Translate

جمعہ، 21 جولائی، 2017

شاعری اور اصلاحِ شاعری

اردو ادب کا تابندہ ستارہ حضرت مشفق خواجہ علیہ الرحمتہ بلاشبہ پاکستان میں اردو ادب کی آبرو تھے ۔انہوں نے جہاں کئی ادبی تحقیقی منصوبوں پر کام کیا ،وہیں ہفت روزہ " تکبیر" میں وہ برسوں ادبی کالم بھی لکھتے رہے ۔وہ اپنا ادبی کالم "سخن در سخن " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خامہ بگوش کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے ۔اردو کا یہ مقبول ترین ادبی کالم اندرون و بیرون ملک بڑے شوق سے پڑھا بھی جاتا اور اردو اخبارات و جرائد میں بکثرت نقل بھی کیا جاتا ۔۔۔ایک روایت کے مطابق بڑے بڑے شاعر اور ادیب اپنے بارے میں کالم لکھوانے کے لئے خواجہ صاحب کو سفارشیں کرایا کرتے تھے ۔۔۔اور اپنے بارے میں خامہ بگوش کا لکھا ہوا تنقیدی کالم چٹخارے لے لے کر پڑھا کرتے تھے ۔خواجہ صاحب کے  ان کالموں کے مجموعے "خامہ بگوش کے قلم سے "،"سخن در سخن " اور "سخن ہائے ناگفتنی "کے نام سے چھپ چکے ہیں۔شاعری کے بارے میں خواجہ صاحب کی تحریر کا مزہ لیجے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"تیسری دنیا کے بعض ممالک میں اتنی آسانی سے تو مارشل لا نہیں لگتا جتنی آسانی سے ہمارے ملک میں ہر تیسرا آدمی صاحبِ دیوان بن جاتا ہے ۔اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اچھے خاصے معقول لوگ بھی شاعری کرنے اور دیوان چھپوانے کی فکر میں ہیں۔شاعری کوئی زیادہ بُری چیز نہیں لیکن " جس کا کام اسی کو ساجھے " والا اصول پیش نظر رہنا چاہیے ۔اگر قتیل شفائی اور محسن بھوپالی جیسے لوگ شعر کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات فطری شاعر ہیں ،یعنی شعر کہنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے ۔لیکن جو لوگ اچھے خاصے معقول کام کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں ،انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ معقول کاموں کو چھوڑ کر شاعری کریں۔جب شاعری غالب جیسے بڑے شاعر کے لئے ذریعہ عزت نہیں تھی تو کسی اور کے لئے کیسے ہو سکتی ہے ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک مرتبہ کسی شاعر  نے اپنی ایک غزل اصلاح کے لئے اپنے استاد کو دی ۔کچھ دنوں بعد شاگرد نے غز ل واپس مانگی تو استاد نے کہا کہ ،"میاں طبیعت پر زور دے کر شعر کہا کرو۔تمہاری غزل بڑی بے مزہ تھی ۔اصلاح کی گنجائش بالکل نہیں تھی ۔اس لئے میں نے پھاڑ کر پھینک دی "۔کچھ عرصے بعد استاد نے وہی غزل اپنے رسالے میں اپنے نام سے شائع کردی ۔شاگرد نے دیکھی تو شکوہ کیا کہ ،"استاد! آپ نے تو کہا تھا کہ غزل پھاڑ کر پھینک دی ،پھر یہ رسالے میں آپ کے نام سے کیسے چھپ گئی ۔"استاد نے فرمایا ،"میاں غلطی ہو گئی ۔جیب میں تمہاری غزل رکھی تھی اور میری بھی ۔اپنی غزل میں نے پھاڑ کر پھینک دی اور تمہاری غزل کاتب کے حوالے کر دی ۔آیندہ اصلاح کے لئے تم مجھے دو غزلیں دینا تاکہ ایک پھاڑ کر پھینک دوں تو دوسری اصلاح کے بعد تمہیں واپس کردوں "۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں