۔۔۔۔۔۔۔"اس کی دھمکی نے مجھے دہلا کر رکھ دیا ۔میں نے چیختے ہوے کہا ،لیکن میں کچھ نہیں جانتی ۔جواب میں اس نے مجھے سر سے سکارف اتارنے کا حکم دیا۔میں اسے پتھرای نظروں سے دیکھنے لگی ۔میرا رواں رواں کانپ رہا تھا۔اتنے میں اس نے یہ کہتے ہوے میرے سر کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ ،اگر تم اسے خود نہیں اتارتی تو میں اتار دیتا ہوں۔۔۔۔لیکن میں نے اپنا سکارف مضبوطی سے پکڑے رکھا ،اس لیے وہ کوشش کے باوجود مجھے بے حجاب نہ کر سکا ۔بالآخر زچ ہو کر اس نے سکارف کے نیچے میرے بندھے ہوے بالوں کو پکڑ لیا جو اس وقت کافی لمبے ہوتے تھے ۔اس نے بالوں سے پکڑ کر مجھے اپنی جانب کھینچا اور پھر اچانک میرا سر پوری قوت سے دیوار کے ساتھ دے مارا۔ساتھ ہی اس کے منہ سے گندی گالیوں کا طوفان پھوٹ پڑا،اور وہ سخت غصے میں بولا،"تمہارے انکار کے باوجود تمہارا لباس اور حجاب بتا رہا ہے کہ تم اخوان المسلمون سے تعلق رکھتی ہو "۔اس کے ساتھ ہی اس نے ایک اہلکار کو زنجیر اور کوڑا لانے کا حکم دیا ۔میری اس وقت یہ صورتحال تھی کہ تشدد کے باعث میرے پاوں سوج کر کپا ہو چکے تھے کہ جوتے پہننا بھی ممکن نہ رہا تھا۔میں سزا سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹنے لگی۔ناصیف چڑ کر بولا،"اسے میری نظروں سے دور منفردہ ،قید تنہای کا سیل ،میں لے جاو ۔میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔"مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی " ٹارچر پارٹی" اختتام پذیر ہو گیی ہے۔دراصل مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ منفردہ کسے کہتے ہیں۔ایک اہلکار مجھے مختلف زینوں اور راستوں سے گزارتا ایک نیی جگہ لے گیا۔راستے میں مجھے وہ کہنے لگا کہ ،"تم اصل بات بتا کیوں نہیں دیتی۔کم از کم اپنے حال پر ہی رحم کرو۔دیکھو ،تمہارا چہرہ کس قدر سوج گیا ہے ۔تمہارے ہاتھ نیلے ہو گیے ہیں۔پاوں جوتے پہننے کے قابل نہیں رہے۔اور تم ہو کہ مر کر بھی راز دباے بیٹھی ہو"۔میرا دل بھر آیا اور میں نے صرف اتنا کہا کہ ،"اللہ ان ظالموں کو عافیت نہ دے "۔ہم چلتے چلتے ایک سیل کے پاس پہنچے تو سامنے حسین کھڑا تھا۔اسے میں پہلے بھی دیکھ چکی تھی جب مجھے پہلی بار تفتیشی کمرے میں لایا گیا تو وہاں ایک نوجوان کو ڈنڈوں اور زنجیروں کے ساتھ بڑے وحشیانہ طریقے سے مارا جا رہا تھا اور یہ آدمی مارنے والوں میں پیش پیش تھا۔اب یہاں مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ تمسخرانہ انداز میں ہتھکڑیاں لیے یہ کہتے ہوے میری جانب بڑھا،"اھلاً و سھلاً۔۔۔زہے نصیب"۔اس نے مجھے کندھے سے پکڑ کر پانچ سیڑھیاں نیچے اتارا اور ایک چھوٹے سے سیل کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ ،"یہ رہا تمہارا کمرہ ۔یہاں تم مزے سے سویا کرو گی "۔میں نے اس کی تاریکی اور وحشت سے گھبرا کر بے ساختہ کہا کہ ،"نہیں ،بخدا میں اس کے اندر نہیں جاوں گی "۔اسی اثنا میں مجھے قریبی سیل میں اپنی روم میٹ فاطمہ نظر آی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور سیل سے اپنی امی کی آواز سنای دی ۔انہوں نے شاید میری آواز سن لی تھی ،اسی لیے بلند آواز سے ان ظالموں کو برا بھلا کہنے لگیں کہ ،"ظالمو ان عورتوں پر تم اپنی طاقت آزما رہے ہو۔تم رحم سے نا آشنا ہو۔میں نے ساری عمر تمہارے بارے میں یہی سنا کہ تمہارے سینوں میں دل نہیں ہوتا لیکن اب تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے"۔مجھ میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گیی اور میں چھلانگ لگا کر یہ کہتے ہوے امی کی آواز کی طرف بھاگی کہ اللہ تمہیں برباد کرے۔ان کو کیوں لے آے ہو ۔میری بہنیں چھوٹی اور والد بیمار ہیں۔کوی اور ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں۔جواب میں حسین قہقہہ لگا کر بولا ،ہمیں تمہارے باپ اور بہن بھایوں سے کیا غرض ،ہمیں صرف تمہاری ماں مطلوب تھی۔پھر اس نے سب سیلوں کی کھڑکیاں بند کیں اور مجھ سے کہاکہ ،تم سیل کے اندرخود جاتی ہو یا میں یہاں موجود اہلکاروں سے کہوں کہ تمہیں اٹھا کر اندر پھینکیں۔میں نے کہا کہ ،یہ تو بالکل مرغیوں کا ڈربہ ہے اور اندر سخت اندھیرا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ تمسخرانہ انداز میں بولا ،"تم اندر جاو ۔تمہارے وجود سے سب تاریکی چھٹ جاے گی"۔سیل کے اندر ایک تھالی میں چاول اور دوسرے برتن میں پانی رکھا تھا۔وہ بولا کہ ،" یہ تمہارا ڈنر ہے ۔اگر دل مانے تو کھا لینا "۔اسی اثنا میں ایک بڑی عمر کا اہلکار وہاں آ گیا ۔اس نے بڑی نرمی سے مجھے کہا کہ بہن خدارا تم سیل کے اندر چلی جاو اور ان لوگوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقعہ نہ دو "میں فوراً سیل کے اندر چلی گیی۔کچھ دیر بعد ہی وہاں شرا ب کی بُو پھیل گیی کیونکہ وہ لوگ سال نو کا جشن منا رہے تھے ۔۔۔۔میں مسلسل ایک ہی جگہ بیٹھی ہوی تھی اور اس وحشت ناک تاریکی میں میرا دم گھٹ رہا تھا۔خاص طور پر مجھے اپنی روم میٹ ماجدہ کا رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کیونکہ میرے بعد ماجدہ کو ہی تفتیشی کمرے کی طرف لے جا یا گیا تھا ۔میں یہ سو چ کر کانپ رہی تھی کہ کیا اس گھڑی ماجدہ پر بھی تشدد کے وہی حربے آزماے جا رہے ہوں گے جو کچھ دیر پہلے مجھ پر آزماے گیے "۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں