Translate
ہفتہ، 29 جولائی، 2017
جمعہ، 28 جولائی، 2017
جمعرات، 27 جولائی، 2017
بدھ، 26 جولائی، 2017
جمعہ، 21 جولائی، 2017
شاعری اور اصلاحِ شاعری
اردو ادب کا تابندہ ستارہ حضرت مشفق خواجہ علیہ الرحمتہ بلاشبہ پاکستان میں اردو ادب کی آبرو تھے ۔انہوں نے جہاں کئی ادبی تحقیقی منصوبوں پر کام کیا ،وہیں ہفت روزہ " تکبیر" میں وہ برسوں ادبی کالم بھی لکھتے رہے ۔وہ اپنا ادبی کالم "سخن در سخن " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خامہ بگوش کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے ۔اردو کا یہ مقبول ترین ادبی کالم اندرون و بیرون ملک بڑے شوق سے پڑھا بھی جاتا اور اردو اخبارات و جرائد میں بکثرت نقل بھی کیا جاتا ۔۔۔ایک روایت کے مطابق بڑے بڑے شاعر اور ادیب اپنے بارے میں کالم لکھوانے کے لئے خواجہ صاحب کو سفارشیں کرایا کرتے تھے ۔۔۔اور اپنے بارے میں خامہ بگوش کا لکھا ہوا تنقیدی کالم چٹخارے لے لے کر پڑھا کرتے تھے ۔خواجہ صاحب کے ان کالموں کے مجموعے "خامہ بگوش کے قلم سے "،"سخن در سخن " اور "سخن ہائے ناگفتنی "کے نام سے چھپ چکے ہیں۔شاعری کے بارے میں خواجہ صاحب کی تحریر کا مزہ لیجے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"تیسری دنیا کے بعض ممالک میں اتنی آسانی سے تو مارشل لا نہیں لگتا جتنی آسانی سے ہمارے ملک میں ہر تیسرا آدمی صاحبِ دیوان بن جاتا ہے ۔اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اچھے خاصے معقول لوگ بھی شاعری کرنے اور دیوان چھپوانے کی فکر میں ہیں۔شاعری کوئی زیادہ بُری چیز نہیں لیکن " جس کا کام اسی کو ساجھے " والا اصول پیش نظر رہنا چاہیے ۔اگر قتیل شفائی اور محسن بھوپالی جیسے لوگ شعر کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات فطری شاعر ہیں ،یعنی شعر کہنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے ۔لیکن جو لوگ اچھے خاصے معقول کام کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں ،انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ معقول کاموں کو چھوڑ کر شاعری کریں۔جب شاعری غالب جیسے بڑے شاعر کے لئے ذریعہ عزت نہیں تھی تو کسی اور کے لئے کیسے ہو سکتی ہے ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک مرتبہ کسی شاعر نے اپنی ایک غزل اصلاح کے لئے اپنے استاد کو دی ۔کچھ دنوں بعد شاگرد نے غز ل واپس مانگی تو استاد نے کہا کہ ،"میاں طبیعت پر زور دے کر شعر کہا کرو۔تمہاری غزل بڑی بے مزہ تھی ۔اصلاح کی گنجائش بالکل نہیں تھی ۔اس لئے میں نے پھاڑ کر پھینک دی "۔کچھ عرصے بعد استاد نے وہی غزل اپنے رسالے میں اپنے نام سے شائع کردی ۔شاگرد نے دیکھی تو شکوہ کیا کہ ،"استاد! آپ نے تو کہا تھا کہ غزل پھاڑ کر پھینک دی ،پھر یہ رسالے میں آپ کے نام سے کیسے چھپ گئی ۔"استاد نے فرمایا ،"میاں غلطی ہو گئی ۔جیب میں تمہاری غزل رکھی تھی اور میری بھی ۔اپنی غزل میں نے پھاڑ کر پھینک دی اور تمہاری غزل کاتب کے حوالے کر دی ۔آیندہ اصلاح کے لئے تم مجھے دو غزلیں دینا تاکہ ایک پھاڑ کر پھینک دوں تو دوسری اصلاح کے بعد تمہیں واپس کردوں "۔
جمعرات، 20 جولائی، 2017
ضرورت جیون ساتھی
فکر تونسوی ہندوستان کے مشہور مزاح نگار تھے ۔ان کی شگفتہ بیانی کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک عورت (بدستور کنواری )عمر بظاہر اٹھارہ سال ،بباطن پینتیس سال ،شباہت زنانہ ،وزن مردانہ ،ہنستی ہوں تو گولر کے پھول بکھیرتی ہوں۔روتی بالکل نہیں ،البتہ رلا دیتی ہوں۔،(آزمائش شرط ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرکیف سماج چونکہ ابھی سائنٹیفک نہیں ہوا ،ابھی راشن کارڈ میں ہی گرفتار ہے ۔اس لئے مجھے صرف ایک بچے کی ((سوشل )ماں بننے کے لئے ایک خاوند چاہیے ۔میں خود وکالت کا پیشہ کرتی ہوں۔اگر امیدوار بھی وکیل ہو تو بہتر رہے گا کیونکہ اس طرح ہم ایک دوسرے کا کچھ بگاڑ سکیں گے ۔بظاہر میں مرد سی لگتی ہوں ،اس لئے شادی بھی مردانہ وار کروں گی اور ازدواجی زندگی بھی مردانہ وار گزاروں گی ۔صرف وہی حضرات درخواست کریں جو میری طرح شادی کے خلاف ابھی تک کنوارے بیٹھے ہیں۔مگر اس کے باوجود ایک بچے کے باپ بننا چاہتے ہیں۔کیونکہ بنیادی چیز تو وہی بچہ ہے ۔ہم دونوں تو اس کے پنگھوڑے کا کام آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امید وار دولہا کی شکل جیسی بھی ہو ،منظور کر لی جائے گی ۔میرے یعنی بیٹی کے باپ کے پاس کافی دولت ہے ۔اس امر پر افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ سے کمائی گئی ہے ۔اس شاعری کی بدقسمتی سمجھئے یا میری کہ ایک بلیک مارکیٹ کے گھر میں شاعرہ پیدا ہو گئی ۔سچ بات ہے کہ نہ شادی کا کوئی اعتبار ہے نہ دولت کا ۔ہمیشہ غلط گھرانے کا رخ کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ڈبل ایم اے پاس نوجوان بے روزگار بھی ہے اور بے بیوی بھی ۔اس کے لئے کسی ایسی کنیا کی ضرورت ہے جس کا باپ اسے نوکری دلوا سکے ۔کیونکہ نوکری کے لئے جتنے دروازے اس نے کھٹکھٹائے ،دروازہ کھلنے پر لڑکی نکلی نوکری نہیں۔لڑکا شریف ،ذہین اور پُرکشش ہے ،میں چاہتا تو مارکیٹ میں اس کی بولی دے سکتا تھا کہ تازہ ترین رواج یہی ہے ۔میرا خیال ہے کہ شہر میں کئی کنواریاں اس کی گھوڑی اور سہرے کا انتظار کر رہی ہوں گی ۔مگر ان کے والدین نامعقول ہیں جو جہیز اور لڑکی تو دیتے ہیں ،نوکری نہیں۔میرا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ صرف اس لڑکی سے بیاہ کرئے گا جس کے باپ کی رسائی کرپٹ افسروں یا لیڈروں تک ہو ۔اور جو اسے نوکری دلوا سکے ۔۔۔نوکری پہلے ،لڑکی بعد میں۔منظور ہو تو جس اخبار میں آپ یہ اشتہار پڑھ رہے ہیں ،وہیں ٹیلی فون کر دیجئے ۔
بدھ، 19 جولائی، 2017
سکھا شاہی انصاف
ریاست بھرت پور کا حکمران مہاراجہ کیشن سنگھ ڈنر پارٹیوں ،شراب نوشی کی محفلوں اور خوش رو چہروں سے دل بہلانے کا بڑا شوقین تھا ۔ان مشاغل کے لیے مہاراجہ کے محل کا کانفرنس روم استعمال کیا جایا تھا۔کانفرنس روم میں اتنی بڑی میز رکھوائی گئی تھی کہ بیک وقت 100مہمان اس کے گرد بیٹھ سکتے تھے ۔مہاراجہ اپنی اکثر پارٹیاں اسی میز پر منعقد کیا کرتا تھا۔مہاراجہ نے اپنے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے بڑا "منفرد "طریقہ اختیار کیا ۔۔۔۔۔۔مہاراجہ کی طرف سے اس کے پرائیویٹ سیکرٹری کنور بھرت سنگھ کو ہدایت کی گئی کہ مہاراجہ کے فیصلوں کی منتظر تمام سرکاری فائلوں کو ہر اتوار کی صبح کانفرنس روم کی بڑی میز پر رکھ دیا کرئے تاکہ مہاراجہ انہیں ملاحظہ کرسکے ۔جب مہاراجہ ان فائلوں پر اپنے احکامات جاری کرچکے ،تو کنور بھرت سنگھ اگلی صبح وہ تمام فائلیں میز سے اٹھا لیا کرئے ۔چنانچہ مہاراجہ کے حکم پر اس کا پرائیویٹ سیکرٹری ہر اتوار کی صبح قتل کے مقدمات ،لاکھوں کروڑوں روپے کے دیوانی مقدمات ،حکمران خاندان سے متعلق اہم شخصی مقدمات ،حکومت ہند کے پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ اور اعلیٰ حکومتی افسران کی تعیناتی اور برطرفی کی فائلیں میز پر رکھ دیا کرتا ۔مہاراجہ اتوار کی رات کانفرنس روم میں آ جاتا ۔اس کی مہارانیاں اور دیگر منظور نظر خواتین بھی ہمراہ ہوتیں ۔مہاراجہ کئی گھنٹے ان خواتین کے ساتھ چہلیں کرتا اور اپنا دل بہلاتا ۔اس دوران وہ انتہائی تیز شرابیں پیتا ۔کانفرنس روم سے واپس جانے سے پہلے وہ اپنی سب سے پسندیدہ مہارانی کو حکم دیتا کہ وہ میز پر پڑی فائلوں کے دو ڈھیر بنا دے ۔مہاراجہ فائلوں کو دیکھے بغیر ایک ڈھیر والی فائلوں کی زبانی منظوری دے دیتا اور دوسرے ڈھیر کی فائلوں کو نامنظور کر دیتا۔اس دوران وہ کسی فائل کو کھول کر دیکھتا تک نہیں تھا۔اگلے دن اس کا سیکرٹری فائلوں پر فیصلے لکھتا اور لوگوں کو سنا دیتا۔دیوان جرمنی داس اپنی کتاب "مہاراجہ" میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس انصاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں بے گناہوں کو سزا ملی اور مجرم آزاد ہو گیے۔حکومت کے ریونیواور دیوانی مقدمات کا بھی یہی حشر ہوتا تھا ۔بعض مقدمات میں رقم لینے والوں کو الٹا رقم ادا کرنی پڑ جاتی تھی۔مہاراجہ کے اس اندازِ فراہمی انصاف نے عوام میں بے چینی پھیلا دی ۔چنانچہ وائسرائے کو حکمرانی کے مکمل اختیارات کے ساتھ ایک وزیر اعظم ریاست بھرت پور میں مقرر کرنا پڑا جس کے نتیجے میں مہاراجہ موصوف صرف نام کے حکمران رہ گئے ۔
اتوار، 16 جولائی، 2017
جمعہ، 14 جولائی، 2017
ذکر کچھ ایڈیٹر صاحبان کا ۔۔۔۔۔
ایڈیٹر " ریاست "دیوان سنگھ مفتون نے اپنی یادداشتوں میں کچھ ایڈیٹر صاحبان کا بھی بڑے شگفتہ انداز میں تذکرہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ بہت برس ہوئے میرٹھ سے ایک ہفتہ وار اردو اخبار " چنچل "جاری ہوا جو کبھی کبھی شائع کیا جاتا ۔"چنچل" کے ایڈیٹر صاحب کبھی کبھی ہمارے پاس "ریاست " کے دفتر بھی آیا کرتے ۔ایک روز آپ اپنے ایک دوست کے ہمراہ تشریف لائے ۔اور باتوں باتوں میں یہ ذکر ہوا کہ اگر " چنچل " کی بجائے اخبار کا کوئی اور ادبی یا سیاسی نام رکھ لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔میری اس بات کے جواب میں ایڈیٹر" چنچل "تو خاموش رہے لیکن ان کے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ،"دراصل بات یہ ہے کہ میرٹھ میں چنچل کماری نام کی ایک بہت خوبصورت پہاڑی طوائف رہتی ہے ۔چونکہ ایڈیٹر صاحب اس طوائف سے محبت کرتے ہیں ،لہٰذا صرف اس طوائف کو خوش کرنے کی خاطر جناب نے "چنچل " نام کا اخبار نکالا ہے ۔یہ سن کر میں بھی مسکرا دیا اور صرف اتنا کہا کہ ہاں انسان کو محبت کے لئے سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دہلی کی ایک تقریب میں وزیر اعظم پنڈت نہرو شریک تھے ۔ایک طرف فوٹو گرافر وزیر اعظم کی تصاویر لینے میں مصروف تھے اور دوسری طرف تقریب میں شریک ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ پنڈت جی کے قریب کھڑا ہو تاکہ پنڈت جی کے ساتھ اس کی تصویر بھی اخبارات میں شائع ہو سکے ۔۔۔۔دہلی کے ایک اردو ماہنامے کے ایڈیٹر صاحب بھی اس تقریب میں موجود تھے ۔پنڈت جی کی واپسی سے پہلے جب ان کے ساتھ شرکا کا گروپ فوٹو بننے لگا تو ایڈیٹر صاحب بھی گروپ میں جا کھڑے ہوئے ۔تصویر بن گئی اور پنڈت جی واپس چلے گئے ۔،ایڈیٹر صاحب نے ایک فوٹو گرافر سے کہہ کر اس گروپ فوٹو میں صرف اپنی اور پنڈت نہرو کی فوٹو کے علاوہ باقی لوگوں پر سیاہی لگوا دی تاکہ فوٹو میں صرف پنڈت نہرو اور ایڈیٹر صاحب ہی نظر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔سیاہی والا یہ فوٹو جب بلاک کی صورت میں ایڈیٹر صاحب کے رسالے میں شائع ہوا تو معاملہ پریس ایڈوائزر تک پہنچ گیاتاکہ ایڈیٹر صاحب پر جعلسازی کا مقدمہ چلایا جائے ۔لیکن مذکورہ ایڈیٹر صاحب صرف اس لئے بچ گئے کیونکہ سرکاری وکیل نے متعلقہ حکام کو رائے دی کہ اس تصویر کو بگاڑ کر شائع کرنا اگرچہ جعلسازی اور اخلاقی طور پر انتہائی شرمناک جرم ہے لیکن قانونی طور پر یہ جعلسازی قابل تعزیر نہیں ہے ۔۔۔لہٰذا ایڈیٹر صاحب کی کاریگری کا یہ معاملہ داخل دفتر کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ مرض موجودہ دور کا ہے لیکن دیوان سنگھ مفتون کے بیان کردہ یہ واقعات پڑھ کر اندازہ ہوا کہ آج سے 60،70 برس پہلے بھی یار لوگ معروف شخصیات کے ساتھ اپنی تصویر بنوانے اور اخبارات میں چھپوانے کے لئے ہلکان ہوئے جاتے تھے ۔۔۔آج بھی کچھ دوست ہر مشہور شخصیت کے ساتھ بنوائی گئی تصویریں جیب میں رکھتے ہیں اور اپنی تسکین طبع کے لئے انہیں گاہے گاہے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں ۔بعض حضرات کی تصویریں دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ غالب کی طرح انہوں نے بھی نوحہ گر کی بجائے کرایے کا فوٹو گرافر ہمہ وقت ساتھ رکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات، 13 جولائی، 2017
بدھ، 12 جولائی، 2017
منگل، 11 جولائی، 2017
نيرنگي سياست دوراں
"راقم الحروف كے ايك سكه دوست ذاتي طور پر بهت دلچسپ اور لطيفه گو آدمي هيں ۔آپ لدهيانه ميں رهتے هيں اور پنجاب اسمبلي كے ركن ره چكے هيں۔آپ جب اليكشن ميں اميدوار كهڑے هوئے تو اپنے حلقے ميں گئے ۔اليكشن ميں صرف تين روز باقي تهے اور آپ پروپيگنڈا اور اپنا اثرورسوخ استعمال كرنے ميں بے حد مصروف تهے ۔كوئي اپنے ووٹ كي قيمت دس روپے اور كوئي ايك سو روپے طلب كرتا ۔كوئي شراب كي ايك بوتل پر هي مطمئن تها اور كوئي چاهتا تها كه ووٹ كي قيمت كے طور پر اميدوار اس كے مقدمے كے حق ميں تحصيلدار يا مجسٹريٹ سے سفارش كرئے ۔ليكن اسي مهم كے دوران ايك ووٹر نے عجيب مطالبه كيا ۔اس ووٹر كا كهنا تها كه اگر اميدوار سردار صاحب گانے كي ايك محفل منعقد كريں جس ميں كسي طوائف كو بلوايا جائے اور گانے كے علاوه وهاں شراب كا دور بهي چلے تو اس ووٹر كے زير اثر پچاس سے زائد ووٹر سردار صاحب كو ووٹ ديں گے ۔چنانچه " قهر ووٹر برجان اميدوار " كے مصداق سردار صاحب نے اسي روز اپنا ايك نمائنده فيروز پوربهيج كر وهاں سے مجرا كرنے والي ايك طوائف ساٹه روپے نقد اور ريل كا كرايه دے كر منگوائي ۔شراب كي ايك درجن بوتليں بهي منگوائي گئيں اور ووٹر صاحبا ن كي خوب دعوت كي گئي جس سے ووٹر بهت خوش هوئے ۔ان حالات كو ديكهتے هوئے مذكوره اميدوار نے اپنے ايك دوست سے كها كه ،" يه كم بخت ووٹر اگلے تين روز ميں جو بهي مطالبه كريں ،ميں اسے ضرور پورا كروں گا كيونكه يه لوگ ووٹ دينے تك اپنے آپ كو ميرا داماد سمجهتے هوئے مجه سے هر طرح كے جائز وناجائز مطالبات كئے جا رهے هيں ۔ مگر ميں اگلے پانچ برس تك ان كا داماد بنا رهوں گا اور ان كے ووٹ كے طفيل زياده سے زياده ذاتي مفاد حاصل كروں گا ۔اور بعد ميں ايسا هي هوا ۔سردار صاحب نے پيسه او ر هرطرح كے جائز و ناجائز ذرائع استعمال كركے اليكشن جيت ليا اور ركن اسمبلي منتخب هونے كے بعد ڈنكے كي چوٹ پر ليڈري كا لطف اٹهايا "۔۔۔اب اليكشن ميں كانگرس كے عروج و زوال كا بهي ايك دلچسپ قصه سن ليجے ۔انگريز كے زمانے ميں ايك اليكشن هوا جس ميں سيالكوٹ كے ايك حلقے سے كانگرس كا ايك ايسا اميدوار كهڑا هوا جو نه صرف دنياوي لحاظ سے بلكه قابليت كے لحاظ سے بهي ايك معمولي آدمي تها جبكه اس كے مقابلے ميں ايك رائے بهادر تهے جو خانداني رئيس اور اعلي تعليم يافته تهے ۔رائے بهادر كے حاميوں كا ايك وفد ووٹ مانگنے جب ايك شخص كے پاس پهنچا تو وفد كے ايك ممبر نے ترغيب كے طور پر كها كه كانگريسي اميدوار كے مقابلے ميں رائے بهادر بهت لائق آدمي هيں۔جس پر اس ووٹر نے جواب ديا كه رائے بهادر چاهے جتنے بهي لائق هوں مگر وه كانگرسي نهيں هيں اور هم تو كانگرس كے اميدوار كو ووٹ ديں گے ۔خواه كانگرس كسي بازاري كتے كو كيوں نه كهڑا كر دے ۔ليكن پهر وه ووٹ بهي آيا كه تقسيم هند كے بعد سيالكوٹ كا وهي آباد پرانا قلعه دهلي كے قريب آكر آباد هوا ۔ايك اليكشن ميں جب كانگرس كے لوگ اس كے پاس ووٹ كے لئے گئے تو اس نے كها ،"كانگرس كو ووٹ نهيں دوں گا ،چاهے كسي بازاري كتے كو ووٹ دينا پڑے "
(سردار ديوان سنگه مفتونؔ كي كتاب " سيف و قلم "كا ايك ورق )
(سردار ديوان سنگه مفتونؔ كي كتاب " سيف و قلم "كا ايك ورق )
پیر، 10 جولائی، 2017
فصلی بٹیرے
وه 1956 كا سال تها اور ملك ميں سكندر مرزا سياه و سفيد كے مالك تهے ۔ پاكستان ميں محلاتي سازشيں اور جوڑ توڑ کی سياست اپنے عروج پر تهي ۔خان عبدالغفار خان كے بهائي ڈاكٹر خان صاحب بهي سياست ميں خاصے متحرك تهے ۔سكندرمرزا نے اقتدار پر اپني گرفت مزيد مضبوط كرنے كے لئے ايك نئي سياسي جماعت بنانے كا فيصله كيا ۔باهمي مشورے كے بعد گورنر مغربي پاكستان نواب مشتاق گورماني كي تجويز اور سكندر مرزا كي تائيد پر ڈاكٹر خان صاحب نے 23اپریل 1956 کو ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام ری پبلکن پارٹی رکھا گیا ۔اگلا مرحلہ اس نئی پارٹی کو صوبے میں اقتدار دلانے کا تھا ۔لیکن اس سلسلے میں مسلم لیگ رکاوٹ تھی جو اس وقت کی مغربی پاکستان اسمبلی میں واضح اکثریت رکھتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ معروف محقق جناب سید عقیل عباس جعفری اپنی شہر ہ آفاق تحقیقی کتاب " پاکستان کے سیاسی وڈیرے " میں لکھتے ہیں کہ سکندر مرزا ،نواب گورمانی اور ڈاکٹر خان صاحب نے مسلم لیگ کو سرعام چت کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس سلسلے میں مسلم لیگ اور ری پبلکن کے مابین پہلا معرکہ 20 مئی 1956 کو نئی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کے موقعہ پر ہوا ۔مسلم لیگ کے امیدوار میر غلام علی تالپور اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار چوہدری فضل الہیٰ تھے ۔جب مقابلہ ہوا تو ری پبلکن پارٹی نے دھونس ،دھاندلی اور جوڑ توڑ سے اپنا امید وار کامیاب کرا لیا جبکہ مسلم لیگ کے میر تالپور ہار گئے ۔مسلم لیگ نے اس دھونس دھاندلی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اگلے ہی روز ہائی کورٹ میں اس انتخاب کے خلاف انتخابی عذر داری دائر کر دی ۔مسلم لیگی رکن اسمبلی پیرزادہ عبد الستار اس کیس میں اپنی جماعت کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوئے ۔انہیں نے عدالت میں انتخابی عذر داری دائر کی ۔ہائی کورٹ سے نکل کر وہ سیدھے گورنر ہائوس پہنچے اور اور پھر یہ خبر بچی کچھی مسلم لیگ پر بجلی بن کر گری کہ سپیکر کے انتخاب کے خلاف انتخابی عذرداری میں ان کے وکیل اور رکن اسمبلی پیر زادہ عبدالستار نے ری پبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ میں وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سنبھال لیا ہے ۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب سکندر مرزا اور نواب گورمانی کے اشارہ ابرو پر پوری کی پوری اسمبلی راتوں رات ایڑی کے بل گھوم کر ری پبلکن پارٹی میں تبدیل ہو گئی تھی ۔فصلی بٹیروں کی طرف سے سیاسی چھتریاں بدلنے کے ایسے واقعات ہماری سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ہمیں یہ واقعہ آج صبح تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری صاحب کو ٹی وی چینلز پر چہچہاتے دیکھ کر یاد آیا ۔۔۔۔۔۔یادش بخیر ابھی چند سال پہلے ہی قبلہ چوہدری صاحب جنرل(ر)پرویز مشرف کے ترجمان ہوا کرتے تھے ۔گجرات کے چوہدری برادران کی محبت کا دم بھرا کرتے تھے ۔لیکن جیسے ہی پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو چوہدری صاحب نے چھتری تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائی ۔2012میں جب پہلی بار اخبارات میں فواد چوہدری کے پرویز مشرف کو خیرباد کہنے کی خبر چھپی تو اپنے چیف ایڈیٹر صاحب کے حکم پر ہم نے چوہدری صاحب کا انٹرویو کیا ۔ہمیں ان کے کہے ہوئے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں کہ "چونکہ پاکستانی سیاست میں اب پرویز مشرف کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آرہا ،اس لئے میں نے اب پیپلز پارٹی کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ 2013کا جنرل الیکشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین ہی ہو گا "اور پھر وہ پی پی کو پیارے ہو گئے ۔کچھ عرصہ پہلے انہوں نے عمران خان کی ترجمانی کی ڈیوٹی سنبھال لی ۔یقینی طور پر اب انہیں اگلے الیکشن میں تحریک انصاف بڑی پارٹی کی صورت میں نظر آرہی ہوگی کیونکہ پی پی کا تو پنجاب سے بوریا بستر اب گول ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ اگر اگلے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی اور عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو پھر چوہدری صاحب اپنے لیے کس نئی چھتری کا انتخاب کریں گے ۔
اتوار، 9 جولائی، 2017
بھرم
ایرانی بادشاہ نادر شاہ کو اس کی عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے مورخین ایشیا کا نپولین اور سکندر ثانی بھی کہتے ہیں۔خراسان کے ایک خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والے نادر شاہ نے محض اپنی دلیری ،بہادر ی اور عسکری صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایران کی بادشاہت حاصل کی ۔ایرانی بادشاہ طہماسپ دوم کی فوج میں ملازمت کے دوران جب نادر شاہ نے روس اور ترکی کے خلاف عسکری جوہر دکھائے تو اہل ایران نے انہیں اپنا نجات دہندہ خیال کرتے ہوئے تختِ ایران پر جلوہ افروز ہونے کی پیش کش کی.ثروت صولت نے اپنی کتاب "ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ "میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کی اس درخواست پر نادر شاہ نے ان کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ وہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے ،وہ ان کے ملک کی بادشاہت قبول نہیں کریں گے۔اہل ایران نے ان کا یہ مطالبہ قبول کیا جس کے بعد انہوں نے 1736میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ ایک روایت کے مطابق نادر شاہ ایک روز کسی مسجد میں نماز عصر کے لئے وضو کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک گیند انہیں آ کر لگی ۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی طرف گیند پھینکنے کی جرات کس نے کی ہے کہ اسی اثنا میں ایک نوعمر بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اپنی گیند اٹھا کر بھاگ گیا ۔بچے کی اس جرات پر نادر شاہ حیران رہ گیے کہ ایک چھوٹے سے بچے نے بھی بادشاہ کا خوف اپنے اندر محسوس نہیں کیا اور نہ بادشاہ سے معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔کہتے ہیں کہ اسی شام جہاں دیدہ نادر شاہ نے اپنے کسی قریبی ساتھی سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ "ایسے لگتا ہے کہ میرا وقتِ آخر آن پہنچا ہے ۔کیونکہ جب عوام کے دلوں سے حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ جاتا رہے تو پھر ان کا اقتدار زیادہ دیر باقی نہیں رہ رہتا ۔"۔۔۔۔روایت کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد ہی 1747 میں نادر شاہ کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات ان کے خیمے میں داخل ہو کر انہیں نیند کی حالت میں قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔ایک دوسری روایت کے مطابق کمیونسٹوں کے ہاتھوں روس کے آخری مطلق العنان زار نکولس دوم کی موت اگرچہ سرخ انقلاب کے ایک برس بعد ہوئی لیکن مورخین کہتے ہیں کہ زار کا انتقال دراصل اسی روز ہو گیا تھا جب انقلاب کا طبل بجتے ہی زار نے دیکھا کہ بدتمیز مزدور اور کسان شاہی محل میں زبردستی گھسنے کے بعد قالین پر کیچڑ بھرے جوتوں کے ساتھ چل رہے ہیں ۔فی الحال ہمیں ان دونوں روایتوں کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے کی بحث میں الجھنے کی بجائے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ان دونوں روایتوں کے اندر بلاشبہ عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو تین روز پہلے حویلی بہادر شاہ میں خطاب کرتے وزیر اعظم کا سُتا ہوا چہر ہ دیکھا جس پر پریشانی کی پرچھائیں صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ہفتے کی شام چار وفاقی وزیروں کا اکٹھے ہو کر دھواں دھار پریس کانفرنس کرنا بھی اس امر کی علامت تھی کہ کہیں اندرون خانہ آگ لگی ہوئی ہے جس کا دھواں اس پریس کانفرنس میں بھی اڑ رہا ہے ۔۔۔۔علاوہ ازیں ٹی وی ٹاک شوز میں سرشام سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے شریف فیملی کی تعریف اور حمایت میں رطب اللسان رہنے والے کچھ سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ایک دور روز سے بدلا بدلا سا لہجہ بھی یہ احساس دلا رہا ہے کہ شاید ان صحافتی پنڈتوں کو بھی ہوا کا رخ بدلنے کی خبر مل گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے لگتا ہے کہ نواز شریف ،شہباز شریف ،حسن ،حسین ،مریم اور اسحا ق ڈار کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد حکمران فیملی کے حاکمانہ دبدبے اور رعب کا بھرم کچھ ٹوٹ سا گیا ہے ،اس لیے نادر شاہ کے تجزیے کے مطابق نہ جانے کیوں ایسے لگ رہا ہے کہ اب جی کا ٹھہر گیا ہے ،صبح گیا یا شام گیا ۔۔۔۔۔
ہفتہ، 8 جولائی، 2017
طولِ شبِ فراق
روایت مشہور ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین احمد اور بانی خاکسار تحریک علامہ عنایت اللہ المشرقی ایک مجلس میں اکٹھے بیٹھے تھے ۔ علامہ صاحب کا علم ریاضی میں بڑا نام تھا ،دوسری طرف ڈاکٹر ضیاالدین احمد کو بھی اسی علم کا بڑا ماہر خیال کیا جاتا تھا ۔سو علامہ صاحب نے انہیں چھیڑتے ہوئے فرمایا،۔۔ارے پروفیسر صاحب !کئی روز سے ایک عجب مسئلے نے ہمیں الجھا رکھا ہے ۔چونکہ مسئلہ ریاضی کا ہے جس کے آپ بھی بڑے ماہر ہیں ،اس لئے ذرا رہنمائی تو فرمائیے ۔اتنا کہہ کر علامہ صاحب نے یہ شعر پڑھا ،
شہرہ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے
ڈاکٹر ضیاالدین احمد نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ،
طولِ شب ِ فراق جو ماپا گیا حضور
نکلا وہ زلف ِ یار سے دو چار ہاتھ کم
حسن اتفا ق سے رئیس المتغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی بھی اسی مجلس میں تشریف فرما تھے ۔انہوں نے دونوں بزرگوں کی اس ادبی بحث کو سنتے ہی اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ،
طول ِ شب ِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں پہلے زمیندار کالج گجرات کی لائبریری سے مستعارلی گئی ایک کتاب میں ہم نے یہ قصہ پڑھا تھا کہ مراد آباد میں ایک طرحی مشاعرے کا بڑا چرچا تھا ۔ہر سال وہ مشاعرہ ہوتا جس میں ایک مصرعہ دیا جاتا جس پر شعرا اپنے اپنے ذوق کے مطابق غزل کہتے ۔ایک سال اس مشاعرے کے لئے یہ مصرعہ دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ رہی ہے چمن سے بوئے کباب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بزرگ شاعر صبح کی سیر کرتے ہوئے دھیمی آواز میں مسلسل اس مصرعے کو دہرا رہے تھے لیکن دوسرا مصرعہ ان سے بن نہیں پا رہا تھا ۔باغ کی روش پہ چلتے چلتے انہوں نے ایک بار جب یہی مصرعہ ذرا بلند آواز میں دہرایا تو قریب سے گزرنے والے ایک نوعمر بچے نے جھٹ سے پلٹ کر کہا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کسی بلبل کا دل جلا ہو گا ۔۔۔۔۔۔لیجے شعر مکمل ہو گیا۔بزرگ شاعر نے بھاگ کے بچے کو جا پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور نام پوچھا تو اس نے بتایا ،" علی سکندر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی علی سکندر نے بعد ازاں جگر مرادآبادی کے نام سے شاعری کی دنیا پر راج کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ جگرؔ اپنی ابتدائی زندگی میں شراب بہت پیتے تھے ۔اسی لئے جب ایک نعتیہ مشاعرہ میں انہیں بھی نعت پڑھنےکی دعوت دی گئی تو کچھ لوگوں نے اس پر بڑی ناک بھوں چڑھائی کہ دیکھو میاں،وہ شرابی بھلا کیا نعت پڑھے گا ۔دوسری طرف جگر کے لئے بھی امتحان تھا کہ انہیں اپنی رندی کا بھی احسا س تھا اور یہ بھی خبر تھی کہ انہیں کس بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،اس لئے وہ کانپ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاجاتا ہے کہ اس مشاعرے کے لئے انہوں نے جو نعت لکھی ،اس نے بھی ان کی زندگی میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔راوی کے مطابق وہ نعت مندرجہ ذیل تھی ،
ایک رند ہے اور مدحت ِ سلطان مدینہ
بس ایک نظر ِ رحمت سلطان مدینہ
اے خاک مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطان مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظر دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم ،یاد خدا اور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امتِ عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِ سلطان مدینہ
شہرہ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے
ڈاکٹر ضیاالدین احمد نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ،
طولِ شب ِ فراق جو ماپا گیا حضور
نکلا وہ زلف ِ یار سے دو چار ہاتھ کم
حسن اتفا ق سے رئیس المتغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی بھی اسی مجلس میں تشریف فرما تھے ۔انہوں نے دونوں بزرگوں کی اس ادبی بحث کو سنتے ہی اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ،
طول ِ شب ِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں پہلے زمیندار کالج گجرات کی لائبریری سے مستعارلی گئی ایک کتاب میں ہم نے یہ قصہ پڑھا تھا کہ مراد آباد میں ایک طرحی مشاعرے کا بڑا چرچا تھا ۔ہر سال وہ مشاعرہ ہوتا جس میں ایک مصرعہ دیا جاتا جس پر شعرا اپنے اپنے ذوق کے مطابق غزل کہتے ۔ایک سال اس مشاعرے کے لئے یہ مصرعہ دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ رہی ہے چمن سے بوئے کباب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بزرگ شاعر صبح کی سیر کرتے ہوئے دھیمی آواز میں مسلسل اس مصرعے کو دہرا رہے تھے لیکن دوسرا مصرعہ ان سے بن نہیں پا رہا تھا ۔باغ کی روش پہ چلتے چلتے انہوں نے ایک بار جب یہی مصرعہ ذرا بلند آواز میں دہرایا تو قریب سے گزرنے والے ایک نوعمر بچے نے جھٹ سے پلٹ کر کہا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کسی بلبل کا دل جلا ہو گا ۔۔۔۔۔۔لیجے شعر مکمل ہو گیا۔بزرگ شاعر نے بھاگ کے بچے کو جا پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور نام پوچھا تو اس نے بتایا ،" علی سکندر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی علی سکندر نے بعد ازاں جگر مرادآبادی کے نام سے شاعری کی دنیا پر راج کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ جگرؔ اپنی ابتدائی زندگی میں شراب بہت پیتے تھے ۔اسی لئے جب ایک نعتیہ مشاعرہ میں انہیں بھی نعت پڑھنےکی دعوت دی گئی تو کچھ لوگوں نے اس پر بڑی ناک بھوں چڑھائی کہ دیکھو میاں،وہ شرابی بھلا کیا نعت پڑھے گا ۔دوسری طرف جگر کے لئے بھی امتحان تھا کہ انہیں اپنی رندی کا بھی احسا س تھا اور یہ بھی خبر تھی کہ انہیں کس بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،اس لئے وہ کانپ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاجاتا ہے کہ اس مشاعرے کے لئے انہوں نے جو نعت لکھی ،اس نے بھی ان کی زندگی میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔راوی کے مطابق وہ نعت مندرجہ ذیل تھی ،
ایک رند ہے اور مدحت ِ سلطان مدینہ
بس ایک نظر ِ رحمت سلطان مدینہ
اے خاک مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطان مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظر دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم ،یاد خدا اور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امتِ عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِ سلطان مدینہ
جمعہ، 7 جولائی، 2017
Very Clever ,Cunning And Faithful Dog
ایک سنیئر تجزیہ کار کا یہ خیال ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں ان کے نشانے کی تعریفیں کرنے والے اور اس کو عزت و احترام کے ساتھ امریکہ بھیجنے کا بندوبست کرنے والے حکام کی پھرتیوں کی تفصیلات پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہر بندہ تین پاکستانیوں کے قاتل اس امریکی جاسوس سے تفتیش کرنے کی بجائے اپنا گرین گارڈ پکا کرنے ،ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں نوکری حاصل کرنے یا پھر اپنے بچوں کے لئے کسی امریکی یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی اپنے ان دیسی "خدام""کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گورے حاکم نے کم و بیش سو برس تک ہم پر حکومت کی ۔اس دوران انہوں نے اپنے اور مقامی لوگوں کے مابین ایک فاصلہ برقرار رکھا۔حتیٰ کہ برصغیر میں گورے حاکم کے اقتدار کو مضبوط کرنے والا دیسی جاگیردارطبقہ بھی جب 31دسمبر کی شب ہیپی نیو ایئر کی مبارک دینے اپنے اپنے ضلع کے گورے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر حاضر ہوتا تو صاحب بہادر انہیں شرف دیدار بخشنے کی بجائے نوکر کے ذریعے کہلوا دیتا کہ صاحب تک ان کا سلام پہنچ گیا ہے ۔برصغیر کے ممتاز اخبار نویس سردار دیوان سنگھ مفتون اپنی یادداشتوں کے مجموعے "سیف و قلم " میں لکھتے ہیں کہ انگریز کو ہم ہندوستانیوں سے صرف اتنا سا تعلق ہے کہ جب اسے ہماری ضرورت ہو تو وہ ہمیں اپنے قریب بلاتا ہے اور کام نکل جانے کے بعد وہ ہمیں اپنے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔اپنے اس دعوے کے حق میں انہوں نے بطور دلیل ایک "عبرتناک "واقعہ بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مرحوم قاضی عزیز الدین احمد تقسیم ہند سے قبل کی ان ہندوستانی شخصیات میں سے تھے جنہیں گورے حاکم اور ہندوستانی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کی خاصی قربت حاصل تھی ۔قاضی صاحب سیلف میڈ آدمی تھے ۔انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز نائب تحصیلدار کی حیثیت سے کیا ۔بے حد محنتی ،وضعدار،اصول پسند اور قابل آدمی تھے۔سرکاری ملازمت میں ترقی کرتے کرتے پہلے تحصیلدار اور پھر ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ریاست دھولپور اور ریاست دتیا کے وزیر اعظم بھی رہے ۔نظام دکن ،نواب آف بہاولپور ،مہاراجہ پٹیالہ اور مہاراجہ بیکانیر سمیت متعدد والیان ریاست کی خواہش تھی کہ قاضی صاحب ان کے ساتھ بطور وزیر اعظم کام کریں۔لیکن قاضی صاحب نے ان والیان ریاست سے معذرت کرلی کیونکہ ان والیان کے ساتھ ان کے گہرے ذاتی دوستانہ تعلقات تھے اور دوستوں کے ہاں ملازمت کرنے کو وہ اصولاً نامناسب خیال کرتے تھے ۔مفتونؔ کے بقول ،"قاضی صاحب بے حد مخلص ،ایماندار ،انگریزوں کے خیر خواہ اور دلداہ تھے ۔میں نے اپنی زندگی میں ہندوستانیوں میں سے کوئی ایسا دوسرا شخص نہیں دیکھا جو قاضی صاحب سے زیادہ انگریزوں کا مخلص اور بے ریا دوست ہو ۔"لیکن گورا حاکم قاضی صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتا تھا ،اس سلسلے میں انہوں نے خود ایک واقعہ مفتونؔ کو سنایا ۔۔۔۔۔۔قاضی سر عزیز الدین احمد مراد آباد میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے ۔ان کا انگریز کلکٹر انڈین سول سروس کا ممبر تھا۔مراد آباد کی پوسٹنگ کے دوران ہی جب انگریز کلکٹر تین ماہ کی رخصت پر لندن گیا تو قاضی صاحب کو اس کی جگہ تین ماہ کے لیے قائم مقام کلکٹر مقرر کیا گیا۔انگریز کلکٹر نے رخصت پر جانے سے پہلے قاضی صاحب کو کلکٹر آفس کا چارج دیتے ہوئے اپنی کوٹھی کی اس آہنی الماری کی چابیاں بھی دیں جس میں افسران کی سروس بکس رکھی ہوئی تھیں۔قاضی صاحب کو کلکٹری کا چارج لئے قریباً ایک ماہ ہو چکا تھا کہ ایک روز بیٹھے بیٹھائے انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنی سروس بک بھی دیکھیں کہ ان کے بارے میں ان کے سیئر انگریز افسران گاہے گاہے کیا ریمارکس لکھتے رہے ہیں۔قاضی صاحب نے اس کانفیڈینشل الماری کو کھولا اور اس میں سے اپنی سروس بک نکال کر پڑھنے لگے ۔بعض انگریز کلکٹر اورکمشنر صاحبان نے اپنے ریمارکس میں انہیں بے حد شریف ،ایماندار ،انگریزوں کے انتہائی مخلص اور وفاشعار قرار دیا ۔لیکن ایک انگریز کلکٹر نے قاضی صاحب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ،،،،،،،،،
"very clever ,cunning and faithful dog"
(بہت چالاک ،ہوشیار اوروفادار کتا)
مفتونؔ کے بقول اپنے بارے میں انگریز کلکٹر کے یہ ریمارکس پڑھ کر قاضی سر عزیز الدین احمد ہکا بکا رہ گیے کہ گورے حاکم کے ساتھ ان کی محبت اور وفاشعاری کا صلہ انہیں کن الفاظ کے ساتھ دیا گیا۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کو سزا دلوانے کی بجائے اسے عزت و احترام سے امریکہ بھجینے والے قاضیوں کو خبر ہو کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اور خیالات تبدیل نہیں ہوتے ۔
"very clever ,cunning and faithful dog"
(بہت چالاک ،ہوشیار اوروفادار کتا)
مفتونؔ کے بقول اپنے بارے میں انگریز کلکٹر کے یہ ریمارکس پڑھ کر قاضی سر عزیز الدین احمد ہکا بکا رہ گیے کہ گورے حاکم کے ساتھ ان کی محبت اور وفاشعاری کا صلہ انہیں کن الفاظ کے ساتھ دیا گیا۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کو سزا دلوانے کی بجائے اسے عزت و احترام سے امریکہ بھجینے والے قاضیوں کو خبر ہو کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اور خیالات تبدیل نہیں ہوتے ۔
ممبئي ميں حقه
شاعر مشرق علامه محمد اقبال ؒ كا حقه بهي بهت مشهور تها۔1931ميں جب وه ممبئي كے دورے پر تشريف لے گئے تو روانگي سے قبل انهوں نے اپني آمد كي اطلاع دينے كے لئے خلافت كميٹي كے مقامي ذمه داران كو ايك تار ارسال كيا جس ميں بتايا گيا كه علامه صاحب اگلي صبح ممبئي تشريف لا رهے هيں۔تار موصول هوتے هي خلافت كميٹي كے صدر دفتر خلافت هائوس ممبئي ميں خوشي كي لهر دوڑ گئي ۔دلچسپ بات يه هے كه علامه صاحب نے تار ميں اپنے ميزبانوں كو اپني آمد كي اطلاع دينے كے علاوه حقه تيار ركهنے كي هدايت بهي فرمائي تهي۔اب مسئله يه تها كه علامه صاحب حقے كے بے حد شوقين اور خلافت كميٹي ممبئي كے مقامي رهنما حقے سے ناآشنا۔سو حقے كي دستيابي خلافت كميٹي والوں كے ليے اچها خاصا مسئله بن گئي ۔خير علامه صاحب كي تشريف آوري سے پهلے هي حقے كي تلاش شروع هو گئي ۔ايك جهونپڑي والے سے منت سماجت كركے چلم حاصل كي گئي ۔بڑي خوشامد كے بعد ايك هوٹل والے سے حقے كي نَے اور نيچه ليا گيا۔ايك صاحب نے تمباكو فراهم كر ديا ۔الغرض علامه كي آمد سے قبل خلافت هائوس والوں نے حقے كے تمام اجزائے تركيبي اِدهر اُدهر سےاكٹهےكركے حقه تيار كر هي ليا ۔علامه تشريف لائے تو جهٹ سے حقه ان كي خدمت ميں پيش كيا گيا ۔انهوں نے حقے كي نَے هاته ميں لي ،درمياني حصے كو چهوا تو فرمايا كه ،ارے آپ لوگوں نے حقه تازه تو كيا هي نهيں۔بے چارے خلافت هائوس والوں كے هاته پير پهول گئے كه كيا حقه تازه بهي هوتا هے ۔اسي اثنا ميں حاضرين ميں سے كسي نے حقه اٹهايا اور "تازه" كرنے كے لئے صحن ميں لگے نل كے نيچے ركه ديا ۔پاني پڑتے هي چلم ميں سے شعله بهڑكا ،آگ بجهي اور تمباكو سميت راكه بهه گئي ۔علامه صاحب معاملے كو سمجه گئے ۔تهوڑي دير بعد خود نل پر تشريف لائے ۔ميزبانوں كو حقه تازه كرنے كے چكر ميں چلم ،تمباكو اور آگ سے الجهے ديكها تو بهت هنسے اور فرمايا كه ،معلوم هوتا هے كه آپ ميں سے كسي كو حقه بهرنے كي تميز اور اس كي لطافت كا ذوق نهيں هے ۔يه تو بڑي كمي هے ،جبهي تو يك ناله مستانه ز جائے نه شنيدم ۔۔۔۔۔۔ايك ناله مستانه هے كه كسي طرف سنائي نه ديا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔1931ميں شاعر مشرق كي خلافت هائوس ممبئي ميں يه تشريف آوري اور حقه تازه كرنے كا يه قصه خلافت هائوس والوں كومدتوں ياد رها ۔
(ڈاكٹر نديم شفيق ملك كي كتاب " علامه اقبال كي تابنده ياديں " كا ايك ورق )
(ڈاكٹر نديم شفيق ملك كي كتاب " علامه اقبال كي تابنده ياديں " كا ايك ورق )
جمعرات، 6 جولائی، 2017
دو متضاد رویے
جب سے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی خود نوشت منظر عام پر آئی ہے ،ہمیں ڈاڑھی اور پگڑی والا وہ خوبصورت شخص بہت یاد آ رہا ہے جسے دنیا ملا عبد السلام ضعیف کے نام سے جانتی ہے ۔اس افغان حکومت کا سفارتکار جسے 1947 کے بعد کابل میں بننے والی پہلی پاکستان دوست حکومت کہا جاتا ہے ۔ایک ایسی حکومت جس کا قلندر صفت حکمران اپنے ساتھیوں کو یہ تاکید کیا کرتا تھا کہ اگر کبھی پاکستان اور افغانستان پر بیک وقت کڑا وقت آجائے تو تم لوگ افغانستان کی فکر چھوڑ دینا اور پاکستان کے دفاع کے لئے لڑنا کہ وہ ہمارا استاد گھرانہ ہے ۔ایک ایسی حکومت جس کے چھ سالہ دور میں حکومت پاکستان کو پاک افغان بارڈر پر نگرانی کے لئے اپنی فورس کھڑی کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ایک ایسی حکومت جس نے افغانستان کو اسلحے ،پوست اور جرائم سے پاک کرنے کا خواب سچ کر دکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک ایسی حکومت جس کو صرف اس لئے ختم کیا گیا کہ اس کے حاکم کا یہ جرم تھا کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔نائن الیون اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب ہوا ئوں کا رخ بدلا ،پرویز مشرف کی طرف سے قوم کو"سب سے پہلے پاکستان"کا چورن دیا گیا ،تو اس وقت پاکستان دوست افغان حکومت کے عزت مآب سفیر محترم ملا عبد السلام ضعیف کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ،اس کی تفصیل ان کی خودنوشت میں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتاہے ۔۔۔۔۔۔۔سفارتکاروں کو ہر دور میں احترام حاصل رہا ہے ۔کسی ملک کی طرف سے سفارتکاروں کے ساتھ کی گئی بدسلوکی پر جنگیں چھڑ جایا کرتی تھیں۔لیکن پرویز مشرف کے عہد سیاہ میں افغان سفیر کو اپنے ہاتھوں امریکیوں کے حوالے کیا گیا ۔امریکی اہلکاروں نے پاکستانی افسران کے سامنے ملاصاحب کو برہنہ کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت "مائی لائف وِد دی طالبان" میں کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسری طرف ایک امریکی جاسوس پلس ٹھیکیدار ہے جس نے دن دیہاڑے لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر فائرنگ کرکے دو پاکستانی نوجوانوں کو قتل کر ڈالا ۔اس کو بچانے کے لئے آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے ایک تیسرے پاکستانی کو بھی کچل ڈالا ۔لیکن وہ امریکی جاسوس عزت و احترام کے ساتھ اپنے ملک واپس چلا گیا ۔اسے سزا دینے کی بجائے پاکستانی افسران اس کے بہترین نشانے کی تعریفیں کرتے رہے ۔اس کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجتے ہوئے پاکستانی ارباب بست و کشاد میں سے کسی کی بھی رگ حمیت نہ پھڑکی ۔حکمران طاقتوں کا یہ وہ متضاد رویہ ہےجو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اگرچہ 1947میں ہم نے جسمانی طور پر گورے حاکم سے آزادی حاصل کر لی لیکن ذہنی طورپر آج بھی ہم اسی کے غلام ہیں۔ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے کئی مقدس چہروں پر پڑے ہوئے نقاب نوچ ڈالے ہیں۔اب خواہ کسی کی طرف سے اس کی کوئی بھی تاویل پیش کی جائے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ہم نے پاکستان دوست ملاعبد السلام ضعیف کو تو ہتھکڑیاں لگا کر امریکیوں کے حوالے کر دیا اور پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا ۔۔۔۔۔۔دیکھنا ! کہیں آنے والے دنوں میں شکیل آفریدی اور کلبھوشن یادو کو بھی اسی طرح عزت و احترام کے ساتھ دہلی اور واشنگٹن روانہ نہ کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا نچوڑ یہی ہے کہ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس
تاریخی و فکری بددیانتی
ہر سال پانچ جولائی آتے ہی ہمارے لبرلر اور سیکولر حلقے "یوم سیاہ "کا نعرہ لگا کر شہید جنرل ضیاالحق پر تبرا بازی شروع کردیتے ہیں۔دہائی یہ دی جاتی ہے کہ جنرل نے ایک منتخب حکومت پر شب خون مار کر بدترین آمریت کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کے ساتھ ہی جنرل ضیا کے "شخصی اوصاف "کا طنزیہ انداز میں تذکرہ شروع ہو جاتا ہے ۔کوئی انہیں چاپلوس اورخوشامدی کہتا ہے ۔کوئی محسن کش کے لقب سے نوازتا ہے ۔کسی کو وہ چنگیز اور ہلاکو سے بھی بڑے ظالم نظر آتے ہیں۔کوئی انہیں جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن قراردیتا ہے ۔بعض بزرجمہر انہیں ملک میں جاری دہشت گردی کا بانی کہتے نہیں تھکتے۔۔.....لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ضیا کو ملاحیاں سنانے والے یہ نام نہاد دانشور دراصل تاریخی و فکری بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہ لوگ چاپلوسی ،محسن کشی ،ظلم و تشدد اور جمہوریت دشمنی کی تاریخ جنرل ضیا سے شروع کرتے ہیں۔حالانکہ وطن عزیز میں چاپلوسی ،محسن کشی ،ظلم و تشدد اور جمہوریت دشمنی کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں جمہوریت پر شب خون صرف جنرل ضیا نے ہی مارا تھا۔ملکی تاریخ ہمیں اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے ۔یہاں جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف نے بھی جمہوریت کی بساط لپیٹی تھی ۔جنرل یحیحیٰ بھی مارشل لا حکمران رہے ۔لیکن ہمارے لبرل دانشوروں کی سار ی تان جنرل ضیا پر ہی آن کر ٹوٹتی ہے ۔۔۔۔آخر کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دانشور دیگر طالع آزمائوں سے صرف نظر کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔کیا صرف اس لیے کہ جنرل ضیا اسلام پسند آدمی تھے ۔دین سے محبت رکھتے تھے ۔اس لیے ان کا نام آج تک سیکولر و لبرل حلقوں کو چھبتا ہے ۔جہاں تک چاپلوسی و خوشامد کا تعلق ہے تو ہم دور کیوں جائیں ،اپنے بھٹو صاحب کی ہی مثال لے لیجئے ۔انہوں نے میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا کی انگلی پکڑ کر ایوان ہائے اقتدار کی غلام گردشوں میں قدم رکھا ۔اور پھر خوشامد اور چاپلوسی کے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ سکندر مرزا کے نام اپنے ایک خط میں انہیں قائد اعظم سے بھی بڑا لیڈر قرار دے دیا لیکن جیسے ہی جنرل ایوب نے ڈنڈے کے زور پر سکندرمرزا اور ان کی بیگم ناہید مرزا کو لندن کی راہ دکھائی تو بھٹو نے بھی سکندر مرزا کی طرف سے آنکھیں پھیرنے میں دیر نہ لگائی کیونکہ اب ان کے "ڈیڈی " جنرل ایو ب تھے ۔ایوب کے مارشلائی دور میں انہوں نے کئی وزارتوں کو انجوائے کیا۔بعد میں خود بھی موصوف سول مارشل ایڈمنسٹریٹر رہے لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی جمہوریت کے خادم اور چیمپئین ہیں۔اور اس سے بڑی محسن کشی اور کیا ہوگی کہ جب جنرل ایوب پر مشکل وقت آیا تو انہی بھٹو صاحب نے معاہدہ تاشقند کا پاکھنڈ رچا کر ان کی کمر میں چھرا گھونپنے میں دیر نہ لگائی ۔کیا جنرل ضیا کو صبح و شام گالیاں بکنے والے نام نہاد دانشور بھٹو صاحب کی محسن کشی کی اس تاریخ کو پڑھنا پسند کریں گے ۔۔۔۔۔۔اب ذرا آگے چلیے ۔۔۔۔۔آپ دلائی کیمپ کو بھی چھوڑ دیجیے ۔۔۔۔۔بھٹو صاحب اپنے دور میں اپوزیشن کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے ،اس کا ذکر بھی جانے دیجئے ۔ان کی فیڈرل سکیورٹی فورس بھٹو کے مخالفین کی "منجی پیڑھی " ٹھوکنے کے لیے کیا کیا سفاکانہ حربے اختیار کرتی تھی ۔۔۔۔۔اس موضو ع کو بھی کسی اگلی نشست کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش یہ دانشور صرف اتنا ہی بتا دیں کہ بھٹو صاحب اپنی پارٹی کے اندر اختلاف رائےکی جرات کرنے والے اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کرتے تھے ۔جے رحیم ۔معراج محمد خان ،اور دیگر کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔کہ معراج محمد خان جب جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے اپنے سابق قائد بھٹو کو "میکاولی کی بدروح" قرار دیا تھا ۔جنرل ضیا کے کوڑوں پر آنسو بہانے والے قوم کو یہ بتاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں کہ بھٹو دور میں دائیں بازو کے صحافیوں ،اخبارات و جرائد کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو ہمارے یہ فکری طور پر بانجھ دانشور منہ دھو رکھیں ۔افغانستان میں مداخلت بھٹو کا فیصلہ تھا ۔جب افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت بڑھنے لگی تو کچھ افغان رہنما پاکستان چلے آئے تو بھٹو نے ان سے ملاقات کے بعد اس وقت کے ڈی جی ایف سی جنرل نصیر اللہ بابر اور کرنل امام کو ہدایت کی تھی کہ انہیں چراٹ سینٹر میں عسکری تربیت دی جائے ۔،،۔۔۔۔واضح رہے کہ یہ تربیت لینے والے کوئی عام افغان خانہ بدوش نہیں بلکہ احمد شاہ مسعود ،حکمتیار اور ربانی جیسے بڑے لوگ تھے ۔واضح رہے کہ یہ بات کرنل امام نے ہمیں نومبر 2009میں ایک انٹرویو کے دوران خود بتائی تھی ۔جنرل ضیا نے تو بھٹو کی اس پالیسی کو جاری رکھنے کا گناہ کیا تھا۔افسو س یہ ہے کہ ہمارے لبرلر و سیکولر دوست جھوٹ بولنے اور منافقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یہ صرف اپنے مطلب کی بات لکھتے اور بولتے ہیں لیکن پورا سچ نہیں بولتے ۔ایسے ہی نام نہاد دانشوروں کی وجہ سے سندھ کی حالت آج تک نہیں بدلی اور وہ آج بھی زرداری جیسے کرپٹ عناصر کے تسلط میں ہے ۔ہمارے دوست عاطف بٹ نے بالکل درست کہا کہ ضیا کے تلوے چاٹنے والے بھی اب پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں جس کی ایک تازہ ترین مثال ایک معروف انگریزی اخبار بھی ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)