Translate

پیر، 20 فروری، 2017

صرف ایک تھپکی

ہماری اما ں مرحومہ کو بڑا شوق تھا کہ ان کا اکلوتا بیٹا ایک اچھا مقرر بنے۔ چونکہ ہمارے بڑے ماموں ٹیچرتھے تو وہ ان سے اکثر کہا کرتیں کہ آپ منصور کو بھی کبھی کبھار سٹیج پر کھڑا کیا کریں تاکہ اسے لوگوں کے سامنے کھڑے ہونے اور بولنے کی عادت ہو جاے ۔ہم اس وقت پہلی جماعت میں تھے ۔سکول میں سالانہ تقریری مقابلہ ہونے والا تھا ۔پہلی جماعت کا چھوٹا سا بچہ بھلا کیا تقریر کر سکتا تھا۔لیکن مقابلے سے ایک دن پہلے ریہرسل کے دوران ماموں جان نے اچانک ہمیں اپنی طرف بلاتے ہوے اعلان کر دیا کہ آج منصور تلاوت کرے گا ۔ہمیں آج بھی یاد ہے کہ پرایمری سکول میں لگے بڑے سے کیکر کے درخت کے نیچے سب طلبہ بیٹھے تھے اورمجمع کےسامنے چند اساتذہ کرسیوں پر تشریف فرما تھے ۔ہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کر اساتذہ کے سامنے پہنچنے تک محاورتاً نہیں حقیقتاً زمانے لگے ۔ٹانگیں تھرتھر کانپ رہی تھیں۔گلا خشک ہوا جا رہا تھا۔جب ہم مجمع کے سامنے پہنچے تو ماموں فرمانے لگے کہ سورت فاتحہ پڑھ دو ۔ہم نے کانپتے کانپتے تلاوت شروع کی اور اس کے ساتھ ہی ہمار ی آواز بھرا گیی ،گلا رندھ گیا اور ابتدای دو تین آیتیں پڑھنے کے بعد ہی ہم رو پڑے ۔طلبہ کے مجمع میں سے دبے دبے قہقہے بلند ہوے ۔اتنے میں ہمارے پیچھے تشریف فرما ایک سینیر ٹیچر ماسٹر محمد منیر مرحوم نے آگے بڑھ کر ہمیں اپنی گود میں لے لیا ۔ ہماری پیشانی چومی ، سر پر پیار سے پھیرا اور ہماری دل جوی کے لیے چند تعریفی کلمات بھی ارشاد فرماے ۔۔۔۔اس طرح اگلے چند منٹوں میں ہم خاصے سنبھل گیے لیکن پھر بھی آیندہ کیی رو ز تک ہماری طبیعت پر اس حادثے کا اثر باقی رہا اور ہم ساتھی طلبہ کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ہم نے اگلے چھ سات برسوں تک سکول کے سٹیج کا رخ نہ کیا۔اماں اکثر ڈانٹتی رہتیں کہ ہم تقریری مقابلوں میں حصہ کیوں نہیں لیتے ۔لیکن ہم ٹال مٹول کردیتے ۔بالآخر ہم ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھے ،جب ہم ایک بار پھر سکول کے سٹیج پر نمودار ہوے ۔مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں تقریری مقابلہ تھا اور ہم نے اس میں ایک نظم پڑھی تھی جس پر ہمیں بطورانعام ایک کتاب بھی ملی ۔اب کی بار تھوڑا سا حوصلہ بڑھا۔ دسویں جماعت میں تھے جب پہلی بار ہم نے تقریر کرنے کے لیے اپنا نام لکھوایا ۔غالباً ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبوی پر لب کشای کرنی تھی ۔مقابلے سے ایک روز پہلے ریہرسل کے دوران جب ہم نے بھی اپنی باری پر تقریر کی تو ہمارے ایک استاذ صاحب نے ہماری تعریف کرتے ہوے فرمایا کہ ،اس طالب علم کے شعر پڑھنے کا ایک خاص انداز ہے جو بہت اچھا ہے ۔یہ جب شعر پڑھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مقرر شعر پڑھ رہا ہے ۔باقی مقررین میں یہ خوبی ذرا کم دیکھنے میں آی ہے ۔"سچ پوچھیے تو ہمیں یوں لگا کہ ہمیں ہماری تقریر کا انعام ابھی مل گیا ہے ۔استاذ گرامی کا یہ تعریفی جملہ آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتا رہتا ہے ۔ان کی یہ ایک تھپکی قدم قدم پر ہمارا حوصلہ بڑھاتی رہی ۔اس ایک تھپکی نے ہی یہ دن بھی دکھاے کہ علما کی میڈیا ورکشاپ میں لیکچر ہو یا سیاسی جلسے میں سیاسی تقریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلی جماعت میں تلاوت کرتے ہوے رو پڑنے والا بچہ اب نہیں گبھراتا اورنہ ہی سٹیج پرکھڑے ہو کر مجمع کا سامنا کرتے ہوے اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ استاذ کی صرف ایک تھپکی شاگرد کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔تلاوت کے دوران روپڑنے کا یہ واقعہ گزشتہ دنوں ہمیں تب یاد آیا ،جب جماعت اول میں زیر تعلیم ہمارے بیٹے نے اپنے مکتب میں بارہ ربیع الاول کے موقعہ پر تلاوت کی ۔ہم بھی قریب ہی بیٹھے ہوے تھے اور سات سالہ عبداللہ کے چہرے کی طرف بغور دیکھ رہے تھے ۔اس نے جلدی سے سورۃ کوثر تلاوت کی ۔اس دوران اس کا چہرہ لال سرخ ہو چکا تھا ۔صدق اللہ العظیم کہتے ہی وہ گولی کی طرح اپنی نشست کی طرف لپکا جس پر ہم مسکرا کر رہ گیے ۔ہمیں خدشہ تو تھا کہ کہیں صاحبزادہ اپنے ابا کی بچپن کی روایت زندہ نہ کردے لیکن برخوردار اپنے ابا سے زیادہ باہمت نکلا ۔....سیانے سچ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک شاباش ،ایک تھپکی ،حوصلہ افزای کے لیے کہا گیا صرف ایک جملہ وہ اثر دکھاتا ہے جو لمبے چوڑے لیکچر نہیں دکھا سکتے ۔ہمارے ایک استاذ فرمایا کرتے تھے کہ غلطی کرنے پر بچے کے کان ضرور ضرور کھینچنے چاہییں ،لیکن کسی امتحان میں ناکامی پر اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ناکامیوں سے ہی انسان سیکھتا ہے۔اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ
مجھے پستیوں سے گلہ نہیں کہ ملی ہیں ان سے بلندیاں
میرے حق میں دونوں مفید ہیں ،کہ نشیب ہی سے فراز ہے

5 تبصرے:

  1. جن کی ماں نہیں ھے انہوں نے آپ کی تحریر ضرور پڑھی ھوگی- آپ کی تحریر نے مجھے جذباتی کر دیا کیونکہ اللہ سبحانہ تعالی کی اس بیش قیمت نعمت سے ھم بھی محروم ھیں- لیکن جو ھستی اس جذباتیت کی وجہ بنی آپ نے دوبارہ اس کا ذکر ھی نہیں کیا - آپ اپنی جس کامیابی کاذکر کیا وہ یقینا آپ کی والدہ مرحومہ کی دعاوں ھی کی بدولت ھوا -لیکن ...کیا وہ خود بھی اپنی زندگی میں یە سب کچھ دیکھ سکیں یا اپنے تصورات میں ایک تصویر سجائے دعائیں دیتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں- اللە کرے وہ اپنی خواھشات کی تکمیل کے ساتھ ھی اپنی حقیقی دنیا میں لوٹی ھوں-اللہ ان کی قبر پر رحمتیں نازل فرمائیں اور اس جہاں سے جانے والے انہیں اپنی اولاد سے متعلق اچھی خبریں ھی دیتے رھے ھوں-

    جواب دیںحذف کریں
  2. جن کی ماں نہیں ھے انہوں نے آپ کی تحریر ضرور پڑھی ھوگی- آپ کی تحریر نے مجھے جذباتی کر دیا کیونکہ اللہ سبحانہ تعالی کی اس بیش قیمت نعمت سے ھم بھی محروم ھیں- لیکن جو ھستی اس جذباتیت کی وجہ بنی آپ نے دوبارہ اس کا ذکر ھی نہیں کیا - آپ اپنی جس کامیابی کاذکر کیا وہ یقینا آپ کی والدہ مرحومہ کی دعاوں ھی کی بدولت ھوا -لیکن ...کیا وہ خود بھی اپنی زندگی میں یە سب کچھ دیکھ سکیں یا اپنے تصورات میں ایک تصویر سجائے دعائیں دیتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں- اللە کرے وہ اپنی خواھشات کی تکمیل کے ساتھ ھی اپنی حقیقی دنیا میں لوٹی ھوں-اللہ ان کی قبر پر رحمتیں نازل فرمائیں اور اس جہاں سے جانے والے انہیں اپنی اولاد سے متعلق اچھی خبریں ھی دیتے رھے ھوں-

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی سر اس میں کوی شک نہیں کہ اس وقت جو کامیابیاں میرے قدم چوم رہی ہیں ،اس میں سب سے زیادہ حصہ اماں کی دعاوں کا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔میں آج سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود اماں کیسے اعلیِ خطوط پر میری تربیت کی ۔۔۔اس پر لکھتا رہوں گا۔۔۔۔۔۔اماں مجھے کہا کرتیں کہ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ لوگوں کو فخر سے بتاییں کہ ان کا بیٹا سولہ جماعتیں پڑھا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن میری ایم فل کے لیے انرولمنٹ ہوی ،اس روز اماں بہت یاد آییں کہ اگر آج وہ حیات ہوتیں تو کتنا خوش ہوتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کریم ان کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے اور مجھ ناچیز کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بناے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. Thank Allah Almighty your mother's dream of your being orator has materialized. You are blessed with aesthetic art of speaking and writing. May Allah bless your great mother high rank in Jannah. She was God fearing, sober and caring.

    جواب دیںحذف کریں