Translate

اتوار، 9 جولائی، 2017

بھرم

                                        ایرانی بادشاہ نادر شاہ کو اس کی عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے مورخین ایشیا کا نپولین اور سکندر ثانی بھی کہتے ہیں۔خراسان کے ایک خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والے نادر شاہ نے محض اپنی دلیری ،بہادر ی اور عسکری صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایران کی بادشاہت حاصل کی ۔ایرانی بادشاہ طہماسپ دوم کی فوج میں ملازمت کے دوران جب نادر شاہ نے روس اور ترکی کے خلاف عسکری جوہر دکھائے تو اہل ایران نے انہیں اپنا نجات دہندہ خیال کرتے ہوئے تختِ ایران پر جلوہ افروز ہونے کی پیش کش کی.ثروت صولت نے اپنی کتاب "ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ "میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کی اس درخواست پر نادر شاہ نے ان کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ وہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے ،وہ ان کے ملک کی بادشاہت قبول نہیں کریں گے۔اہل ایران نے ان کا یہ مطالبہ قبول کیا جس کے بعد انہوں نے 1736میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ ایک روایت کے مطابق نادر شاہ ایک روز کسی مسجد میں نماز عصر کے لئے وضو کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک گیند انہیں آ کر لگی ۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی طرف گیند پھینکنے کی جرات کس نے کی ہے کہ اسی اثنا میں ایک نوعمر بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اپنی گیند اٹھا کر بھاگ گیا ۔بچے کی اس جرات پر نادر شاہ حیران رہ گیے کہ ایک چھوٹے سے بچے نے بھی بادشاہ کا خوف اپنے اندر محسوس نہیں کیا اور نہ بادشاہ سے معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔کہتے ہیں کہ اسی شام جہاں دیدہ نادر شاہ نے اپنے کسی قریبی ساتھی سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ "ایسے لگتا ہے کہ میرا وقتِ آخر آن پہنچا ہے ۔کیونکہ جب عوام کے دلوں سے حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ جاتا رہے تو پھر ان کا اقتدار زیادہ دیر باقی نہیں رہ رہتا ۔"۔۔۔۔روایت کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد ہی 1747 میں نادر شاہ کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات ان کے خیمے میں داخل ہو کر انہیں نیند کی حالت میں قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔ایک دوسری روایت کے مطابق کمیونسٹوں کے ہاتھوں روس کے آخری مطلق العنان زار نکولس دوم کی موت اگرچہ سرخ انقلاب کے ایک برس بعد ہوئی لیکن مورخین کہتے ہیں کہ زار کا انتقال دراصل اسی روز ہو گیا تھا جب انقلاب کا طبل بجتے ہی زار نے دیکھا کہ بدتمیز مزدور اور کسان شاہی محل میں زبردستی گھسنے کے بعد قالین پر کیچڑ بھرے جوتوں کے ساتھ چل رہے ہیں ۔فی الحال ہمیں ان دونوں روایتوں کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے کی بحث میں الجھنے کی بجائے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ان دونوں روایتوں کے اندر بلاشبہ عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو تین روز پہلے حویلی بہادر شاہ میں خطاب کرتے وزیر اعظم کا سُتا ہوا چہر ہ دیکھا جس پر پریشانی کی پرچھائیں صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ہفتے کی شام چار وفاقی وزیروں کا اکٹھے ہو کر دھواں دھار پریس کانفرنس کرنا بھی اس امر کی علامت تھی کہ کہیں اندرون خانہ آگ لگی ہوئی ہے جس کا دھواں اس پریس کانفرنس میں بھی اڑ رہا ہے ۔۔۔۔علاوہ ازیں ٹی وی ٹاک شوز میں سرشام سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے شریف فیملی کی تعریف اور حمایت میں رطب اللسان رہنے والے کچھ سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ایک دور روز سے  بدلا بدلا سا لہجہ بھی یہ احساس دلا رہا ہے کہ شاید ان صحافتی پنڈتوں کو بھی ہوا کا رخ بدلنے کی خبر مل گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے لگتا ہے کہ نواز شریف ،شہباز شریف ،حسن ،حسین ،مریم اور اسحا ق ڈار کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد حکمران فیملی کے حاکمانہ دبدبے اور رعب کا بھرم کچھ ٹوٹ سا گیا ہے ،اس لیے نادر شاہ کے تجزیے کے مطابق نہ جانے کیوں ایسے لگ رہا ہے کہ اب جی کا ٹھہر گیا ہے ،صبح گیا یا شام گیا ۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں