Translate

جمعرات، 20 جولائی، 2017

ضرورت جیون ساتھی

فکر تونسوی ہندوستان کے مشہور مزاح نگار تھے ۔ان کی شگفتہ بیانی کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک عورت (بدستور کنواری )عمر بظاہر اٹھارہ سال ،بباطن پینتیس سال ،شباہت زنانہ ،وزن مردانہ ،ہنستی ہوں تو گولر کے پھول بکھیرتی ہوں۔روتی بالکل نہیں ،البتہ رلا دیتی ہوں۔،(آزمائش شرط ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرکیف سماج چونکہ ابھی سائنٹیفک نہیں ہوا ،ابھی راشن کارڈ میں ہی گرفتار ہے ۔اس لئے مجھے صرف ایک بچے کی ((سوشل )ماں بننے کے لئے ایک خاوند چاہیے ۔میں خود وکالت کا پیشہ کرتی ہوں۔اگر امیدوار بھی وکیل ہو تو بہتر رہے گا کیونکہ اس طرح ہم ایک دوسرے کا کچھ بگاڑ سکیں گے ۔بظاہر میں مرد سی لگتی ہوں ،اس لئے شادی بھی مردانہ وار کروں گی اور ازدواجی زندگی بھی مردانہ وار گزاروں گی ۔صرف وہی حضرات درخواست کریں جو میری طرح شادی کے خلاف ابھی تک کنوارے بیٹھے ہیں۔مگر اس کے باوجود ایک بچے کے باپ بننا چاہتے ہیں۔کیونکہ بنیادی چیز تو وہی بچہ ہے ۔ہم دونوں تو اس کے پنگھوڑے کا کام آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امید وار دولہا کی شکل جیسی بھی ہو ،منظور کر لی جائے گی ۔میرے یعنی بیٹی کے باپ کے پاس کافی دولت ہے ۔اس امر پر افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ سے کمائی گئی ہے ۔اس شاعری کی بدقسمتی سمجھئے یا میری کہ ایک بلیک مارکیٹ کے گھر میں شاعرہ پیدا ہو گئی ۔سچ بات ہے کہ نہ شادی کا کوئی اعتبار ہے نہ دولت کا ۔ہمیشہ غلط گھرانے کا رخ کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ڈبل ایم اے پاس نوجوان بے روزگار بھی ہے اور بے بیوی بھی ۔اس کے لئے کسی ایسی کنیا کی ضرورت ہے جس کا باپ اسے نوکری دلوا سکے ۔کیونکہ نوکری کے لئے جتنے دروازے اس نے کھٹکھٹائے ،دروازہ کھلنے پر لڑکی نکلی نوکری نہیں۔لڑکا شریف ،ذہین اور پُرکشش ہے ،میں چاہتا تو مارکیٹ میں اس کی بولی دے سکتا تھا کہ تازہ ترین رواج یہی ہے ۔میرا خیال ہے کہ شہر میں کئی کنواریاں اس کی گھوڑی اور سہرے کا انتظار کر رہی ہوں گی ۔مگر ان کے والدین نامعقول ہیں جو جہیز اور لڑکی تو دیتے ہیں ،نوکری نہیں۔میرا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ صرف اس لڑکی سے بیاہ کرئے گا جس کے باپ کی رسائی کرپٹ افسروں یا لیڈروں تک ہو ۔اور جو اسے نوکری دلوا سکے ۔۔۔نوکری پہلے ،لڑکی بعد میں۔منظور ہو تو جس اخبار میں آپ یہ اشتہار پڑھ رہے ہیں ،وہیں ٹیلی فون کر دیجئے ۔

2 تبصرے: