وه 1956 كا سال تها اور ملك ميں سكندر مرزا سياه و سفيد كے مالك تهے ۔ پاكستان ميں محلاتي سازشيں اور جوڑ توڑ کی سياست اپنے عروج پر تهي ۔خان عبدالغفار خان كے بهائي ڈاكٹر خان صاحب بهي سياست ميں خاصے متحرك تهے ۔سكندرمرزا نے اقتدار پر اپني گرفت مزيد مضبوط كرنے كے لئے ايك نئي سياسي جماعت بنانے كا فيصله كيا ۔باهمي مشورے كے بعد گورنر مغربي پاكستان نواب مشتاق گورماني كي تجويز اور سكندر مرزا كي تائيد پر ڈاكٹر خان صاحب نے 23اپریل 1956 کو ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام ری پبلکن پارٹی رکھا گیا ۔اگلا مرحلہ اس نئی پارٹی کو صوبے میں اقتدار دلانے کا تھا ۔لیکن اس سلسلے میں مسلم لیگ رکاوٹ تھی جو اس وقت کی مغربی پاکستان اسمبلی میں واضح اکثریت رکھتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ معروف محقق جناب سید عقیل عباس جعفری اپنی شہر ہ آفاق تحقیقی کتاب " پاکستان کے سیاسی وڈیرے " میں لکھتے ہیں کہ سکندر مرزا ،نواب گورمانی اور ڈاکٹر خان صاحب نے مسلم لیگ کو سرعام چت کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس سلسلے میں مسلم لیگ اور ری پبلکن کے مابین پہلا معرکہ 20 مئی 1956 کو نئی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کے موقعہ پر ہوا ۔مسلم لیگ کے امیدوار میر غلام علی تالپور اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار چوہدری فضل الہیٰ تھے ۔جب مقابلہ ہوا تو ری پبلکن پارٹی نے دھونس ،دھاندلی اور جوڑ توڑ سے اپنا امید وار کامیاب کرا لیا جبکہ مسلم لیگ کے میر تالپور ہار گئے ۔مسلم لیگ نے اس دھونس دھاندلی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اگلے ہی روز ہائی کورٹ میں اس انتخاب کے خلاف انتخابی عذر داری دائر کر دی ۔مسلم لیگی رکن اسمبلی پیرزادہ عبد الستار اس کیس میں اپنی جماعت کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوئے ۔انہیں نے عدالت میں انتخابی عذر داری دائر کی ۔ہائی کورٹ سے نکل کر وہ سیدھے گورنر ہائوس پہنچے اور اور پھر یہ خبر بچی کچھی مسلم لیگ پر بجلی بن کر گری کہ سپیکر کے انتخاب کے خلاف انتخابی عذرداری میں ان کے وکیل اور رکن اسمبلی پیر زادہ عبدالستار نے ری پبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ میں وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سنبھال لیا ہے ۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب سکندر مرزا اور نواب گورمانی کے اشارہ ابرو پر پوری کی پوری اسمبلی راتوں رات ایڑی کے بل گھوم کر ری پبلکن پارٹی میں تبدیل ہو گئی تھی ۔فصلی بٹیروں کی طرف سے سیاسی چھتریاں بدلنے کے ایسے واقعات ہماری سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ہمیں یہ واقعہ آج صبح تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری صاحب کو ٹی وی چینلز پر چہچہاتے دیکھ کر یاد آیا ۔۔۔۔۔۔یادش بخیر ابھی چند سال پہلے ہی قبلہ چوہدری صاحب جنرل(ر)پرویز مشرف کے ترجمان ہوا کرتے تھے ۔گجرات کے چوہدری برادران کی محبت کا دم بھرا کرتے تھے ۔لیکن جیسے ہی پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو چوہدری صاحب نے چھتری تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائی ۔2012میں جب پہلی بار اخبارات میں فواد چوہدری کے پرویز مشرف کو خیرباد کہنے کی خبر چھپی تو اپنے چیف ایڈیٹر صاحب کے حکم پر ہم نے چوہدری صاحب کا انٹرویو کیا ۔ہمیں ان کے کہے ہوئے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں کہ "چونکہ پاکستانی سیاست میں اب پرویز مشرف کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آرہا ،اس لئے میں نے اب پیپلز پارٹی کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ 2013کا جنرل الیکشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین ہی ہو گا "اور پھر وہ پی پی کو پیارے ہو گئے ۔کچھ عرصہ پہلے انہوں نے عمران خان کی ترجمانی کی ڈیوٹی سنبھال لی ۔یقینی طور پر اب انہیں اگلے الیکشن میں تحریک انصاف بڑی پارٹی کی صورت میں نظر آرہی ہوگی کیونکہ پی پی کا تو پنجاب سے بوریا بستر اب گول ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ اگر اگلے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی اور عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو پھر چوہدری صاحب اپنے لیے کس نئی چھتری کا انتخاب کریں گے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں