Translate

جمعرات، 9 فروری، 2017

تذکرہ حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ

حضرت محبوب الہی علیہ الرحمہ کے سوانح نگار راجکمار ہردیو نے ایک روز حضرت بابا فرید گنج شکر علیہ الرحمہ کے نواسے خواجہ سید محمد صاحب سے حضرت محبوب الہی کے پیروں کے احوال بیان کرنے کی گزارش کی تو انہوں نے سب سے پہلے حضرت خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ کا تذکرہ فرماتے ہوے راجکمار ہر دیو کو بتایا کہ ،" ۔۔۔جب حضرت خواجہ صاحب پہلے پہل اجمیر تشریف لاے تو ہندو مسلم باشندے جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔یہ خبر جب اجمیر و دہلی کے حکمران راجہ پرتھوی راج تک پہنچی تو اس نے آپ کو علاقہ چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ۔آپ نے جواب میں فرمایا ،" ملک خدا کا ہے ۔اور خدا کابندہ اس ملک میں آیا ہے ۔بغیر حکم خدا یہاں سے نہیں جا سکتا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ پرتھوی راج کا ایک ملازم مسلمان بھی تھا ۔راجہ نے اسے مجبور کیا کہ وہ آپ کو یہاں سے ہٹا دے ۔ملازم نے تعمیل حکم سے انکار کیا تو پرتھوی نے اس پر ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیا ۔اس کی خبر جب خواجہ صاحب کو ہوی تو آپ نے راجہ کو کہلا بھیجا کہ ،"۔۔۔بے گناہ پر ظلم نہ کر ،ورنہ میں تجھے باندھ کر کسی دوسرے بادشاہ کے ہاتھ میں دے دوں گا "۔لیکن پرتھوی راج نے اس پیغام کی کچھ پرواہ نہ کی اور آپ کی شان میں گستاخانہ الفاظ زبان پر لایا ۔پھر یہ خبر مشہور ہوی کہ سلطان شہا ب الدین محمد غوری بہت بڑی فوج لے کر ہندوستان پر چڑھ آیا ہے ۔پرتھوی راج فوج لے کر مقابلے کے لیے روانہ ہوا ۔ہندوستان کے ڈیڑھ سو راجہ بھی اس کی مدد کو آے ۔تراوڑی ضلع کرنال کے میدان میں بڑی لڑای ہوی جس میں پرتھوی راج اور اس کے ساتھی راجے مارے گیے ۔۔۔۔۔۔۔حضرت خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ جب عراق میں تھے تو مولانا نجم الدین صغریِ سے ان کی دوستی ہو گیی۔جب خواجہ صاحب دلی تشریف لاے تو معلوم ہوا کہ مولانا اسی شہر میں ہیں اور بادشاہ نے انہیں شیخ الاسلام کا عہدہ دیا ہے ۔چنانچہ آپ مولانا نجم الدین سے ملنے کے لیے گیے۔وہ اس وقت اپنے مکان میں ایک چبوترہ بنوا رہے تھے ۔انہوں نے خواجہ صاحب سے بے رخی کا برتاو کیا۔یہ بات حضرت کو ناگوار گزری اور ان سے کہا ،"۔۔۔کیوں جناب ،کیا شیخ الاسلام بن جانے سے تمہارے اندر غرور پیدا ہو گیا ہے ؟"۔۔۔۔۔۔۔مولانا نجم الدین نے حضرت خواجہ صاحب کو جواب دیا ،"۔۔۔نہیں ،میں تو ویسا ہی نیاز مند ہوں۔مگر آپ کے ایک مرید نے میری شیخ الاسلامی کی شان کو بیکار کر دیا ہے۔سارا شہر ان ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے ۔مجھے کوی بھی نہیں پوچھتا۔اگر آپ اس مرید کو اپنے ساتھ اجمیر لے جاییں تو بہت عنایت ہو گی ۔"حضرت کو اس بات سے ہنسی آ گیی اور آپ نے فرمایا ،"اچھا مولانا ، میں اپنے بختیار کو اجمیر لے جاوں گا "۔۔۔۔جب خواجہ صاحب ،خواجہ قطب الدین بختیار کاکی صاحب کے گھر واپس آے تو فرمایا ،"۔۔۔بختیار ،یہ تو نے کیا کر رکھا ہے ۔سارا شہر تیری طرف متوجہ ہے اس سے لوگوں کو رشک و حسد ہوتا ہے ۔چل میرے ساتھ اجمیر چل ۔میں نہیں چاہتا کہ کسی ایک مسلمان کا دل بھی تیرے یہاں رہنے سے رنجیدہ ہو "۔۔چنانچہ دوسرے دن جب حضرت خواجہ غریب نواز دہلی سے اجمیر روانہ ہوے تو قطب صاحب بھی ساتھ تھے ۔یہ خبر دلی شہر میں مشہور ہوی تو سارے شہر کے ہزاروں لوگ دوڑے ہوے آے ۔بادشاہ وقت سلطان شمس الدین التمش بھی آیا ۔سب نے حضرت خواجہ غریب نواز سے عاجزانہ درخواست کی کہ قطب صاحب کو دلی چھوڑ جایے ورنہ ہم سب یہیں حضور کے قدموں میں بیٹھے رہیں گے ۔خلقت کی یہ عاجزی اور محبت دیکھی تو حضرت نے اپنے مرید و خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ سے فرمایا ،"۔۔۔بابا بختیار ،،،ایک دل کے مقابلے میں ہزاروں دلوں کی خواہش مقدم ہے ۔جاو ،تم واپس جاو اور دلی میں رہو "۔۔۔۔۔چنانچہ قطب صاحب اپنی قیام گاہ واپس آ گیے اور حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اجمیر تشریف لے گیے ۔"۔
{نظامی بنسری ۔۔۔۔۔۔تصنیف: راجکمار ہر دیو ۔۔۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ :خواجہ حسن نظامی ۔۔صفحہ 90تا93}

2 تبصرے:

  1. اللہ ان لوگوں کے درجات بلند فرمائے۔ کیا لوگ تھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. امین۔۔۔۔۔۔۔۔سر ہماری محفل میں تشریف آوری کا شکریہ۔۔۔امید ہے کہ آپ آیندہ بھی شفقت فرماتے رہیں گے ۔

    جواب دیںحذف کریں