Translate

پیر، 27 فروری، 2017

میڈیا اور دہشت گردی

دو ڈھای برس پہلے کی بات ہے ۔گرمیوں کے دن تھے اور دوپہر کے وقت ہم اپنے دفتر میں بیٹھے معمول کے کام کاج میں مصروف تھے کہ یکایک ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کا شور مچا دیا ۔پہلے ایک چینل پر ٹکر چلا کہ "نشتر ہسپتال ملتان میں دھماکے کی آواز سنای دی ہے" ۔اس کے ساتھ ہی چینلز کے نیوز اینکر چیخنے چلانے لگے اور سب سے پہلے خبر دینے کی دوڑ شروع ہو گیی۔فطری طور پر ہمیں بھی پریشانی لاحق ہوی کہ خدا خیر کرے کہ نشتر ہسپتال جنوبی پنجاب کا بڑا سرکاری ہسپتال ہے ۔۔۔نجانے کتنا نقصان ہوا ہو گا۔۔۔۔۔صرف ہم ہی نہیں بلکہ یقینی طور پر اس وقت ٹی وی دیکھنے والا ہر شخص ہی پریشان ہوا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن حیرت اس وقت ہوی جب کچھ دیر بعد چینلز پر خاموشی چھا گیی اور پھر ایک آدھ چینل پر یہ ٹکر چلا کہ "نشتر ہسپتال میں دھماکے کی آواز پانی کا ایک پایپ پھٹنے کی وجہ سے پیدا ہوی "۔۔۔۔۔کچھ چینلز نے تو اس وضاحت کی ضرور ت بھی محسوس نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔23فروری کو بھی چینلز نے یہی حرکت کی ۔ابھی چینلز پر ڈیفنس میں ہونے والے دھماکے کی تفصیلات آ رہی تھیں ۔شہر بھر میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا ۔والدین اپنے بچوں کو لینے کے لیے سکولوں کی طرف بھاگ رہے تھے کہ اسی اثنا میں چینلز نے شور مچا دیا کہ گلبرگ میں بھی دھماکے کی آواز سنی گیی ہے ۔یہ نام نہاد بریکنگ نیوز سنتے ہی پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہو گیی کہ الہیِ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی روز محض ایک گھنٹے کے اندر لاہور میں دو دھماکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الہی خیر۔۔۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی فوری طور پر گلبرگ کی طرف بھاگے ۔لیکن جب تحقیق ہوی تو پتہ چلا کہ وہاں سے گزرتے کسی رپورٹر نے کسی گاڑی کا ٹایر پھٹنے کی آواز سنی تھی اور فوراً اپنے چینل پر گلبرگ میں بھی دھماکے کی خبر چلوا دی اور باقی چینلز نے تحقییق کرنے کی بجاے بھیڑ چال کے اصول پر عمل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا ایک ہدف خوف و ہراس پھیلانا بھی ہوتا ہے ۔اور یہی کام ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔تو پھر دونوں میں کیا فرق باقی رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم شاید پہلے بھی کہیں ذکر کر چکے ہیں کہ ہم گزشتہ پانچ سال سے رپورٹنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔اگر ایک ہی خبر کی کسی دوسرے سورس سے تصدیق نہ ہو تو اس خبر کو فایل کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ہمارے اساتذہ نے تو ہمیں یہ سبق سکھایا کہ اگر تمہیں کوی یہ کہے کہ میاں ایک کتا تمہارا کان منہ میں دباے بھاگے جا رہا تھا تو کتے کے پیچھے لپکنے سے پہلے ایک بار اپنا کان ضرور دیکھ لیا کرو۔۔۔۔آج کل کے رپورٹرز ۔۔۔۔۔۔۔ہماری مراد الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹرز کی اکثریت  سے ہے { اکثریت اس لیے کہا کہ یہاں بھی سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں }۔۔۔۔۔۔۔۔کی پھرتیوں کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ شاید انہیں یہ سبق الٹ پڑھایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل ہر شخص ہی راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچنا چاہتا ہے ۔۔۔۔ہر شخص چشم زدن میں صف اول کا اینکر بننے کے خواب دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے ٹھیک سے چند جملے لکھنے نہیں آتے ،وہ بھی چاہتا ہے کہ صحافت کا ابتدای سبق "خبر نویسی" پڑھنے اور سیکھنے کی بجاے راتوں رات کالم نویس بن جاے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن بعض لوگ اس سلسلے میں رپورٹر کو بے قصور قرار دیتے ہیں ۔۔۔۔اس طبقہ فکر کا کہنا ہے کہ دراصل جب سے میڈیا نے انڈسٹری کی صورت اختیار کی ہے اور اس کی باگ ڈور تمباکو فروش ،گھی فروش، ،آٹا فروش اور تعلیم فروش لوگوں کے ہاتھ میں آی ہے ،،،،ہمارے ٹی وی چینلز میں سے ایڈیٹر کا عہدہ تو جیسے غایب ہی کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔اوپر سے نیچے تک صرف ریٹنگ کی فکر ہوتی ہے ،اس کے لیے خواہ اپنے کپڑے اتارنے پڑیں یا ایف سی کے کسی جوان سے تھپڑ کھانے پڑیں مالکان کی بلا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کپڑے اتارنے والی بات ہم نے ازراہ طنز بالکل نہیں کہی بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ کے لیے کپڑنے اتارنےیا اتروانے میں کوی شرم محسوس نہیں کی جاتی اور بدقسمتی سے یہ کام اعلی ترین سطح سے ہوتا ہے ۔۔۔۔ایک معروف ٹی وی چینل پر نیوز پروڈکشن کے شعبے میں فرایض انجام دینے والے ایک دوست گزشتہ دنوں ہم سے ملنے آے تو انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا کہ گزشتہ موسم گرما میں ایک روز وہ کسی دوسرے شہر میں موجود اپنی خاتون رپورٹر کا بیپر  ریکارڈ کر رہے تھے کہ اتنے میں ان کے نیوز ڈایریکٹر ان کے پاس آ گیے ۔خاتون رپورٹر خوبصورت بھی تھی اور صحت مند جسم کی مالک بھی ،اسے دیکھتے ہی ڈایریکٹر نے نیوز پروڈیوسر سے کہا کہ " دیکھو اس لڑکی کا بیپر دوبارہ ریکارڈ کرو ۔اور اسے کہو کہ ڈوپٹہ اتار کر  کیمرے کے سامنے آے اور صرف اس کا چہرہ کور کرنے کی بجاے اسے سر سے پاوں تک دکھاو "۔۔۔۔۔۔۔جب چینلز میں اہم پوسٹوں  پر ایسے لوگ براجمان ہونگے تو پھر جو بھی ہو کم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نیوز اینکرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔محلے میں باہم لڑ پڑنے والی خواتین اتنی نہ چیختی ہونگی ،جتنا یہ لوگ خبر پڑھتے ہوے چیختے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیوز کاسٹر کو تو سپاٹ لہجے میں خبر پڑھنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔نیوز کاسٹر اور رپورٹر خبر پڑھتے اور سٹوری فایل کرتے وقت اپنے جذبات ایک طرف رکھ دیتا ہے  تاکہ معروضیت برقرار رہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔۔۔۔ہم کبھی کبھی بی بی سی اردو یا وایس آف امریکہ کا اردو بلیٹن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے نیو ز کاسٹر ہمارے کانوں میں رس گھول رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلبرگ دھماکے کی غلط خبر چلانے والے چینلز کو پیمرا نے نوٹس تو جاری کیا ہے لیکن صرف نوٹس کافی نہیں بلکہ اس سلسلے میں کوی ضابطہ طے کرنی کی ضرورت ہے اور ان چینلز کو کسی قاعدے قانون کے تابع کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم جب چینلز پر مچی اس ہڑبونگ کو دیکھتے ہیں تو اکثر سوچتے ہیں کہ کاش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ وقت واپس لوٹ آے جب رات نو بجے کے خبرنامے کے بعد پی ٹی وی کی نشریات بند ہو جاتی تھیں اور لوگ چین کی نیند سو جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے کاش 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں