ہر سال پانچ جولائی آتے ہی ہمارے لبرلر اور سیکولر حلقے "یوم سیاہ "کا نعرہ لگا کر شہید جنرل ضیاالحق پر تبرا بازی شروع کردیتے ہیں۔دہائی یہ دی جاتی ہے کہ جنرل نے ایک منتخب حکومت پر شب خون مار کر بدترین آمریت کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کے ساتھ ہی جنرل ضیا کے "شخصی اوصاف "کا طنزیہ انداز میں تذکرہ شروع ہو جاتا ہے ۔کوئی انہیں چاپلوس اورخوشامدی کہتا ہے ۔کوئی محسن کش کے لقب سے نوازتا ہے ۔کسی کو وہ چنگیز اور ہلاکو سے بھی بڑے ظالم نظر آتے ہیں۔کوئی انہیں جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن قراردیتا ہے ۔بعض بزرجمہر انہیں ملک میں جاری دہشت گردی کا بانی کہتے نہیں تھکتے۔۔.....لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ضیا کو ملاحیاں سنانے والے یہ نام نہاد دانشور دراصل تاریخی و فکری بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہ لوگ چاپلوسی ،محسن کشی ،ظلم و تشدد اور جمہوریت دشمنی کی تاریخ جنرل ضیا سے شروع کرتے ہیں۔حالانکہ وطن عزیز میں چاپلوسی ،محسن کشی ،ظلم و تشدد اور جمہوریت دشمنی کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں جمہوریت پر شب خون صرف جنرل ضیا نے ہی مارا تھا۔ملکی تاریخ ہمیں اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے ۔یہاں جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف نے بھی جمہوریت کی بساط لپیٹی تھی ۔جنرل یحیحیٰ بھی مارشل لا حکمران رہے ۔لیکن ہمارے لبرل دانشوروں کی سار ی تان جنرل ضیا پر ہی آن کر ٹوٹتی ہے ۔۔۔۔آخر کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دانشور دیگر طالع آزمائوں سے صرف نظر کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔کیا صرف اس لیے کہ جنرل ضیا اسلام پسند آدمی تھے ۔دین سے محبت رکھتے تھے ۔اس لیے ان کا نام آج تک سیکولر و لبرل حلقوں کو چھبتا ہے ۔جہاں تک چاپلوسی و خوشامد کا تعلق ہے تو ہم دور کیوں جائیں ،اپنے بھٹو صاحب کی ہی مثال لے لیجئے ۔انہوں نے میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا کی انگلی پکڑ کر ایوان ہائے اقتدار کی غلام گردشوں میں قدم رکھا ۔اور پھر خوشامد اور چاپلوسی کے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ سکندر مرزا کے نام اپنے ایک خط میں انہیں قائد اعظم سے بھی بڑا لیڈر قرار دے دیا لیکن جیسے ہی جنرل ایوب نے ڈنڈے کے زور پر سکندرمرزا اور ان کی بیگم ناہید مرزا کو لندن کی راہ دکھائی تو بھٹو نے بھی سکندر مرزا کی طرف سے آنکھیں پھیرنے میں دیر نہ لگائی کیونکہ اب ان کے "ڈیڈی " جنرل ایو ب تھے ۔ایوب کے مارشلائی دور میں انہوں نے کئی وزارتوں کو انجوائے کیا۔بعد میں خود بھی موصوف سول مارشل ایڈمنسٹریٹر رہے لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی جمہوریت کے خادم اور چیمپئین ہیں۔اور اس سے بڑی محسن کشی اور کیا ہوگی کہ جب جنرل ایوب پر مشکل وقت آیا تو انہی بھٹو صاحب نے معاہدہ تاشقند کا پاکھنڈ رچا کر ان کی کمر میں چھرا گھونپنے میں دیر نہ لگائی ۔کیا جنرل ضیا کو صبح و شام گالیاں بکنے والے نام نہاد دانشور بھٹو صاحب کی محسن کشی کی اس تاریخ کو پڑھنا پسند کریں گے ۔۔۔۔۔۔اب ذرا آگے چلیے ۔۔۔۔۔آپ دلائی کیمپ کو بھی چھوڑ دیجیے ۔۔۔۔۔بھٹو صاحب اپنے دور میں اپوزیشن کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے ،اس کا ذکر بھی جانے دیجئے ۔ان کی فیڈرل سکیورٹی فورس بھٹو کے مخالفین کی "منجی پیڑھی " ٹھوکنے کے لیے کیا کیا سفاکانہ حربے اختیار کرتی تھی ۔۔۔۔۔اس موضو ع کو بھی کسی اگلی نشست کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش یہ دانشور صرف اتنا ہی بتا دیں کہ بھٹو صاحب اپنی پارٹی کے اندر اختلاف رائےکی جرات کرنے والے اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کرتے تھے ۔جے رحیم ۔معراج محمد خان ،اور دیگر کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔کہ معراج محمد خان جب جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے اپنے سابق قائد بھٹو کو "میکاولی کی بدروح" قرار دیا تھا ۔جنرل ضیا کے کوڑوں پر آنسو بہانے والے قوم کو یہ بتاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں کہ بھٹو دور میں دائیں بازو کے صحافیوں ،اخبارات و جرائد کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو ہمارے یہ فکری طور پر بانجھ دانشور منہ دھو رکھیں ۔افغانستان میں مداخلت بھٹو کا فیصلہ تھا ۔جب افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت بڑھنے لگی تو کچھ افغان رہنما پاکستان چلے آئے تو بھٹو نے ان سے ملاقات کے بعد اس وقت کے ڈی جی ایف سی جنرل نصیر اللہ بابر اور کرنل امام کو ہدایت کی تھی کہ انہیں چراٹ سینٹر میں عسکری تربیت دی جائے ۔،،۔۔۔۔واضح رہے کہ یہ تربیت لینے والے کوئی عام افغان خانہ بدوش نہیں بلکہ احمد شاہ مسعود ،حکمتیار اور ربانی جیسے بڑے لوگ تھے ۔واضح رہے کہ یہ بات کرنل امام نے ہمیں نومبر 2009میں ایک انٹرویو کے دوران خود بتائی تھی ۔جنرل ضیا نے تو بھٹو کی اس پالیسی کو جاری رکھنے کا گناہ کیا تھا۔افسو س یہ ہے کہ ہمارے لبرلر و سیکولر دوست جھوٹ بولنے اور منافقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یہ صرف اپنے مطلب کی بات لکھتے اور بولتے ہیں لیکن پورا سچ نہیں بولتے ۔ایسے ہی نام نہاد دانشوروں کی وجہ سے سندھ کی حالت آج تک نہیں بدلی اور وہ آج بھی زرداری جیسے کرپٹ عناصر کے تسلط میں ہے ۔ہمارے دوست عاطف بٹ نے بالکل درست کہا کہ ضیا کے تلوے چاٹنے والے بھی اب پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں جس کی ایک تازہ ترین مثال ایک معروف انگریزی اخبار بھی ہے ۔
Excellent
جواب دیںحذف کریںThanks sir
جواب دیںحذف کریںVery logical, historical and thought provoking piece of writing. Well done, it is need of the hour that propaganda and lies on the part secular and anti-Islam forces be checked likewise.
جواب دیںحذف کریںThanks sir
جواب دیںحذف کریں