۔۔۔"نصف شب گزر چکی تھی جب مجھے دوبارہ تفتیشی کمرہ میں لے جایا گیا جہاں راید ثلجہ نامی ایک افسر میرا منتظر تھا۔مجھے دیکھتے ہی بولا ،"تم اخوان کے ساتھ اپنے تعلق اور ان کے لیے کام کرنے کا اعترا ف نہیں کر رہی لیکن آج اللہ نے ایک ایسا شخص ہمارے پاس بھیج دیا ہے جس نے تمہارے سارے پول کھول دیے ہیں۔تمہاری سہیلی ماجدہ ہمیں بتا چکی ہے کہ اس نے خود تمہارے پاس اسلحہ دیکھا تھا۔"۔۔۔میں نے جواباً کہا کہ ،"آپ لوگ ماجدہ کو میرے سامنے لاییں تاکہ وہ یہی بات میرے منہ پر کہے "۔۔۔وہ بولا ،"ماجدہ جھوٹ نہیں کہہ رہی ،وہ تم سے زیادہ سچی ہے ۔تمہارا تو لیموں کی طرح پیلا پڑتا رنگ ہی تمہارے جھوٹا ہونے کی گواہی دے رہا ہے "۔۔۔۔میں نے کہا کہ ،"میں گزشتہ دو راتوں سے مسلسل جاگ رہی ہوں۔اس دوران میں نے کچھ کھایا نہ پیا ۔اور نہ ہی تم لوگوں نے مجھے بیت الخلا تک جانے کی اجازت دی ۔اس دوران مجھے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مجھے مارنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی گیی۔اس کے بعد بھی تم کہتے ہوکہ میرا رنگ پیلا کیوں ہو گیا ہے "۔۔۔۔اس نے میری با ت کا جواب دینے کی بجاے دربان کو بلا کر مجھے دوبارہ سیل میں بند کرنے کا حکم دیا ۔میں شدید خوف کے عالم میں سیل کے اندر سکڑ ی سمٹی بیٹھی تھی ۔میں نے اس ڈر سے کمبل بھی نہ کھولا کہ کہیں میری آنکھ نہ لگ جاے اور اگر اس دوران کوی اہلکار آگیا اور اس نے مجھے سویا پایا تو خفا ہو گا۔کچھ ہی دیر بعد اچانک باہرسے چیخنے چلانے ،ہانکنے اور بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں۔مجھے خیال آیا کہ کچھ اور مظلوموں کی نیی کھیپ آی ہے ۔اور واقعی ایسا ہی تھا۔چند لمحوں بعد ہی اہلکار چھ سات نوعمرلڑکوں کو دھکیلتے ہوے اندر لے آے ،جن کی عمریں بمشکل بارہ سے پندرہ برس تک تھیں۔ان سب کو کسی مسجد سے گرفتار کر کے لایا گیا اور جس سیل میں بند کیا گیا ،اس کا رقبہ میٹر ڈیڑھ میٹر سے زیادہ نہ تھا۔وہ سب سخت خوفزدہ تھے ۔ان میں سے ایک لڑکا بار بار بیت الخلا جانے کی درخواست کر رہا تھا لیکن اہلکار سال نو کی خوشی میں موج مستی میں مصروف تھے یا شاید جان بوجھ کر انہوں نے اس پر کوی توجہ نہ دی۔اس دوران وہ لڑکا چیختا چلاتا اور مدد کے لیے پکارتا رہا ۔اس نے یہاں تک کہا کہ میرے پیٹ میں شدید درد ہے ۔میں خود پر زیادہ دیر کنٹرول نہیں رکھ سکوں گا۔اہلکاروں پر اس چیخ و پکار کا محض اتنا اثر ہوا کہ ہر تھوڑی دیر بعد ایک اہلکار آتا ،سیل کی کھڑکی کھول کر اس لڑکے کو دو چار بید رسید کرتا اور یہ کہہ کر چلا جاتا کہ اوے اپنا حلق مت پھاڑو۔ایسے ہی مار کھاتے ہوے لڑکا اچانک خاموش ہو گیا اور پھر اس کے بعد سیل میں اس قدر بدبو پھیلی کہ دم گھٹنے لگا۔اس نیی صورتحال پر ایک اہلکار بکتا جھکتا اندر آیا اور اس لڑکے کو گھسیٹے ہوے سیل سے باہر نکال کر پاگلوں کی طرح مارنے لگا۔کچھ دیر کے شور شرابے کے بعد پھر خاموشی چھا گیی۔وہ رات مجھے پہاڑ جیسی طویل محسوس ہوی جو کاٹے نہیں کٹ رہی تھی۔ساری رات مجھے وسوسوں نے گھیرے رکھا کہ کیا خبر اب یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریںگے ۔مجھے کتنی بار گھسیٹ کر تفتیشی کمرے میں لے جایا جاے گا۔مجھ پر اور کتنا تشدد ہو گا ۔کیا وہ دوبارہ میرا لباس نوچیں گے ۔مجھے قتل کرنے سے پہلے کتنی اذیتیں دی جاییں گی ۔بس یہی سوچتے سوچتے فجر ہوگیی۔اسی دوران سیل کی دیوار دوسری طرف سے کسی نے ہولے سے بجای۔میں سمجھ گیی کہ دوسری طرف سے ماجدہ دیوار بجا کر مجھے فجر کا وقت ہونے کی خبر دے رہی تھی ۔لیکن میں اس قبر نما قید خانے میں وضو کہاں کرتی ۔سو تیمم کرکے نماز ادا کرنے کا سوچا لیکن قبلہ معلوم نہیں تھا ،اس لیے بادل نخواستہ کسی اہلکار کو بلانے کے لیے سیل کی کھڑکی بجای تو حسین نامی اہلکار آگیا۔قبلہ کے بارے میں میرے استفسار پراس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ "میں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ،اس لیے مجھے قبلے کے بارے میں علم نہیں۔لیکن یہاں آنے والے قیدی اسی رخ پر نماز پڑھتے ہیں۔"میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اسی دوران ایک اور اہلکار آن ٹپکا اور مجھے نماز میں مصروف دیکھ کر طنزیہ انداز میں کر بولا ،"اچھا تو اب نمازیں یاد آ گیی ہیں"تھوڑی دیر بعد وہی بوڑھا اہلکار ناشتہ لے کر آیا جس نے رات مجھے سیل کے اندر جانے کو کہا تھا ۔اس وقت ہر طرف سکوت طاری تھا کہ اس نے اچانک مجھے بتایا کہ یہاں لاے گیے سب لوگ رہا کردیے گیے ہیں۔صرف تم ،تمہاری امی اور ماجدہ باقی رہ گیی ہو ۔یہ سن کر میرا دل بھر آیا ،میں نے کہا کہ ہم نے ایسا کون سا جرم کیا ہے جو ہمیں رہا نہیں کیا گیا ۔وہ کہنے لگا ،میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔میں تو یہاں ادنیِ سا ملازم ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں بھوک لگی ہو گی ۔ناشتہ کر لو۔دیکھو میں اپنے ناشتے میں سے مکھن اور جام تمہارے لیے بچا کر لایا ہوں ۔۔۔۔۔۔لیکن اس نے ابھی جو خبر سنای ،اس کی وجہ سے میری بھوک تو کب کی اڑ چکی تھی ۔میں نے اس کا شکریہ اداکرتے ہوے ناشتے سے معذرت کرلی۔،اور پھر اگلے آٹھ دن اسی قید تنہای میں اور اسی پریشان حالی میں گزار دیے۔ کفر السوسہ نامی اس بدنام زمانہ جیل میں دن کا آغاز نماز فجر کے دو گھنٹے بعد ہوتا تھا ۔یہاں صبح کے وقت سب سے پہلے قیدیوں کو گالیاں دیتے ہوے اور کوڑے اور زنجیریں ان کی پیٹھ پر برساتے ہوے انہیں " الخط" لے جایا جاتا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں