محبوب الہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ کے سوانح نگار راجکمار ہردیو لکھتے ہیں کہ جب وہ پہلی بار خواجہ صاحب کے خلیفہ خواجہ حسن علا سنجری علیہ الرحمہ کے ہمراہ حضرت کی خدمت میں دلی حاضر ہوے تو ملاقات کے بعد حضرت کے حکم پر امیر خسرو علیہ الرحمہ نے انہیں اپنے گھر بطور مہمان ٹھہرایا ۔جب ذرا بے تکلفی بڑھی تو راجکمار ہردیو کے بقول "میں نے بادشاہ وقت علا الدین خلجی کی برای کرنی شروع کردی اور کہا کہ وہ بہت ہی بُرا بادشاہ ہے ۔میری بات سن کر امیر خسرو بہت ہنسے ۔پھر مجھ سے پوچھا ،ہر دیو کیا تم نے کبھی کسی ڈاکو کو دیکھا ہے ۔میں نے کہا کہ ایک نہیں ،بہت سے ڈاکو دیکھے ہیں۔انہوں نے پھر پوچھا،ڈاکو کس کو کہتے ہیں۔میں نے جواب دیا کہ جو دوسروں کا مال لُوٹ لے ،جان لے لے ،عورتوں اور بچوں پر رحم نہ کرے ،اس کو ڈاکو کہتے ہیں ۔تب امیر خسرو نے مسکرا کر کہا ،تم نے یہ بھی سنا ہو گا کہ سواے ان گناہوں کے جن کا ذکر تم نے کیا ،اور کوی بُرای ان میں نہیں ہوتی ۔وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ،جو دل میں ہوتا ہے وہی زبان پر ،وہ لوٹا ہوا مال غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیتے ہیں۔مہمانوں اور مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔لاوارث عورتوں اور بچوں کی مدد کرتے ہیں۔ہر وقت خدا کی مخلوق کو فایدہ پہنچاتے ہیں۔نماز پڑھتے ہیں۔اگر ہندو ہوں تو گنگا میں نہاتے اور مندروں میں جاتے ہیں۔تم مجھے بتاو کہ ان ڈاکووں کی یہ باتیں تعریف کے قابل ہیں یا نہیں؟۔۔۔۔میں نے کہا کہ جو اچھی بات ہے وہ اچھی اور جو بُری بات ہے وہ بُری ۔پس ڈاکہ مارنا بُرا ہے ،اور جتنے کام آپ نے بتاے ،وہ سب اچھے ہیں۔۔۔۔اس پر امیر خسرو نے کہا کہ ،"اگر میں کسی ڈاکو کے نیک کاموں کی تعریف کروں تو تم یہ تو نہیں کہو گے کہ وہ ڈاکو ہے ،بے رحم ہے ۔تو میں تم سے یہ کہوں گا کہ یہ بادشاہ ڈاکو ہوتے ہیں اور بہت اعلی قسم کے ۔۔۔یہ دوسروں کا ملک چھین لیتے ہیں۔ان کو مفلس بنا دیتے ہیں۔عورتوں اور بچوں پر بھی رحم نہیں کرتے ۔مگر اس عیب کے سوا ان میں ہزاروں خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔وہ عباد ت کرتے ہیں ،خیرات کرتے ہیں۔بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ننگوں کو کپڑے بانٹتے ہیں۔کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے ۔لیکن جب انہیں شک ہو جاے کہ کوی ان کی بادشاہی کے لیے خطرہ ہے ،تو چاہے وہ مرشد ہو ،ماں باپ ہوں ،بھای ہو ،اپنی اولاد ہو ،تو وہ رحم اور انصاف بھول جاتے ہیں اور سب کو فنا کر دینا بادشاہت کا ایمان سمجھتے ہیں۔یہی حال علا الدین خلجی کا سمجھ لو کہ وہ بھی دنیا کے بڑے سے بڑے ڈاکووں میں سے ایک ہے ۔"۔۔۔یہ کہہ کر امیر خسرو نے کچھ دیر توقف کیا ۔پھر بولے ،"ہر دیو ،دلی میں ابھی تم نیے نیے آے ہو ۔تم کو معلوم نہیں کہ خود مختار بادشاہوں کے پایہ تخت میں زندگی بسر کرنا کتنا مشکل کام ہے ۔تمہیں جلد ہی معلوم ہو جاے گا کہ علاالدین خلجی کے اکثر مصاحب ،امیر اور فوجی سردار ہمارے حضرت کے مرید ہیں۔چند آدمی فقط بادشاہ کے مرید ہیں۔بادشاہ کے سوا انہیں نہ خدا کی ضرورت ہے نہ رسول کی ۔اگر وہ کبھی خدا اور رسول کو یاد کرتے ہیں تو بادشاہ کی خوشنودی کے لیے ۔وہ پیروں کے پاس جاتے ہیں ،نذر دیتے ہیں اور دعا کراتے ہیں فقط بادشاہوں کے یہاں ملازمت پکی کرانے کے لیے ایسا کرتے ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔{ نظامی بنسری ۔۔۔۔۔تصنیف : راجکمار ہردیو ۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ : حضرت خواجہ حسن نظامی ۔صفحہ : 31,32,33}۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نوٹ :واضح رہے کہ راجکمار ہردیو کا تعلق دکن کی مقامی ریاست دیوگیر کے شاہی گھرانے سے تھا۔فارسی زبان و ادب سے محبت رکھنے والے راجکمار ہردیو نے حضرت محبوب الہی کی سوانح عمری "چہل روزہ " کے نام سے فارسی میں لکھی جس کا اردو ترجمہ خواجہ حسن نظامی نے " نظامی بنسری " کے نام سے کیا جو پہلی بار 1945میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا ۔کچھ عرصہ پہلے اس کتاب کی تلخیص ڈاکٹر محمود الرحمان صاحب نے کی اور یہ حال ہی میں اسلام آباد سے شایع ہوی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں