Translate

بدھ، 19 جولائی، 2017

سکھا شاہی انصاف

ریاست بھرت پور کا حکمران مہاراجہ کیشن سنگھ ڈنر پارٹیوں ،شراب نوشی کی محفلوں اور خوش رو چہروں سے دل بہلانے کا بڑا شوقین تھا ۔ان مشاغل کے لیے مہاراجہ کے محل کا کانفرنس روم استعمال کیا جایا تھا۔کانفرنس روم میں اتنی بڑی میز رکھوائی گئی تھی کہ بیک وقت 100مہمان اس کے گرد بیٹھ سکتے تھے ۔مہاراجہ اپنی اکثر پارٹیاں اسی میز پر منعقد کیا کرتا تھا۔مہاراجہ نے اپنے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے بڑا "منفرد "طریقہ اختیار کیا ۔۔۔۔۔۔مہاراجہ کی طرف سے اس کے پرائیویٹ سیکرٹری کنور بھرت سنگھ کو ہدایت کی گئی کہ مہاراجہ کے فیصلوں کی منتظر تمام سرکاری فائلوں کو ہر اتوار کی صبح کانفرنس روم کی بڑی میز پر رکھ دیا کرئے تاکہ مہاراجہ انہیں ملاحظہ کرسکے ۔جب مہاراجہ ان فائلوں پر اپنے احکامات جاری کرچکے ،تو کنور بھرت سنگھ اگلی صبح وہ تمام فائلیں میز سے اٹھا لیا کرئے ۔چنانچہ مہاراجہ کے حکم پر اس کا پرائیویٹ سیکرٹری ہر اتوار کی صبح قتل کے مقدمات ،لاکھوں کروڑوں روپے کے دیوانی مقدمات ،حکمران خاندان سے متعلق اہم شخصی مقدمات ،حکومت ہند کے پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ اور اعلیٰ حکومتی افسران کی تعیناتی اور برطرفی کی فائلیں میز پر رکھ دیا کرتا ۔مہاراجہ اتوار کی رات کانفرنس روم میں آ جاتا ۔اس کی مہارانیاں اور دیگر منظور نظر خواتین بھی ہمراہ ہوتیں ۔مہاراجہ کئی گھنٹے ان خواتین کے ساتھ چہلیں کرتا اور اپنا دل بہلاتا ۔اس دوران وہ انتہائی تیز شرابیں پیتا ۔کانفرنس روم سے واپس جانے سے پہلے وہ اپنی سب سے پسندیدہ مہارانی کو حکم دیتا کہ وہ میز پر پڑی فائلوں کے دو ڈھیر بنا دے ۔مہاراجہ فائلوں کو دیکھے بغیر ایک ڈھیر والی فائلوں کی زبانی منظوری دے دیتا اور دوسرے ڈھیر کی فائلوں کو نامنظور کر دیتا۔اس دوران وہ کسی فائل کو کھول کر دیکھتا تک نہیں تھا۔اگلے دن اس کا سیکرٹری فائلوں پر فیصلے لکھتا اور لوگوں کو سنا دیتا۔دیوان جرمنی داس اپنی کتاب "مہاراجہ" میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس انصاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں بے گناہوں کو سزا ملی اور مجرم آزاد ہو گیے۔حکومت کے ریونیواور دیوانی مقدمات کا بھی یہی حشر ہوتا تھا ۔بعض مقدمات میں رقم لینے والوں کو الٹا رقم ادا کرنی پڑ جاتی تھی۔مہاراجہ کے اس اندازِ فراہمی انصاف نے عوام میں بے چینی پھیلا دی ۔چنانچہ وائسرائے کو حکمرانی کے مکمل اختیارات کے ساتھ ایک وزیر اعظم ریاست بھرت پور میں مقرر کرنا پڑا جس کے نتیجے میں مہاراجہ موصوف صرف نام کے حکمران رہ گئے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں