برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی سا ت فروری کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شام کی صیدنایا جیل میں گزشتہ چار برسوں کے دوران خفیہ طور پر قریباً 13ہزار افراد کو پھانسی دی گیی ۔اس جیل میں ستمبر 2011 سے دسمبر2015تک ہر ہفتے اجتماعی پھانسیاں دی جاتی رہیں۔رپورٹ کے مطابق پھانسی پانے والوں میں سے بیشتر لوگ شامی حزب مخالف کے حامی تھے ۔تنظیم نے یہ رپورٹ مذکورہ جیل کے 84سابق قیدیوں اور محافظین کے انٹرویوز کی روشنی میں تیار کی۔اس جیل کے ایک سابق قیدی انس احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جیل حکام تشدد کے لیے دو تین قیدیوں کو الگ کر لیتے اور پھر دوران تشدد ان کی چیخیں باقی قیدیوں کو سنوای جاتیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انہوں نے جنوری کے آغاز میں بشار حکومت سے اس سلسلے میں موقف مانگا لیکن بشار حکومت کی طرف سے اس پر تاحال کوی موقف نہیں دیا گیا البتہ ماضی میں شامی حکومت اس طرح کے الزامات کو رد کر چکی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔حکومتیں ،خاص طور پر ظالم و جابر اورغیر جمہوری و غیر آیینی حکومتیں عام طور پر اس طرح کے الزامات کو رد ہی کیا کرتی ہیں لیکن مورخ کا بے رحم قلم اصل حقایق کو بے نقاب کرکے ہی رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشار الاسد نے اپنی جیلوں میں مخالفین کو پھانسیاں دے کر اور ان پر ظلم و ستم ڈھا کر کوی نیا کام نہیں کیا بلکہ اپنے ابا حافظ الاسد کی پیروی کی ہے ،کیونکہ اپنے دور میں حافظ الاسد بھی یہی کچھ کرتا تھا ۔اس کے دور میں بھی اسلام سے محبت رکھنے والے شامی مسلمانوں پر اسی طرح عقوبت خانوں میں زندگی تنگ کر دی جاتی تھی ۔ان کی جیلوں میں شیطان برہنہ ناچ ناچتا تھا ۔حافظ الاسد کے عمال پورے پورے خاندانوں کو جیل میں ڈال کر بھول جاتے تھے کہ انہیں ایک دن رہای بھی دینی ہے ۔اسی جیل میں ماں بھی قید ہوتی اور بیٹی بھی ۔دونوں کو وطن دشمن قرار دے کر بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ۔یہ شامی حکومتوں کے خلاف محض الزام تراشی نہیں ہے بلکہ دمشق یونیورسٹی کی سابق طالبہ ہبہ الدباغ کی داستان اسیری " صرف پانچ منٹ "اس پر گواہ ہے ۔ہبہ الدباغ دمشق یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں۔دسمبر 1980کی ایک سرد رات وہ اپنے گھر میں بیٹھی فاینل اییر کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھیں کہ اسی دوران ان کے گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوی اور وہاں موجود شامی انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے انہیں صرف پانچ منٹ کے لیے باہر بلایا اور اس کے بعد وہ واپس نہ آسکیں اور اگلے 9 برسوں تک حافظ الاسد حکومت کے عقوبت خانوں میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔انہیں صرف پانچ منٹ کے لیے باہر بلایا گیا لیکن وہ پانچ منٹ 9برسوں پر پھیل گیے تھے ۔بعد ازاں وطن دشمنی کے الزام میں ان کے والدین اور دیگر بہن بھایوں کو بھی گھر سے اٹھا کر زنداں کے حوالے کر دیا گیا۔ان کے ایک بھای نوارف الدباغ اسیری کے دوران ہی شہید کر دیے گیے ۔9برس بعد جب ہبہ الدباغ کی رہای عمل میں آی تو انہوں نے اپنی دل خراش داستان اسیری " خمس دقایق و حسب" کے نام سے کتابی صورت میں لکھی جس کا اردو ترجمہ " صرف پانچ منٹ "کے نام سے شایع ہو چکا ہے ۔گرفتاری کے فوراً بعد جب ٹارچر سیل میں لے جا کر سرکاری گماشتوں نے ہبہ الدباغ پر فرد جرم عاید کی اور اس نے ان کے الزامات کو ماننے اور اپنے ایک بھای کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا تو پھر اس کے ساتھ کیا ہوا ۔اس بارے میں ہبہ الدباغ لکھتی ہیں کہ ،" میرے انکار پر ایک اہلکار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹا کر میری گردن ،کلاییاں ،پیٹ ،گھٹنے اور پاوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا ۔میرے پاوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکا تھا ۔صرف جرابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔میں اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکتی تھی ۔انہوں نے ٹکٹکی کو چھت سے لٹکی زنجیر کے ساتھ ٹانگ دیا ۔آپریشن ہیڈ ایک لمبا سا ڈنڈا پکڑے آگے بڑھا اور بولا ،تمہیں سب کچھ بتانا پڑے گا ۔میں نے کہا کہ میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں ۔اسی اثنا میں پاس کھڑے ایک دوسرے اہلکار نے ایک پلگ میری انگلی کے ساتھ لگایا جس میں کرنٹ تھا ۔اور ساتھ ہی ڈنڈے سے میرے پاوں کے درمیان ضرب لگای ۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے پورے بدن میں آگ لگ گیی ہو ۔وہ میرے چیخوں کو خاطر میں لاے بغیر بولا ،تمہیں بکواس کرنی پڑے گی ۔تم نے دیکھا نہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے اور یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر شمار ہوتا ہے ۔۔۔۔میں نے کہا کہ میں ان چیزوں کا اعتراف کیسے کروں جو میں نے نہیں کیں۔میرے انکار پر تشدد کا سلسلہ شرو ع ہو گیا ۔آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پاوں پر کوڑے برسانے لگا،۔۔ایک اہلکار بید سے مارنے لگا اور سر کی طرف کھڑا آدمی میری انگلیوں پر کرنٹ لگانے لگا۔اتنی شدید تکلیف ہوی کہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔شرو ع میں چیختی رہی ،زبان پر " یا اللہ " کا کلمہ جاری رہا ۔لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میرے بس میں نہ رہا ۔میں کچھ دیر تک سر پٹختی رہی اور پھر مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا ۔وہ مسلسل دس منٹ تک تشدد کرنے کے بعد اچانک رک جاتے ،کچھ دیر گالی گلوچ اور توہین آمیز الفاظ کے استعمال کے بعد دوبارہ مارنے لگتے۔کچھ دیر بعد میری رسیاں کھول دی گییں اور مجھے باہر لے جا کر ایک گاڑی میں بٹھایا گیا۔دوبارہ سے فردجرم میرے سامنے رکھی گیی۔میری طرف سے دوبارہ انکار پر وہ مجھے پھر عقوبت خانے کے اندر لے آے اور اس مرتبہ تشدد پہلے سے بھی بڑھ کر کیا گیا ،حتیِ کہ مجھے یہ بھی خبر نہ رہی کہ کتنے لوگ مجھ پر تشدد کر رہے ہیں اور کتنے کوڑے اور ڈنڈے میرے پاوں پر برس رہے ہیں۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ پورا کمرہ ہی کوڑوں اور ڈنڈوں پر مشتمل ہے ۔جب میں کسی بھی طرح ان کی مرضی کا بیان دینے پر راضی نہ ہو ی تو ایک اہلکار نے بجلی کی ننگی تار میری زبان پر رکھ دی اور کہنے لگا ،کیا اب بھی نہیں بولو گی ؟۔۔۔۔۔۔۔میں نے جواب میں کہا ،تم مجھے کوڑے مارو یا کرنٹ لگاو ،میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ۔اس پر پاس کھڑے انٹروگیشن سینٹر کے سربراہ نے ایک اہلکار سے کہا کہ ،"اسے اٹھا لاو اور کاغذ قلم دو تاکہ جو کچھ یہ جانتی ہے ،اس پر مبنی اپنا تحریری بیان لکھے۔"پھر وہ مجھے سے کہنے لگا ،"اگر تم نے سچ سچ نہ لکھا تو یاد رکھو کہ ہمارے پاس ایسے ایسے وحشی اہلکار ہیں جو دروازہ بند کر دیتے ہیں ۔ "انہوں نے جب مجھے ٹکٹکی سے اتارا تو میرے کپڑے بھیگے ہوے تھے ۔مجھے گزشتہ دو تین گھنٹے مسلسل ٹارچر کیا گیا تھا۔اتنے میں ایک اہلکار نے مجھے کاغذ قلم پکڑاتے ہوے کہا کہ " سنو ،اگر سچ لکھو گی تو اپنے آپ کو عذاب سے بچا لو گی ،ورنہ کسی کو تمہارا نام و نشان بھی نہیں ملے گا"۔میں نے جب کاغذ پر بھی ان کا مطلوبہ بیان نہ لکھا توادارے کے سربراہ ناصیف نے مجھے پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی اور انتہای گندی زبان استعمال کرتے ہوے بولا،"اگر ابھی اور اسی وقت تم نے ہر چیز کا اعتراف نہ کیا تو میں سب کے سامنے تمہارے کپڑے اتار دوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔جاری ہے
مجھے نہیں معلوم ان کالمز کا جیل میں یا شام میں جدوجہد کرنے والے لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچتا ھے یا نہیں۔لیکن مجھ جیسا کمزور دل انسان رات کو سونے کے لئے کروٹین ھی لیتا رہتا ھے ۔دل دکھتا ھے اور بے بسی کے آنسو چھلکتے ھیں۔شائد ھمارے گناھوں کی سزا ھے۔2 دن قبل حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب نے شام کے لوگوں سے ایک مختصر سے بیان میں ھمدردی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ شام میں جو کچھ ھو رھا ھے ھم اس پر بہت رنجیدہ ھیں لیکن ایک بات یاد رکھو کہ اس سارے فساد کی جڑ صرف یہی ھے کہ ھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پروگرام پر عمل نہیں کیا جو وہ چاہتے تھے اور لے کر آئے تھے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی امت نافرمانی کرتی ھے تو اللہ تعالی کی ذات اقدس ھدائیت اور تنبی کے لئے یہ سب کچھ دکھاتی ھے جو آج ھو رھا ھے۔آپ نے فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا قصور شامی عوام کا ھے لیکن کہیں نہ کہیں سے تو شروع ھونا ھے اور اللہ جو شاہتے ھیں اسی طرح سے ھوتا ھے۔
جواب دیںحذف کریںسر ،شامی مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم پر آپ جیسا ہر دردمند مسلما ن بے حد غمگین ہے ۔اللہ کریم پوری امت مسلمہ پر رحم فرماے ۔ہماری کوشش صرف یہ ہے کہ کم از کم اس پر آواز تو اٹھای جاے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظالم کی مدد کرنے کے مترادف ہے ۔دعا فرماییں کہ اللہ ہماری اس کوشش کو قبول فرمالیں۔
جواب دیںحذف کریں