Translate

بدھ، 8 فروری، 2017

بیس روپے کا آدھا نوٹ

اُس شام  جب ہم ایم فل کلاس  کے لیکچر اٹینڈ کرنے کے بعد یونیورسٹی سے باہر نکلے تو بادامی باغ لاری اڈے سے ہمارے آبای گاوں کی طرف جانے والی اس روز کی آخری گاڑی کے چھوٹنے میں صرف ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ویک اینڈ پر گھر جانے کا پروگرام پہلے سے طے تھا اور ہم نے مذ کورہ گاڑی میں اپنی سیٹ بھی ریزرو کرا رکھی تھی لیکن اب جب گھڑی پر نظر ڈالی تو وقت کی قلت نے پریشان کر دیا کیونکہ بظاہر وقت پر لاری اڈے پہنچنا مشکل دکھای دے رہا تھا ۔کیونکہ ہم نے پہلے اسلام پورہ اپنے ہاسٹل جانا تھا جو کہ ہم جیسے پھونک پھونک کر موٹرسایکل چلانے کے عادی شخص کے لیے جوہرٹاون سے کم از کم آدھ پون گھنٹے کا رستہ تھا ۔وہاں سے بادامی باغ لاری اڈے تک رکشے نے کم از کم 25 منٹ تو ضرور لینے تھے ۔اب ظاہر ہے کہ گاڑی ،ریل ،جہاز اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتے ۔خیر ہم بوجھل دل کے ساتھ ہاسٹل کی طرف روانہ ہوے ۔خوش قسمتی سے اتوار کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک قدرے کم تھی ،اس لیے ہم بھاگ بھاگم پہلے ہاسٹل اور پھر وہاں سے بادامی باغ کی طرف بڑھے ۔لاری اڈے کے مسافر خانےکے سامنے جب ہم رکشے سے اتر رہے تھے ،اس وقت گاڑی چھوٹنے  میں صرف پانچ منٹ باقی تھے ۔اسی اثنا میں ہمیں یاد آیا کہ ہمارے موبایل فون میں بیلنس کے نام پر ایک دھیلا بھی نہیں ہے ۔اگر دوران سفر کہیں رابطہ کرنے کی ضرورت پیش آی تو پھر  کیا ہو گا ،کیونکہ آج کل کسی سے فون مانگ کرکے کال کرنے کا زمانہ تو رہا نہیں ۔ڈیڑھ دو سال پہلے ہمیں اس سلسلے میں خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔اس رو زبھی ہم لاہور سے گھرہی جارہے تھے ،۔ہماری ساتھ والی سیٹ پر جہلم کے ایک صاحب تشریف فرما تھے ۔ہمیں یاد ہے کہ اس روز ہمارے فون کی بیٹری جواب دے گیی تھی ۔ہم نے ایک ضروری فون کرنے کے لیے اپنے ہم سفر دوست سے فون مانگا تو انہوں نے ہمیں فون دینے سے معذرت کرتے ہوے  ٹھنڈی آہ بھر کر جو داستان سنای ،وہ خاصی عبرتناک اور سبق آموز تھی ۔وہ بتانے لگے کہ میں جہلم میں درزی کا کام کرتا ہوں ۔ایک روز میں اپنی دکان پر بیٹھا حسب معمول کام میں مصروف تھا کہ ایک آدمی نے اچانک میری دکان کے سامنے موٹر سایکل روکی ۔اس کے ساتھ ایک خوبرو خاتون بھی تھی ،۔بظاہر وہ بڑے پریشان اور جلدی میں دکھای دے رہے تھے ۔وہ آدمی میری طرف بڑھا اور کہنے لگا کہ بھای صاحب ہمارے ایک عزیز کا ایکسڈینٹ ہو گیا ہے ،ہم میاں بیوی سخت پریشانی میں ہسپتال کی طرف جار ہے ہیں ۔ایک ضروری فون کرنا ہے ،ذرا اپنا موبایل فون تو دیجیے ۔میں نے جھٹ سے اپنا فون انہیں پکڑا دیا ۔انہوں نے دو منٹ کہیں بات کی اور فون مجھے واپس کر کے یہ جا وہ جا۔چند گھنٹوں بعد ہی پولیس میری دکان پر پہنچ گیی۔تب مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ آدمی اس عورت کو کہیں سے بھگا کر لایا تھا اورعورت کے ورثا مسلسل ان کا پیچھا کر رہے تھے ۔جبکہ پولیس انہیں فون پر بھی ٹریس کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔چونکہ اس کم بخت نے بھاگتے بھاگتے میرا موبایل فون بھی استعمال کیا تھا،اس لیے میں بھی پھنس گیا۔پولیس اور عورت کے ورثا میری کسی بات پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے ۔وہ بار بار مجھے بھی اس بھگوڑے جوڑے کا مددگار قرار دیتے تھے ۔سو اس چکر میں ،میں نے پولیس سے جوتے بھی کھاے ،انہیں اچھی خاصی رقم بھی کھلای اور چند مہینے جیل بھی کاٹی، اور آیندہ کے لیے کسی کو اپنا موبایل فون دینے سے توبہ کر لی ۔۔۔۔۔۔۔یہ واقعہ یا د آتے ہی ہم گاڑی کی طرف جانے کی بجاے سامنے موجود کال سینٹر میں گھس گیے اور سامنے کاونٹر پر کھانا کھانے میں مصروف آدمی سے ایک موبایل فون کارڈ مانگا اور جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔اسی اثنا میں کنڈیکٹر کا فون آگیا کہ گاڑی میں اب صرف ہمارا انتظار ہو رہا تھا ۔ہم نے کارڈ اور بقایا پیسے لینے کے لیے کاونٹر والے آدمی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوے کنڈیکٹر کو ایک منٹ رکنے کی درخواست کی کہ ساہنوں وی لے چل نال وے ،باو سوہنی گڈی والیا ۔ہمارا گمان ہے کہ کاونٹر والے شخص نے بھی ہماری جلدی کی کیفیت کو ضرور تاڑ لیا ہو گا ۔پیسے ہاتھ میں پکڑتے ہوے ایک بار ہمیں انہیں گننے کا خیال ضرور آیا لیکن پھر ہم یہ سوچ کر گاڑی کی طرف بڑھ گیے کہ دکاندار نے بقایا رقم پوری ہی دی گی ۔البتہ جب ہم دکان سے باہر نکل رہے تھے تو ایک دو بار ہمارے دل کی دھڑکن بے ترتیب ضرور ہوی لیکن ہم نے کوی خاص توجہ نہ دی ۔گاڑی میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد جب کرایہ دینے کے لیے جیب سے پیسے نکالےتو وہاں سو روپے کے تین نوٹ ہمارا منہ چڑا رہے تھے ۔سو روپے کا ایک نوٹ کم تھا ۔گویا اس دکاندار نے ہمیں چار سو روپے واپس کرنے کی بجاے تین سو روپے واپس کیے تھے ۔کاش ہم کاونٹر سے ہٹنے سے پہلے بقایا رقم گن لیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح اُس روز ہمارا سارا سفر اس دکاندار کو جلی کٹی سناتے گرزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تازہ واردات کا قصہ بھی سن لیجیے ۔۔۔۔۔۔۔۔گزشتہ روز گھرسے واپس آرہے تھے ۔دفتر پہنچنے کی جلدی تھی ،اس لیے سوچا کہ پہلے ہاسٹل جانے اور وہاں سے موٹرسایکل لے کر دفتر جانے کی بجاے کیوں نہ میٹرو بس پر سفر کرکے جلدی دفتر پہنچا جاے ۔چنانچہ قریبا پانچ بجے شام ہم نیازی چوک ،پُرانا بتی چوک ،اتر کر میٹر و سٹیشن کی طرف بڑھ گیے ۔ٹکٹ والے کیبن میں ایک پیاری سی لڑکی بیٹھی مسافروں سے پیسے وصول کرکے انہیں ٹوکن دے رہی تھی ۔ہم نے اسے پچاس روپے کا نوٹ دیا ۔اس نے ہمیں ٹوکن کے علاوہ ایک دس روپے اور ایک بیس روپے کا نوٹ کچھ اس طرح دیا کہ بیس روپے کا نوٹ دس روپے کے نوٹ کے اندر لپٹا ہوا تھا ۔اور خاتون ٹکٹ کلکٹر نے دونوں نوٹ ہمیں خاصے توڑ مروڑ کر پکڑاے تھے ۔ہم نے جلدی سے پیسے جیب میں ڈالے اور گاڑی کی طرف بڑھ گیے ۔رات اپنی دفتری مصروفیت سے فارغ ہو کر رکشہ پکڑا اور ہاسٹل کی طرف روانہ ہو گیے ۔منزل پر پہنچنے کے بعد جب ہم نے رکشے والے کو کرایہ دیا تو اس نے یہ کہہ کر بیس روپے کا ایک نوٹ ہماری طرف بڑھایا کہ صاحب یہ نوٹ آدھا ہے ۔تب عقدہ کھلا کہ لیجیے صاحب آج تو صنف نازک نے ہمیں چونا لگا دیا ۔کیونکہ ہماری جیب میں بیس کا نوٹ ایک وہی تھا جو ہمیں میٹرو سٹیشن سے بقاے کی صورت میں ملا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں وارداتوں میں ہم نے جلدبازی کی اور بقایا پیسے گننے کی زحمت تک نہ کی ۔سیانے سچ کہتے ہیں کہ جلدبازی کا کام شیطان کا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن میٹرو سٹیشن والی لڑکی کے بارے میں ہم ابھی تک نیک گمان ہی رکھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اس سے غلطی ہو گیی ہو ۔اگرچہ ہمارا دل اس پر مصر ہے کہ موصوفہ نے وہ غلطی سوچ سمجھ کر کی تھی ۔اب اس سے یار لوگ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم حسن زن سے حسن ظن رکھنے کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔واضح رہے کہ بیس روپے کا یہ آدھا نوٹ ہم نے اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آے۔

8 تبصرے:

  1. hahahha....aisay mauqay per mujhay Krishnakumar Kunnath ka gana "Tadap Tadap k iss dil say aah nikalti rahi" ka ek misra yad araha hay "Lut gaye hum teri muhabbat maien"...abb pata nahi muhabat maien ya jald bazi maien lutay hain ap...laikin قرائن yehi keh rahay k jald bazi main lutay haien ap

    جواب دیںحذف کریں
  2. ھم نے سو کے نوٹ پر اپنا نمبر لکھ کر لڑکی کو اس امید پر دیا کہ فون کرے گی ، اس نے فوراً کینٹین سے برگر لے کر نوٹ اسے دے دیا - اب کنٹین والے کے میسج آتے رہتے ہیں، برگر کیسا لگا - پھر کب آنا ہے ( ماخوذ

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی قریشی صاحب ،،،،،،کبھی کبھی لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری محفل میں تشریف آوری کا بے حد شکریہ ۔۔۔۔اب آتے جاتے رہیے گا ۔خوش رہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جوابات
    1. جي بالكل۔۔۔۔۔اس طرح تو هوتا هے اس طرح كے كاموں ميں

      حذف کریں