی میں مصروف تھے یا شاید جان بوجھ کر انہوں نے اس پر کوی توجہ نہ دی۔اس دوران وہ لڑکا چیختا چلاتا اور مدد کے لیے پکارتا رہا ۔اس نے یہاں تک کہا کہ میرے پیٹ میں شدید درد ہے ۔میں خود پر زیادہ دیر کنٹرول نہیں رکھ سکوں گا۔اہلکاروں پر اس چیخ و پکار کا محض اتنا اثر ہوا کہ ہر تھوڑی دیر بعد ایک اہلکار آتا ،سیل کی کھڑکی کھول کر اس لڑکے کو دو چار بید رسید کرتا اور یہ کہہ کر چلا جاتا کہ اوے اپنا حلق مت پھاڑو۔ایسے ہی مار کھاتے ہوے لڑکا اچانک خاموش ہو گیا اور پھر اس کے بعد سیل میں اس قدر بدبو پھیلی کہ دم گھٹنے لگا۔اس نیی صورتحال پر ایک اہلکار بکتا جھکتا اندر آیا اور اس لڑکے کو گھسیٹے ہوے سیل سے باہر نکال کر پاگلوں کی طرح مارنے لگا۔کچھ دیر کے شور شرابے کے بعد پھر خاموشی چھا گیی۔وہ رات مجھے پہاڑ جیسی طویل محسوس ہوی جو کاٹے نہیں کٹ رہی تھی۔ساری رات مجھے وسوسوں نے گھیرے رکھا کہ کیا خبر اب یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریںگے ۔مجھے کتنی بار گھسیٹ کر تفتیشی کمرے میں لے جایا جاے گا۔مجھ پر اور کتنا تشدد ہو گا ۔کیا وہ دوبارہ میرا لباس نوچیں گے ۔مجھے قتل کرنے سے پہلے کتنی اذیتیں دی جاییں گی ۔بس یہی سوچتے سوچتے فجر ہوگیی۔اسی دوران سیل کی دیوار دوسری طرف سے کسی نے ہولے سے بجای۔میں سمجھ گیی کہ دوسری طرف سے ماجدہ دیوار بجا کر مجھے فجر کا وقت ہونے کی خبر دے رہی تھی ۔لیکن میں اس قبر نما قید خانے میں وضو کہاں کرتی ۔سو تیمم کرکے نماز ادا کرنے کا سوچا لیکن قبلہ معلوم نہیں تھا ،اس لیے بادل نخواستہ کسی اہلکار کو بلانے کے لیے سیل کی کھڑکی بجای تو حسین نامی اہلکار آگیا۔قبلہ کے بارے میں میرے استفسار پراس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوے کہا  کہ "میں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ،اس لیے مجھے قبلے کے بارے میں علم نہیں۔لیکن یہاں آنے والے قیدی اسی رخ پر نماز پڑھتے ہیں۔"میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اسی دوران ایک اور اہلکار آن ٹپکا اور مجھے نماز میں مصروف دیکھ  کر طنزیہ انداز میں کر بولا ،"اچھا تو اب نمازیں یاد آ گیی ہیں"تھوڑی دیر بعد وہی بوڑھا اہلکار ناشتہ لے کر آیا جس نے رات مجھے سیل کے اندر جانے کو کہا تھا ۔اس وقت ہر طرف سکوت طاری تھا کہ اس نے اچانک مجھے بتایا کہ یہاں لاے گیے سب لوگ رہا کردیے گیے ہیں۔صرف تم ،تمہاری امی اور ماجدہ باقی رہ گیی ہو ۔یہ سن کر میرا دل بھر آیا ،میں نے کہا کہ ہم نے ایسا کون سا جرم کیا ہے جو ہمیں رہا نہیں کیا گیا ۔وہ کہنے لگا ،میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔میں تو یہاں ادنیِ سا ملازم ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں بھوک لگی ہو گی ۔ناشتہ کر لو۔دیکھو میں اپنے ناشتے میں سے مکھن اور جام تمہارے لیے بچا کر لایا ہوں ۔۔۔۔۔۔لیکن اس نے ابھی جو خبر سنای ،اس کی وجہ سے میری بھوک تو کب کی اڑ چکی تھی ۔میں نے اس کا شکریہ اداکرتے ہوے ناشتے سے معذرت کرلی۔،اور پھر اگلے آٹھ دن اسی قید تنہای میں اور اسی پریشان حالی میں گزار دیے۔ کفر السوسہ نامی اس بدنام زمانہ جیل میں دن کا آغاز نماز فجر کے دو گھنٹے بعد ہوتا تھا ۔یہاں صبح کے وقت سب سے پہلے قیدیوں کو گالیاں دیتے ہوے اور کوڑے اور زنجیریں ان کی پیٹھ پر برساتے ہوے انہیں " الخط" لے جایا جاتا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔

منگل، 14 فروری، 2017

شامی جیل میں اجتماعی پھانسیاں ۔۔۔۔2

۔۔۔۔۔۔۔"اس کی دھمکی نے مجھے دہلا کر رکھ دیا ۔میں نے چیختے ہوے کہا ،لیکن میں کچھ نہیں جانتی ۔جواب میں اس نے مجھے سر سے سکارف اتارنے کا حکم دیا۔میں اسے پتھرای نظروں سے دیکھنے لگی ۔میرا رواں رواں کانپ رہا تھا۔اتنے میں اس نے یہ کہتے ہوے میرے سر کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ ،اگر تم اسے خود نہیں اتارتی تو میں اتار دیتا ہوں۔۔۔۔لیکن میں نے اپنا سکارف مضبوطی سے پکڑے رکھا ،اس لیے وہ کوشش کے باوجود مجھے بے حجاب نہ کر سکا ۔بالآخر زچ ہو کر اس نے سکارف کے نیچے میرے بندھے ہوے بالوں کو پکڑ لیا جو اس وقت کافی لمبے ہوتے تھے ۔اس نے بالوں سے پکڑ کر مجھے اپنی جانب کھینچا اور پھر اچانک میرا سر پوری قوت سے دیوار کے ساتھ دے مارا۔ساتھ ہی اس کے منہ سے گندی گالیوں کا طوفان پھوٹ پڑا،اور وہ سخت غصے میں بولا،"تمہارے انکار کے باوجود تمہارا لباس اور حجاب بتا رہا ہے کہ تم اخوان المسلمون سے تعلق رکھتی ہو "۔اس کے ساتھ ہی اس نے ایک اہلکار کو زنجیر اور کوڑا لانے کا حکم دیا ۔میری اس وقت یہ صورتحال تھی کہ تشدد کے باعث میرے پاوں سوج کر کپا ہو چکے تھے کہ جوتے پہننا بھی ممکن نہ رہا تھا۔میں سزا سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹنے لگی۔ناصیف چڑ کر بولا،"اسے میری نظروں سے دور منفردہ ،قید تنہای کا سیل ،میں لے جاو ۔میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔"مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی " ٹارچر پارٹی" اختتام پذیر ہو گیی ہے۔دراصل مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ منفردہ کسے کہتے ہیں۔ایک اہلکار مجھے مختلف زینوں اور راستوں سے گزارتا ایک نیی جگہ لے گیا۔راستے میں مجھے وہ کہنے لگا کہ ،"تم اصل بات بتا کیوں نہیں دیتی۔کم از کم اپنے حال پر ہی رحم کرو۔دیکھو ،تمہارا چہرہ کس قدر سوج گیا ہے ۔تمہارے ہاتھ نیلے ہو گیے ہیں۔پاوں جوتے پہننے کے قابل نہیں رہے۔اور تم ہو کہ مر کر بھی راز دباے بیٹھی ہو"۔میرا دل بھر آیا اور میں نے صرف اتنا کہا کہ ،"اللہ ان ظالموں کو عافیت نہ دے "۔ہم چلتے چلتے ایک سیل کے پاس پہنچے تو سامنے حسین کھڑا تھا۔اسے میں پہلے بھی دیکھ چکی تھی جب مجھے پہلی بار تفتیشی کمرے میں لایا گیا تو وہاں ایک نوجوان کو ڈنڈوں اور زنجیروں کے ساتھ بڑے وحشیانہ طریقے سے مارا جا رہا تھا اور یہ آدمی مارنے والوں میں پیش پیش تھا۔اب یہاں مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ تمسخرانہ انداز میں ہتھکڑیاں لیے یہ کہتے ہوے میری جانب بڑھا،"اھلاً و سھلاً۔۔۔زہے نصیب"۔اس نے مجھے کندھے سے پکڑ کر پانچ سیڑھیاں نیچے اتارا اور ایک چھوٹے سے سیل کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ ،"یہ رہا تمہارا کمرہ ۔یہاں تم مزے سے سویا کرو گی "۔میں نے اس کی تاریکی اور وحشت سے گھبرا کر بے ساختہ کہا کہ ،"نہیں ،بخدا میں اس کے اندر نہیں جاوں گی "۔اسی اثنا میں مجھے قریبی سیل میں اپنی روم میٹ فاطمہ نظر آی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور سیل سے اپنی امی کی آواز سنای دی ۔انہوں نے شاید میری آواز سن لی تھی ،اسی لیے بلند آواز سے ان ظالموں کو برا بھلا کہنے لگیں کہ ،"ظالمو ان عورتوں پر تم اپنی طاقت آزما رہے ہو۔تم رحم سے نا آشنا ہو۔میں نے ساری عمر تمہارے بارے میں یہی سنا کہ تمہارے سینوں میں دل نہیں ہوتا لیکن اب تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے"۔مجھ میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گیی اور میں چھلانگ لگا کر یہ کہتے ہوے امی کی آواز کی طرف بھاگی کہ اللہ تمہیں برباد کرے۔ان کو کیوں لے آے ہو ۔میری بہنیں چھوٹی اور والد بیمار ہیں۔کوی اور ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں۔جواب میں حسین قہقہہ لگا کر بولا ،ہمیں تمہارے باپ اور بہن بھایوں سے کیا غرض ،ہمیں صرف تمہاری ماں مطلوب تھی۔پھر اس نے سب سیلوں کی کھڑکیاں بند کیں اور مجھ  سے کہاکہ ،تم سیل کے اندرخود جاتی ہو یا میں یہاں موجود اہلکاروں سے کہوں کہ تمہیں اٹھا کر اندر پھینکیں۔میں نے کہا کہ ،یہ تو بالکل مرغیوں کا ڈربہ ہے اور اندر سخت اندھیرا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ تمسخرانہ انداز میں بولا ،"تم اندر جاو ۔تمہارے وجود سے سب تاریکی چھٹ جاے گی"۔سیل کے اندر ایک تھالی میں چاول اور دوسرے برتن میں پانی رکھا تھا۔وہ بولا کہ ،" یہ تمہارا ڈنر ہے ۔اگر دل مانے تو کھا لینا "۔اسی اثنا میں ایک بڑی عمر کا اہلکار وہاں آ گیا ۔اس نے بڑی نرمی سے مجھے کہا کہ بہن خدارا تم سیل کے اندر چلی جاو اور ان لوگوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقعہ نہ دو "میں فوراً سیل کے اندر چلی گیی۔کچھ دیر بعد ہی وہاں شرا ب کی بُو پھیل گیی کیونکہ وہ لوگ سال نو کا جشن منا رہے تھے ۔۔۔۔میں مسلسل ایک ہی جگہ بیٹھی ہوی تھی اور اس وحشت ناک تاریکی میں میرا دم گھٹ رہا تھا۔خاص طور پر مجھے اپنی روم میٹ ماجدہ کا رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کیونکہ میرے بعد ماجدہ کو ہی تفتیشی کمرے کی طرف لے جا یا گیا تھا ۔میں یہ سو چ کر کانپ رہی تھی کہ کیا اس گھڑی ماجدہ پر بھی  تشدد کے وہی حربے آزماے جا رہے ہوں گے جو کچھ دیر پہلے مجھ پر آزماے گیے "۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔

پیر، 13 فروری، 2017

تذکرہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ

 خواجہ سید محمد صاحب نے راجکمار ہردیو کو حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کے بارے میں بتایا کہ ،"۔۔۔۔۔خواجہ صاحب ترکستان کے شہر فرغانہ کے نواحی علاقے کے رہنے والے تھے ۔آپ ڈیڑھ برس کے تھے جب والد سید کمال الدین انہیں یتیم چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گیے ۔والدہ کے زیر سایہ اپنی تعلیم مکمل کی ۔اسی دوران حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اصفہان تشریف لاے تو آپ ان کے دست حق پرست پر بیعت ہو گیے ۔حضرت نے آپ کو خرقہ و خلافت عنایت فرمانے کے بعد ہندوستان جا کر دلی میں قیام کا حکم دیا ۔چنانچہ آپ مرشد کے حکم پر دلی تشریف لے آے جہاں اس وقت سلطان شمس الدین التمش علیہ الرحمہ کی حکومت تھی جو آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے ۔راجکمار ہردیو نے ایک بار خواجہ سید محمد صاحب سے پوچھا کہ ،حضرت کو ، کاکی ،کیوں کہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔اس پر خواجہ سید محمد صاحب نے بتایا کہ ،"میں نے اپنے حضرت سلطان المشایخ {خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ } سے سنا ہے کہ حضرت قطب صاحب کو غیب سے کاک {یعنی روغنی روٹی }ملا کرتے تھے ،اس وجہ سے آپ کاکی مشہور ہو گیے "۔۔۔۔اسی حوالے سے ایک لطیفہ تب پیش آیا ،جب آپ ایک بار سلطان شمس الدین التمش کے پاس تشریف لے گیے ۔اسی اثنا میں اودھ کا حاکم رکن الدین حلوای بھی سلطان کے پاس آیا اور قطب صاحب سے اونچی جگہ پر بیٹھ گیا ۔بادشاہ کو یہ بات بہت ناگوار گزری ۔حضرت نے سلطان کی اس ناراضی کو محسوس کیا تو مسکرا کر فرمایا ،"یہ کوی ناراضی کی بات نہیں ہے ۔میں کاکی ہوں اور رکن الدین حلوای ہے ۔۔۔اور حلوہ کاک {روغنی روٹی}کے اوپر ہی رکھا جاتا ہے ۔پس رکن الدین مجھ سے اونچی جگہ پر بیٹھ گیا تو کچھ حرج نہیں "۔۔۔۔خواجہ سید محمد صاحب کے مطابق حضرت قطب صاحب پر ہر وقت استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی ۔جب اہل دنیا آپ کے پاس آتے تو حضرت کبھی کبھی عالم استغراق سے باہر آ کر ان سے بات کرلیا کرتے تھے ۔اس کے بعد پھر آپ پر محویت کی حالت طاری ہو جا تی تھی ۔۔۔۔۔۔ایک بار ایک عقیدت مند آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوے عرض کی کہ ،" آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا ہے "۔یہ سن کر آپ فوراً تعظیم کے لیے کھڑے ہو گیے اور پھر خواب کی پوری تفصیل سماعت فرمای ۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ سید محمد صاحب نے راجکمار ہردیو کو مزید بتایا کہ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے حضرت {محبوب الہی علیہ الرحمہ }فرماتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ قطب صاحب اپنے قرابت داروں اور مریدوں کے ساتھ نماز عید پڑھ کر آ رہے تھے ۔جب اس مقام پر پہنچے جہاں حضرت کا مزار ہے تو وہاں خاموش کھڑے ہو گیے ۔قرابت داروں نے عرض کی کہ آج عید کا دن ہے ۔بہت سے لوگ حضور سے ملنے اور کھانا کھانے حاضر ہونگے ۔آپ یہ سن کر عالم استغراق سے باہر آے اور فرمایا کہ مجھے اس زمین سے اہل کمال کی خوشبو آتی ہے ۔اس کے بعد حضرت مکان پر آے اور کھانے کے بعد حکم دیا کہ اس زمین کا جو مالک ہے ،اسے میرے پاس لاو۔جب وہ حاضر ہوا تو آپ نے وہ زمین اس سے خرید لی ۔آپ کو وفات کے بعد وہیں دفن کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔خواجہ سید محمد صاحب نے بتایا کہ "۔۔۔۔۔۔۔میرے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ حضرت خواجہ قطب صاحب قوالی کی مجلس میں حضرت احمد جام کا یہ شعر بار بار سنتے تھے کہ 
کشتگان خنجر تسلیم را 
ہر زماں از غیب جان دیگر است 
{ترجمہ :جو لوگ رضا و تسلیم کے خنجر سے کشتہ ہو جاتے ہیں ،ان کو ہر وقت غیب سے ایک نیی زندگی ملتی رہتی ہے }
آپ پر اس شعر کا ایسا اثر تھا کہ تین چار دن لگاتار اس کو سنتے رہے ۔اس دوران آپ پر ایک خاص کیفیت طاری رہی ،یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پای ۔
{نظامی بنسری ۔۔۔۔۔تصنیف: راجکمار ہر دیو ۔۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ : خواجہ حسن نظامی ۔صفحہ۔91تا96}

ہفتہ، 11 فروری، 2017

شامی جیل میں اجتماعی پھانسیاں ۔۔۔1

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی سا ت فروری کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شام کی صیدنایا جیل میں گزشتہ چار برسوں کے دوران خفیہ طور پر قریباً 13ہزار افراد کو پھانسی دی گیی ۔اس جیل میں ستمبر 2011 سے دسمبر2015تک ہر ہفتے اجتماعی پھانسیاں دی جاتی رہیں۔رپورٹ کے مطابق پھانسی پانے والوں میں سے بیشتر لوگ شامی حزب مخالف کے حامی تھے ۔تنظیم نے یہ رپورٹ مذکورہ جیل کے 84سابق قیدیوں اور محافظین کے انٹرویوز کی روشنی میں تیار کی۔اس جیل کے ایک سابق قیدی انس احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جیل حکام تشدد کے لیے دو تین قیدیوں کو الگ کر لیتے اور پھر دوران تشدد ان کی چیخیں باقی قیدیوں کو سنوای جاتیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انہوں نے جنوری کے آغاز میں بشار حکومت سے اس سلسلے میں موقف مانگا لیکن بشار حکومت کی طرف سے اس پر تاحال کوی موقف نہیں  دیا گیا البتہ ماضی میں شامی حکومت اس طرح کے الزامات کو رد کر چکی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔حکومتیں ،خاص طور پر ظالم و جابر  اورغیر جمہوری و غیر آیینی حکومتیں عام طور پر اس طرح کے الزامات کو رد ہی کیا کرتی ہیں لیکن مورخ کا بے رحم قلم اصل حقایق کو بے نقاب کرکے ہی رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشار الاسد نے اپنی جیلوں میں مخالفین کو پھانسیاں دے کر اور ان پر ظلم و ستم ڈھا کر کوی نیا کام نہیں کیا بلکہ اپنے ابا حافظ الاسد کی پیروی کی ہے ،کیونکہ اپنے دور میں حافظ الاسد بھی یہی کچھ کرتا تھا ۔اس کے دور میں بھی اسلام سے محبت رکھنے والے شامی مسلمانوں پر اسی طرح عقوبت خانوں میں زندگی تنگ کر دی جاتی تھی ۔ان کی جیلوں میں شیطان برہنہ ناچ ناچتا تھا ۔حافظ الاسد کے عمال پورے پورے خاندانوں کو جیل میں ڈال کر بھول جاتے تھے کہ انہیں ایک دن رہای بھی دینی ہے ۔اسی جیل میں ماں بھی قید ہوتی اور بیٹی بھی ۔دونوں کو وطن دشمن قرار دے کر بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ۔یہ شامی حکومتوں کے خلاف محض الزام تراشی نہیں ہے بلکہ دمشق یونیورسٹی کی سابق طالبہ ہبہ الدباغ کی داستان اسیری " صرف پانچ منٹ "اس پر گواہ ہے ۔ہبہ الدباغ دمشق یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں۔دسمبر 1980کی ایک سرد رات وہ اپنے گھر میں بیٹھی فاینل اییر کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھیں کہ اسی دوران ان کے گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوی اور وہاں موجود شامی انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے انہیں صرف پانچ منٹ کے لیے باہر بلایا اور اس کے بعد وہ واپس نہ آسکیں اور اگلے 9 برسوں تک حافظ الاسد حکومت کے عقوبت خانوں میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔انہیں صرف پانچ منٹ کے لیے باہر بلایا گیا لیکن وہ پانچ منٹ 9برسوں پر پھیل گیے تھے ۔بعد ازاں وطن دشمنی کے الزام میں ان کے والدین اور دیگر بہن بھایوں کو بھی گھر سے اٹھا کر زنداں کے حوالے کر دیا گیا۔ان کے ایک بھای نوارف الدباغ اسیری کے دوران ہی شہید کر دیے گیے ۔9برس بعد جب ہبہ الدباغ کی رہای عمل میں آی تو انہوں نے اپنی دل خراش داستان اسیری " خمس دقایق و حسب" کے نام سے کتابی صورت میں لکھی جس کا اردو ترجمہ " صرف پانچ منٹ "کے نام سے شایع ہو چکا ہے ۔گرفتاری کے فوراً بعد جب ٹارچر سیل میں لے جا کر سرکاری گماشتوں نے ہبہ الدباغ پر فرد جرم عاید کی اور اس نے ان کے الزامات کو ماننے اور اپنے ایک بھای کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا تو پھر اس کے ساتھ کیا ہوا ۔اس بارے میں ہبہ الدباغ لکھتی ہیں کہ ،" میرے انکار پر ایک اہلکار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹا کر میری گردن ،کلاییاں ،پیٹ ،گھٹنے اور پاوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا ۔میرے پاوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکا تھا ۔صرف جرابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔میں اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکتی تھی ۔انہوں نے ٹکٹکی کو چھت سے لٹکی زنجیر کے ساتھ ٹانگ دیا ۔آپریشن ہیڈ ایک لمبا سا ڈنڈا پکڑے آگے بڑھا اور بولا ،تمہیں سب کچھ بتانا پڑے گا ۔میں نے کہا کہ میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں ۔اسی اثنا میں پاس کھڑے ایک دوسرے اہلکار نے ایک پلگ میری انگلی کے ساتھ لگایا جس میں کرنٹ تھا ۔اور ساتھ ہی ڈنڈے سے میرے پاوں کے درمیان ضرب لگای ۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے پورے بدن میں آگ لگ گیی ہو ۔وہ میرے چیخوں کو خاطر میں لاے بغیر بولا ،تمہیں بکواس کرنی پڑے گی ۔تم نے دیکھا نہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے اور یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر شمار ہوتا ہے ۔۔۔۔میں نے کہا کہ میں ان چیزوں کا اعتراف کیسے کروں جو میں نے نہیں کیں۔میرے انکار پر تشدد کا سلسلہ شرو ع ہو گیا ۔آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پاوں پر کوڑے برسانے لگا،۔۔ایک اہلکار بید سے مارنے لگا اور سر کی طرف کھڑا آدمی میری انگلیوں پر کرنٹ لگانے لگا۔اتنی شدید تکلیف ہوی کہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔شرو ع میں چیختی رہی ،زبان پر " یا اللہ " کا کلمہ جاری رہا ۔لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میرے بس میں نہ رہا ۔میں کچھ دیر تک سر پٹختی رہی اور پھر مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا ۔وہ مسلسل دس منٹ تک تشدد کرنے کے بعد اچانک رک جاتے ،کچھ دیر گالی گلوچ اور توہین آمیز الفاظ کے استعمال کے بعد دوبارہ مارنے لگتے۔کچھ دیر بعد میری رسیاں کھول دی گییں اور مجھے باہر لے جا کر ایک گاڑی میں بٹھایا گیا۔دوبارہ سے فردجرم میرے سامنے رکھی گیی۔میری طرف سے دوبارہ انکار پر وہ مجھے پھر عقوبت خانے کے اندر لے آے اور اس مرتبہ تشدد پہلے سے بھی بڑھ کر کیا گیا ،حتیِ کہ مجھے یہ بھی خبر نہ رہی کہ کتنے لوگ مجھ پر تشدد کر رہے ہیں اور کتنے کوڑے اور ڈنڈے میرے پاوں پر برس رہے ہیں۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ پورا کمرہ ہی کوڑوں اور ڈنڈوں پر مشتمل ہے ۔جب میں کسی بھی طرح ان کی مرضی کا بیان دینے پر راضی نہ ہو ی تو ایک اہلکار نے بجلی کی ننگی تار میری زبان پر رکھ دی اور کہنے لگا ،کیا اب بھی نہیں بولو گی ؟۔۔۔۔۔۔۔میں نے جواب میں کہا ،تم مجھے کوڑے مارو یا کرنٹ لگاو ،میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ۔اس پر پاس کھڑے انٹروگیشن سینٹر کے سربراہ نے ایک اہلکار سے کہا کہ ،"اسے اٹھا لاو اور کاغذ قلم دو تاکہ جو کچھ یہ جانتی ہے ،اس پر مبنی اپنا تحریری بیان لکھے۔"پھر وہ مجھے سے کہنے لگا ،"اگر تم نے سچ سچ نہ لکھا تو یاد رکھو کہ ہمارے پاس ایسے ایسے وحشی اہلکار ہیں جو دروازہ بند کر دیتے ہیں ۔ "انہوں نے جب مجھے ٹکٹکی سے اتارا تو میرے کپڑے بھیگے ہوے تھے ۔مجھے گزشتہ دو تین گھنٹے مسلسل ٹارچر کیا گیا تھا۔اتنے میں ایک اہلکار نے مجھے کاغذ قلم پکڑاتے ہوے کہا کہ " سنو ،اگر سچ لکھو گی تو اپنے آپ کو عذاب سے بچا لو گی ،ورنہ کسی کو تمہارا نام و نشان بھی نہیں ملے گا"۔میں نے جب کاغذ پر بھی ان کا مطلوبہ بیان نہ لکھا توادارے کے سربراہ ناصیف نے مجھے پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی اور انتہای گندی زبان استعمال کرتے ہوے بولا،"اگر ابھی اور اسی وقت تم نے ہر چیز کا اعتراف نہ کیا تو میں سب کے سامنے تمہارے کپڑے اتار دوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔جاری ہے

جے یو آی {ف}پنجاب میں اختلاف کی اندرونی کہانی ۔۔۔۔


جمعرات، 9 فروری، 2017

تذکرہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ

حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے سوانح نگار راجکمار ہردیو نے ایک روز حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کے نواسے خواجہ سید محمد صاحب سے حضرت محبوب الہی کے پیروں کے احوال بیان کرنے کی گزارش کی تو انہوں نے سب سے پہلے حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کا تذکرہ فرماتے ہوے راجکمار ہر دیو کو بتایا کہ ،" ۔۔۔جب حضرت خواجہ صاحب پہلے پہل اجمیر تشریف لاے تو ہندو مسلم باشندے جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔یہ خبر جب اجمیر و دہلی کے حکمران راجہ پرتھوی راج تک پہنچی تو اس نے آپ کو علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ۔آپ نے جواب میں فرمایا ،" ملک خدا کا ہے ۔اور خدا کابندہ اس ملک میں آیا ہے ۔بغیر حکم خدا یہاں سے نہیں جا سکتا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ پرتھوی راج کا ایک ملازم مسلمان بھی تھا ۔راجہ نے اسے مجبور کیا کہ وہ آپ کو یہاں سے ہٹا دے ۔ملازم نے تعمیل حکم سے انکار کیا تو پرتھوی نے اس پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیا ۔اس کی خبر جب خواجہ صاحب کو ہوی تو آپ نے راجہ کو کہلا بھیجا کہ ،"۔۔۔بے گناہ پر ظلم نہ کر ،ورنہ میں تجھے باندھ کر کسی دوسرے بادشاہ کے ہاتھ میں دے دوں گا "۔لیکن پرتھوی راج نے اس پیغام کی کچھ پرواہ نہ کی اور آپ کی شان میں گستاخانہ الفاظ زبان پر لایا ۔پھر یہ خبر مشہور ہوی کہ سلطان شہا ب الدین محمد غوری بہت بڑی فوج لے کر ہندوستان پر چڑھ آیا ہے ۔پرتھوی راج فوج لے کر مقابلے کے لیے روانہ ہوا ۔ہندوستان کے ڈیڑھ سو راجہ بھی اس کی مدد کو آے ۔تراوڑی ضلع کرنال کے میدان میں بڑی لڑای ہوی جس میں پرتھوی راج اور اس کے ساتھی راجے مارے گیے ۔۔۔۔۔۔۔حضرت خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ جب عراق میں تھے تو مولانا نجم الدین صغریِ سے ان کی دوستی ہو گیی۔جب خواجہ صاحب دلی تشریف لاے تو معلوم ہوا کہ مولانا اسی شہر میں ہیں اور بادشاہ نے انہیں شیخ الاسلام کا عہدہ دیا ہے ۔چنانچہ آپ مولانا نجم الدین سے ملنے کے لیے گیے۔وہ اس وقت اپنے مکان میں ایک چبوترہ بنوا رہے تھے ۔انہوں نے خواجہ صاحب سے بے رخی کا برتاو کیا۔یہ بات حضرت کو ناگوار گزری اور ان سے کہا ،"۔۔۔کیوں جناب ،کیا شیخ الاسلام بن جانے سے تمہارے اندر غرور پیدا ہو گیا ہے ؟"۔۔۔۔۔۔۔مولانا نجم الدین نے حضرت خواجہ صاحب کو جواب دیا ،"۔۔۔نہیں ،میں تو ویسا ہی نیاز مند ہوں۔مگر آپ کے ایک مرید نے میری شیخ الاسلامی کی شان کو بیکار کر دیا ہے۔سارا شہر ان ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے ۔مجھے کوی بھی نہیں پوچھتا۔اگر آپ اس مرید کو اپنے ساتھ اجمیر لے جاییں تو بہت عنایت ہو گی ۔"حضرت کو اس بات سے ہنسی آ گیی اور آپ نے فرمایا ،"اچھا مولانا ، میں اپنے بختیار کو اجمیر لے جاوں گا "۔۔۔۔جب خواجہ صاحب ،خواجہ قطب الدین بختیار کاکی صاحب کے گھر واپس آے تو فرمایا ،"۔۔۔بختیار ،یہ تو نے کیا کر رکھا ہے ۔سارا شہر تیری طرف متوجہ ہے اس سے لوگوں کو رشک و حسد ہوتا ہے ۔چل میرے ساتھ اجمیر چل ۔میں نہیں چاہتا کہ کسی ایک مسلمان کا دل بھی تیرے یہاں رہنے سے رنجیدہ ہو "۔۔چنانچہ دوسرے دن جب حضرت خواجہ غریب نواز دہلی سے اجمیر روانہ ہوے تو قطب صاحب بھی ساتھ تھے ۔یہ خبر دلی شہر میں مشہور ہوی تو سارے شہر کے ہزاروں لوگ دوڑے ہوے آے ۔بادشاہ وقت سلطان شمس الدین التمش بھی آیا ۔سب نے حضرت خواجہ غریب نواز سے عاجزانہ درخواست کی کہ قطب صاحب کو دلی چھوڑ جایے ورنہ ہم سب یہیں حضور کے قدموں میں بیٹھے رہیں گے ۔خلقت کی یہ عاجزی اور محبت دیکھی تو حضرت نے اپنے مرید و خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ سے فرمایا ،"۔۔۔بابا بختیار ،،،ایک دل کے مقابلے میں ہزاروں دلوں کی خواہش مقدم ہے ۔جاو ،تم واپس جاو اور دلی میں رہو "۔۔۔۔۔چنانچہ قطب صاحب اپنی قیام گاہ واپس آ گیے اور حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اجمیر تشریف لے گیے ۔"۔
{نظامی بنسری ۔۔۔۔۔۔تصنیف: راجکمار ہر دیو ۔۔۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ :خواجہ حسن نظامی ۔۔صفحہ 90تا93}

نوعمر ملازم کے ذریعے انتقام


بدھ، 8 فروری، 2017

بیس روپے کا آدھا نوٹ

اُس شام  جب ہم ایم فل کلاس  کے لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد یونیورسٹی سے باہر نکلے تو بادامی باغ لاری اڈے سے ہمارے آبای گاوں کی طرف جانے والی اس روز کی آخری گاڑی کے چھوٹنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ویک اینڈ پر گھر جانے کا پروگرام پہلے سے طے تھا اور ہم نے مذ کورہ گاڑی میں اپنی سیٹ بھی ریزرو کرا رکھی تھی لیکن اب جب گھڑی پر نظر ڈالی تو وقت کی قلت نے پریشان کر دیا کیونکہ بظاہر وقت پر لاری اڈے پہنچنا مشکل دکھای دے رہا تھا ۔کیونکہ ہم نے پہلے اسلام پورہ اپنے ہاسٹل جانا تھا جو کہ ہم جیسے پھونک پھونک کر موٹرسایکل چلانے کے عادی شخص کے لیے جوہرٹاون سے کم از کم آدھ پون گھنٹے کا رستہ تھا ۔وہاں سے بادامی باغ لاری اڈے تک رکشے نے کم از کم 25 منٹ تو ضرور لینے تھے ۔اب ظاہر ہے کہ گاڑی ،ریل ،جہاز اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتے ۔خیر ہم بوجھل دل کے ساتھ ہاسٹل کی طرف روانہ ہوے ۔خوش قسمتی سے اتوار کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک قدرے کم تھی ،اس لیے ہم بھاگ بھاگم پہلے ہاسٹل اور پھر وہاں سے بادامی باغ کی طرف بڑھے ۔لاری اڈے کے مسافر خانےکے سامنے جب ہم رکشے سے اتر رہے تھے ،اس وقت گاڑی چھوٹنے  میں صرف پانچ منٹ باقی تھے ۔اسی اثنا میں ہمیں یاد آیا کہ ہمارے موبایل فون میں بیلنس کے نام پر ایک دھیلا بھی نہیں ہے ۔اگر دوران سفر کہیں رابطہ کرنے کی ضرورت پیش آی تو پھر  کیا ہو گا ،کیونکہ آج کل کسی سے فون مانگ کرکے کال کرنے کا زمانہ تو رہا نہیں ۔ڈیڑھ دو سال پہلے ہمیں اس سلسلے میں خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس رو زبھی ہم لاہور سے گھرہی جارہے تھے ،۔ہماری ساتھ والی سیٹ پر جہلم کے ایک صاحب تشریف فرما تھے ۔ہمیں یاد ہے کہ اس روز ہمارے فون کی بیٹری جواب دے گیی تھی ۔ہم نے ایک ضروری فون کرنے کے لیے اپنے ہم سفر دوست سے فون مانگا تو انہوں نے ہمیں فون دینے سے معذرت کرتے ہوے  ٹھنڈی آہ بھر کر جو داستان سنای ،وہ خاصی عبرتناک اور سبق آموز تھی ۔وہ بتانے لگے کہ میں جہلم میں درزی کا کام کرتا ہوں ۔ایک روز میں اپنی دکان پر بیٹھا حسب معمول کام میں مصروف تھا کہ ایک آدمی نے اچانک میری دکان کے سامنے موٹر سایکل روکی ۔اس کے ساتھ ایک خوبرو خاتون بھی تھی ،۔بظاہر وہ بڑے پریشان اور جلدی میں دکھای دے رہے تھے ۔وہ آدمی میری طرف بڑھا اور کہنے لگا کہ بھای صاحب ہمارے ایک عزیز کا ایکسڈینٹ ہو گیا ہے ،ہم میاں بیوی سخت پریشانی میں ہسپتال کی طرف جار ہے ہیں ۔ایک ضروری فون کرنا ہے ،ذرا اپنا موبایل فون تو دیجیے ۔میں نے جھٹ سے اپنا فون انہیں پکڑا دیا ۔انہوں نے دو منٹ کہیں بات کی اور فون مجھے واپس کر کے یہ جا وہ جا۔چند گھنٹوں بعد ہی پولیس میری دکان پر پہنچ گیی۔تب مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ آدمی اس عورت کو کہیں سے بھگا کر لایا تھا اورعورت کے ورثا مسلسل ان کا پیچھا کر رہے تھے ۔جبکہ پولیس انہیں فون پر بھی ٹریس کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔چونکہ اس کم بخت نے بھاگتے بھاگتے میرا موبایل فون بھی استعمال کیا تھا،اس لیے میں بھی پھنس گیا۔پولیس اور عورت کے ورثا میری کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے ۔وہ بار بار مجھے بھی اس بھگوڑے جوڑے کا مددگار قرار دیتے تھے ۔سو اس چکر میں ،میں نے پولیس سے جوتے بھی کھاے ،انہیں اچھی خاصی رقم بھی کھلای اور چند مہینے جیل بھی کاٹی، اور آیندہ کے لیے کسی کو اپنا موبایل فون دینے سے توبہ کر لی ۔۔۔۔۔۔۔یہ واقعہ یا د آتے ہی ہم گاڑی کی طرف جانے کی بجاے سامنے موجود کال سینٹر میں گھس گیے اور سامنے کاونٹر پر کھانا کھانے میں مصروف آدمی سے ایک موبایل فون کارڈ مانگا اور جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔اسی اثنا میں کنڈیکٹر کا فون آگیا کہ گاڑی میں اب صرف ہمارا انتظار ہو رہا تھا ۔ہم نے کارڈ اور بقایا پیسے لینے کے لیے کاونٹر والے آدمی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوے کنڈیکٹر کو ایک منٹ رکنے کی درخواست کی کہ ساہنوں وی لے چل نال وے ،باو سوہنی گڈی والیا ۔ہمارا گمان ہے کہ کاونٹر والے شخص نے بھی ہماری جلدی کی کیفیت کو ضرور تاڑ لیا ہو گا ۔پیسے ہاتھ میں پکڑتے ہوے ایک بار ہمیں انہیں گننے کا خیال ضرور آیا لیکن پھر ہم یہ سوچ کر گاڑی کی طرف بڑھ گیے کہ دکاندار نے بقایا رقم پوری ہی دی گی ۔البتہ جب ہم دکان سے باہر نکل رہے تھے تو ایک دو بار ہمارے دل کی دھڑکن بے ترتیب ضرور ہوی لیکن ہم نے کوی خاص توجہ نہ دی ۔گاڑی میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد جب کرایہ دینے کے لیے جیب سے پیسے نکالےتو وہاں سو روپے کے تین نوٹ ہمارا منہ چڑا رہے تھے ۔سو روپے کا ایک نوٹ کم تھا ۔گویا اس دکاندار نے ہمیں چار سو روپے واپس کرنے کی بجاے تین سو روپے واپس کیے تھے ۔کاش ہم کاونٹر سے ہٹنے سے پہلے بقایا رقم گن لیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح اُس روز ہمارا سارا سفر اس دکاندار کو جلی کٹی سناتے گرزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تازہ واردات کا قصہ بھی سن لیجیے ۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ روز گھرسے واپس آرہے تھے ۔دفتر پہنچنے کی جلدی تھی ،اس لیے سوچا کہ پہلے ہاسٹل جانے اور وہاں سے موٹرسایکل لے کر دفتر جانے کی بجاے کیوں نہ میٹرو بس پر سفر کرکے جلدی دفتر پہنچا جاے ۔چنانچہ قریبا پانچ بجے شام ہم نیازی چوک ،پُرانا بتی چوک ،اتر کر میٹر و سٹیشن کی طرف بڑھ گیے ۔ٹکٹ والے کیبن میں ایک پیاری سی لڑکی بیٹھی مسافروں سے پیسے وصول کرکے انہیں ٹوکن دے رہی تھی ۔ہم نے اسے پچاس روپے کا نوٹ دیا ۔اس نے ہمیں ٹوکن کے علاوہ ایک دس روپے اور ایک بیس روپے کا نوٹ کچھ اس طرح دیا کہ بیس روپے کا نوٹ دس روپے کے نوٹ کے اندر لپٹا ہوا تھا ۔اور خاتون ٹکٹ کلکٹر نے دونوں نوٹ ہمیں خاصے توڑ مروڑ کر پکڑاے تھے ۔ہم نے جلدی سے پیسے جیب میں ڈالے اور گاڑی کی طرف بڑھ گیے ۔رات اپنی دفتری مصروفیت سے فارغ ہو کر رکشہ پکڑا اور ہاسٹل کی طرف روانہ ہو گیے ۔منزل پر پہنچنے کے بعد جب ہم نے رکشے والے کو کرایہ دیا تو اس نے یہ کہہ کر بیس روپے کا ایک نوٹ ہماری طرف بڑھایا کہ صاحب یہ نوٹ آدھا ہے ۔تب عقدہ کھلا کہ لیجیے صاحب آج تو صنف نازک نے ہمیں چونا لگا دیا ۔کیونکہ ہماری جیب میں بیس کا نوٹ ایک وہی تھا جو ہمیں میٹرو سٹیشن سے بقاے کی صورت میں ملا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں وارداتوں میں ہم نے جلدبازی کی اور بقایا پیسے گننے کی زحمت تک نہ کی ۔سیانے سچ کہتے ہیں کہ جلدبازی کا کام شیطان کا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن میٹرو سٹیشن والی لڑکی کے بارے میں ہم ابھی تک نیک گمان ہی رکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس سے غلطی ہو گیی ہو ۔اگرچہ ہمارا دل اس پر مصر ہے کہ موصوفہ نے وہ غلطی سوچ سمجھ کر کی تھی ۔اب اس سے یار لوگ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم حسن زن سے حسن ظن رکھنے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔واضح رہے کہ بیس روپے کا یہ آدھا نوٹ ہم نے اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آے۔

پی پی رہنما شوکت بسرا پر حملہ ،تصویر کا دوسرا رخ


منگل، 7 فروری، 2017

بادشاہوں کا مزاج امیر خسرو کی نظر میں ۔۔۔


محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کے سوانح نگار راجکمار ہردیو لکھتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار خواجہ صاحب کے خلیفہ خواجہ حسن علا سنجری علیہ الرحمہ کے ہمراہ حضرت کی خدمت میں دلی حاضر ہوے تو ملاقات کے بعد حضرت کے حکم پر امیر خسرو علیہ الرحمہ نے انہیں اپنے گھر بطور مہمان ٹھہرایا ۔جب ذرا بے تکلفی بڑھی تو راجکمار ہردیو کے بقول "میں نے بادشاہ وقت علا الدین خلجی کی برای کرنی شروع کردی اور کہا کہ وہ بہت ہی بُرا بادشاہ ہے ۔میری بات سن کر امیر خسرو بہت ہنسے ۔پھر مجھ سے پوچھا ،ہر دیو کیا تم نے کبھی کسی ڈاکو کو دیکھا ہے ۔میں نے کہا کہ ایک نہیں ،بہت سے ڈاکو دیکھے ہیں۔انہوں نے پھر پوچھا،ڈاکو کس کو کہتے ہیں۔میں نے جواب دیا کہ جو دوسروں کا مال لُوٹ لے ،جان لے لے ،عورتوں اور بچوں پر رحم نہ کرے ،اس کو ڈاکو کہتے ہیں ۔تب امیر خسرو نے مسکرا کر کہا ،تم نے یہ بھی سنا ہو گا کہ سواے ان گناہوں کے جن کا ذکر تم نے کیا ،اور کوی بُرای ان میں نہیں ہوتی ۔وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ،جو دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر ،وہ لوٹا ہوا مال غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیتے ہیں۔مہمانوں اور مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔لاوارث عورتوں اور بچوں کی مدد کرتے ہیں۔ہر وقت خدا کی مخلوق کو فایدہ پہنچاتے ہیں۔نماز پڑھتے ہیں۔اگر ہندو ہوں تو گنگا میں نہاتے اور مندروں میں جاتے ہیں۔تم مجھے بتاو کہ ان ڈاکووں کی یہ باتیں تعریف کے قابل ہیں یا نہیں؟۔۔۔۔میں نے کہا کہ جو اچھی بات ہے وہ اچھی اور جو بُری بات ہے وہ بُری ۔پس ڈاکہ مارنا بُرا ہے ،اور جتنے کام آپ نے بتاے ،وہ سب اچھے ہیں۔۔۔۔اس پر امیر خسرو نے کہا کہ ،"اگر میں کسی ڈاکو کے نیک کاموں کی تعریف کروں تو تم یہ تو نہیں کہو گے کہ وہ ڈاکو ہے ،بے رحم ہے ۔تو میں تم سے یہ کہوں گا کہ یہ بادشاہ ڈاکو ہوتے ہیں اور بہت اعلی قسم کے ۔۔۔یہ دوسروں کا ملک چھین لیتے ہیں۔ان کو مفلس بنا دیتے ہیں۔عورتوں اور بچوں پر بھی رحم نہیں کرتے ۔مگر اس عیب کے سوا ان میں ہزاروں خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔وہ عباد ت کرتے ہیں ،خیرات کرتے ہیں۔بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ننگوں کو کپڑے بانٹتے ہیں۔کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے ۔لیکن جب انہیں شک ہو جاے کہ کوی ان کی بادشاہی کے لیے خطرہ ہے ،تو چاہے وہ مرشد ہو ،ماں باپ ہوں ،بھای ہو ،اپنی اولاد ہو ،تو وہ رحم اور انصاف بھول جاتے ہیں اور سب کو فنا کر دینا بادشاہت کا ایمان سمجھتے ہیں۔یہی حال علا الدین خلجی کا سمجھ لو کہ وہ بھی دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکووں میں سے ایک ہے ۔"۔۔۔یہ کہہ کر امیر خسرو نے کچھ دیر توقف کیا ۔پھر بولے ،"ہر دیو ،دلی میں ابھی تم نیے نیے آے ہو ۔تم کو معلوم نہیں کہ خود مختار بادشاہوں کے پایہ تخت میں زندگی بسر کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔تمہیں جلد ہی معلوم ہو جاے گا کہ علاالدین خلجی کے اکثر مصاحب ،امیر اور فوجی سردار ہمارے حضرت کے مرید ہیں۔چند آدمی فقط بادشاہ کے مرید ہیں۔بادشاہ کے سوا انہیں نہ خدا کی ضرورت ہے نہ رسول کی ۔اگر وہ کبھی خدا اور رسول کو یاد کرتے ہیں تو بادشاہ کی خوشنودی کے لیے ۔وہ پیروں کے پاس جاتے ہیں ،نذر دیتے ہیں اور دعا کراتے ہیں فقط بادشاہوں کے یہاں ملازمت پکی کرانے کے لیے ایسا کرتے ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔{ نظامی بنسری ۔۔۔۔۔تصنیف : راجکمار ہردیو ۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ : حضرت خواجہ حسن نظامی ۔صفحہ : 31,32,33}۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوٹ :واضح رہے کہ راجکمار ہردیو کا تعلق دکن کی مقامی ریاست دیوگیر کے شاہی گھرانے سے تھا۔فارسی زبان و ادب سے محبت رکھنے والے راجکمار ہردیو نے حضرت محبوب الہی کی سوانح عمری "چہل روزہ " کے نام سے فارسی میں لکھی جس کا اردو ترجمہ خواجہ حسن نظامی نے " نظامی بنسری " کے نام سے کیا جو پہلی بار 1945میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا ۔کچھ عرصہ پہلے اس کتاب کی تلخیص ڈاکٹر محمود الرحمان صاحب نے کی اور یہ حال ہی میں اسلام آباد سے شایع ہوی ہے ۔

اتوار، 5 فروری، 2017

ڈیرہ غازی خان کی 20 بستیوں کو مہلک بیماریوں نے گھیر رکھا ہے - Mansoor Asghar Raja


پنجاب حکومت پر ترک ٹیکسی سروس کو نوازنے کا الزام


ڈیرہ غازی خان کا رہایشی 6 بیٹیوں کو " ونی " سے بچانے کے لیے دربدر


Introduction





Mansoor Asghar Raja
is a journalist,analyst and research scholar from Lahore Pakistan.He has worked as Radio News Caster at Mast FM 103,Sub Editor & Feature Writer in Weekly Nidai Millat Lahore and  now working as Investigative  Reporter in Daily Ummat Karachi .He has conducted several interviews of various famous public figure of every walk of  life.A lot of investigative stories about different burning issues are at his credit .  He has done his Master in Urdu Literature from Islamia University Bahawalpur and now doing M.Phil from University Of Management and Technology Lahore.


Contact Us:

Google:- mansoorasghar.raja@gmail.com