ایڈیٹر " ریاست "دیوان سنگھ مفتون نے اپنی یادداشتوں میں کچھ ایڈیٹر صاحبان کا بھی بڑے شگفتہ انداز میں تذکرہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ بہت برس ہوئے میرٹھ سے ایک ہفتہ وار اردو اخبار " چنچل "جاری ہوا جو کبھی کبھی شائع کیا جاتا ۔"چنچل" کے ایڈیٹر صاحب کبھی کبھی ہمارے پاس "ریاست " کے دفتر بھی آیا کرتے ۔ایک روز آپ اپنے ایک دوست کے ہمراہ تشریف لائے ۔اور باتوں باتوں میں یہ ذکر ہوا کہ اگر " چنچل " کی بجائے اخبار کا کوئی اور ادبی یا سیاسی نام رکھ لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔میری اس بات کے جواب میں ایڈیٹر" چنچل "تو خاموش رہے لیکن ان کے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ،"دراصل بات یہ ہے کہ میرٹھ میں چنچل کماری نام کی ایک بہت خوبصورت پہاڑی طوائف رہتی ہے ۔چونکہ ایڈیٹر صاحب اس طوائف سے محبت کرتے ہیں ،لہٰذا صرف اس طوائف کو خوش کرنے کی خاطر جناب نے "چنچل " نام کا اخبار نکالا ہے ۔یہ سن کر میں بھی مسکرا دیا اور صرف اتنا کہا کہ ہاں انسان کو محبت کے لئے سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دہلی کی ایک تقریب میں وزیر اعظم پنڈت نہرو شریک تھے ۔ایک طرف فوٹو گرافر وزیر اعظم کی تصاویر لینے میں مصروف تھے اور دوسری طرف تقریب میں شریک ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ پنڈت جی کے قریب کھڑا ہو تاکہ پنڈت جی کے ساتھ اس کی تصویر بھی اخبارات میں شائع ہو سکے ۔۔۔۔دہلی کے ایک اردو ماہنامے کے ایڈیٹر صاحب بھی اس تقریب میں موجود تھے ۔پنڈت جی کی واپسی سے پہلے جب ان کے ساتھ شرکا کا گروپ فوٹو بننے لگا تو ایڈیٹر صاحب بھی گروپ میں جا کھڑے ہوئے ۔تصویر بن گئی اور پنڈت جی واپس چلے گئے ۔،ایڈیٹر صاحب نے ایک فوٹو گرافر سے کہہ کر اس گروپ فوٹو میں صرف اپنی اور پنڈت نہرو کی فوٹو کے علاوہ باقی لوگوں پر سیاہی لگوا دی تاکہ فوٹو میں صرف پنڈت نہرو اور ایڈیٹر صاحب ہی نظر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔سیاہی والا یہ فوٹو جب بلاک کی صورت میں ایڈیٹر صاحب کے رسالے میں شائع ہوا تو معاملہ پریس ایڈوائزر تک پہنچ گیاتاکہ ایڈیٹر صاحب پر جعلسازی کا مقدمہ چلایا جائے ۔لیکن مذکورہ ایڈیٹر صاحب صرف اس لئے بچ گئے کیونکہ سرکاری وکیل نے متعلقہ حکام کو رائے دی کہ اس تصویر کو بگاڑ کر شائع کرنا اگرچہ جعلسازی اور اخلاقی طور پر انتہائی شرمناک جرم ہے لیکن قانونی طور پر یہ جعلسازی قابل تعزیر نہیں ہے ۔۔۔لہٰذا ایڈیٹر صاحب کی کاریگری کا یہ معاملہ داخل دفتر کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ مرض موجودہ دور کا ہے لیکن دیوان سنگھ مفتون کے بیان کردہ یہ واقعات پڑھ کر اندازہ ہوا کہ آج سے 60،70 برس پہلے بھی یار لوگ معروف شخصیات کے ساتھ اپنی تصویر بنوانے اور اخبارات میں چھپوانے کے لئے ہلکان ہوئے جاتے تھے ۔۔۔آج بھی کچھ دوست ہر مشہور شخصیت کے ساتھ بنوائی گئی تصویریں جیب میں رکھتے ہیں اور اپنی تسکین طبع کے لئے انہیں گاہے گاہے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں ۔بعض حضرات کی تصویریں دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ غالب کی طرح انہوں نے بھی نوحہ گر کی بجائے کرایے کا فوٹو گرافر ہمہ وقت ساتھ رکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
,😂😁😀
جواب دیںحذف کریں