Translate

جمعہ، 7 جولائی، 2017

Very Clever ,Cunning And Faithful Dog

ایک سنیئر تجزیہ کار کا یہ خیال ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں ان کے نشانے کی تعریفیں کرنے والے اور اس کو عزت و احترام کے ساتھ امریکہ بھیجنے کا بندوبست کرنے والے حکام کی پھرتیوں کی تفصیلات پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہر بندہ تین پاکستانیوں کے قاتل اس امریکی جاسوس سے تفتیش کرنے کی بجائے اپنا گرین گارڈ پکا کرنے ،ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں نوکری حاصل کرنے یا پھر اپنے بچوں کے لئے کسی امریکی یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی اپنے ان دیسی "خدام""کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گورے حاکم نے کم و بیش سو برس  تک ہم پر حکومت کی ۔اس دوران انہوں نے اپنے اور مقامی لوگوں کے مابین ایک فاصلہ برقرار رکھا۔حتیٰ کہ برصغیر میں گورے حاکم کے اقتدار کو مضبوط کرنے والا دیسی جاگیردارطبقہ بھی جب  31دسمبر کی شب ہیپی نیو ایئر کی مبارک دینے اپنے اپنے ضلع کے گورے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر حاضر ہوتا تو صاحب بہادر انہیں شرف دیدار بخشنے کی بجائے نوکر کے ذریعے کہلوا دیتا کہ صاحب تک ان کا سلام پہنچ گیا ہے ۔برصغیر کے ممتاز اخبار نویس سردار دیوان سنگھ مفتون اپنی یادداشتوں کے مجموعے "سیف و قلم " میں لکھتے ہیں کہ  انگریز کو ہم ہندوستانیوں سے صرف اتنا سا تعلق ہے کہ جب اسے ہماری ضرورت ہو تو وہ ہمیں اپنے قریب بلاتا ہے اور کام نکل جانے کے بعد وہ ہمیں اپنے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔اپنے اس دعوے کے حق میں انہوں نے بطور دلیل ایک "عبرتناک "واقعہ بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مرحوم قاضی عزیز الدین احمد تقسیم ہند سے قبل کی ان ہندوستانی شخصیات میں سے تھے جنہیں گورے حاکم اور ہندوستانی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کی خاصی قربت حاصل تھی ۔قاضی صاحب سیلف میڈ آدمی تھے ۔انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز نائب تحصیلدار کی حیثیت سے کیا ۔بے حد محنتی ،وضعدار،اصول پسند اور قابل آدمی تھے۔سرکاری ملازمت میں ترقی کرتے کرتے پہلے تحصیلدار اور پھر ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ریاست دھولپور اور ریاست دتیا کے وزیر اعظم بھی رہے ۔نظام دکن ،نواب آف بہاولپور ،مہاراجہ پٹیالہ اور مہاراجہ بیکانیر سمیت متعدد والیان ریاست کی خواہش تھی کہ قاضی صاحب ان کے ساتھ بطور وزیر اعظم کام کریں۔لیکن قاضی صاحب نے ان والیان ریاست سے معذرت کرلی کیونکہ ان والیان کے ساتھ ان کے گہرے ذاتی دوستانہ تعلقات تھے اور دوستوں کے ہاں ملازمت کرنے کو وہ اصولاً نامناسب خیال کرتے تھے ۔مفتونؔ کے بقول ،"قاضی صاحب بے حد مخلص ،ایماندار ،انگریزوں کے خیر خواہ اور دلداہ تھے ۔میں نے اپنی زندگی میں ہندوستانیوں میں سے کوئی ایسا دوسرا شخص نہیں دیکھا جو قاضی صاحب سے زیادہ انگریزوں کا مخلص اور بے ریا دوست ہو ۔"لیکن گورا حاکم قاضی صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتا تھا ،اس سلسلے میں انہوں نے خود ایک واقعہ مفتونؔ کو سنایا ۔۔۔۔۔۔قاضی سر عزیز الدین احمد مراد آباد میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے ۔ان کا انگریز کلکٹر انڈین سول سروس کا ممبر تھا۔مراد آباد کی پوسٹنگ کے دوران ہی جب انگریز کلکٹر تین ماہ کی رخصت پر لندن گیا تو قاضی صاحب کو اس کی جگہ تین ماہ کے لیے قائم مقام کلکٹر مقرر کیا گیا۔انگریز کلکٹر نے رخصت پر جانے سے پہلے قاضی صاحب کو کلکٹر آفس کا چارج دیتے ہوئے اپنی کوٹھی کی اس آہنی الماری کی چابیاں بھی دیں جس میں افسران کی سروس بکس رکھی ہوئی تھیں۔قاضی صاحب کو کلکٹری کا چارج لئے قریباً ایک ماہ ہو چکا تھا کہ ایک روز بیٹھے بیٹھائے انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنی سروس بک بھی دیکھیں کہ ان کے بارے میں ان کے سیئر انگریز افسران گاہے گاہے کیا ریمارکس لکھتے رہے ہیں۔قاضی صاحب نے اس کانفیڈینشل الماری کو کھولا اور اس میں سے اپنی سروس بک نکال کر پڑھنے لگے ۔بعض انگریز کلکٹر اورکمشنر صاحبان نے اپنے ریمارکس میں انہیں بے حد شریف ،ایماندار ،انگریزوں کے انتہائی مخلص اور وفاشعار قرار دیا ۔لیکن ایک انگریز کلکٹر نے قاضی صاحب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ،،،،،،،،،
"very clever ,cunning and faithful dog"
(بہت چالاک ،ہوشیار اوروفادار کتا)
مفتونؔ کے بقول اپنے بارے میں انگریز کلکٹر کے یہ ریمارکس پڑھ کر قاضی سر عزیز الدین احمد ہکا بکا رہ گیے کہ گورے حاکم کے ساتھ ان کی محبت اور وفاشعاری کا صلہ انہیں کن الفاظ کے ساتھ دیا گیا۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کو سزا دلوانے کی بجائے اسے عزت و احترام سے امریکہ بھجینے والے قاضیوں کو خبر ہو کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اور خیالات تبدیل نہیں ہوتے ۔

4 تبصرے:

  1. Ours are not born leadders. All of our rulers the product of crises. They came to exploit the situation and established themselves as leaders. May Allah give true leadership.

    جواب دیںحذف کریں
  2. ھمارے سمیت ھماری قوم احساس کمتری کی بیماری لے کر پیدا ھوئی ھے-ھمیں کوئی دے تو ھم شکر گزار-ھم سے کوئی چھینے تو ھم شکر گزار-ھماری عافیہ کو لے جائے تو ھم شکرگزار-ھمارے بچوں کو ھمارے محلے کی گلیوں میں کوئی گولیاں مار کر پیسے لاش پر رکھ دے تو ھم شکر گزار-شکر گزاری میں ڈوبی اس قوم کو اللە ھی چاھے تو بچا لے-وگرنہ ھم کسی ریمنڈڈیوس پر احتجاج کرنے والے نہیں-کیا پورے ملک میں احتجاج کی کوئی آواز یا شرمندگی کا کوئی احساس آپ نے محسوس کیا؟ نہیں-اور کریں گے بھی نہیں-بھینس کے آگے بین بجاتے جائیے-

    جواب دیںحذف کریں
  3. ارے سر مايوس نه هوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اپنے اپنے حصے كا چراغ جلاتے جائيں ،الله خير كرئے گا

    جواب دیںحذف کریں