جب سے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی خود نوشت منظر عام پر آئی ہے ،ہمیں ڈاڑھی اور پگڑی والا وہ خوبصورت شخص بہت یاد آ رہا ہے جسے دنیا ملا عبد السلام ضعیف کے نام سے جانتی ہے ۔اس افغان حکومت کا سفارتکار جسے 1947 کے بعد کابل میں بننے والی پہلی پاکستان دوست حکومت کہا جاتا ہے ۔ایک ایسی حکومت جس کا قلندر صفت حکمران اپنے ساتھیوں کو یہ تاکید کیا کرتا تھا کہ اگر کبھی پاکستان اور افغانستان پر بیک وقت کڑا وقت آجائے تو تم لوگ افغانستان کی فکر چھوڑ دینا اور پاکستان کے دفاع کے لئے لڑنا کہ وہ ہمارا استاد گھرانہ ہے ۔ایک ایسی حکومت جس کے چھ سالہ دور میں حکومت پاکستان کو پاک افغان بارڈر پر نگرانی کے لئے اپنی فورس کھڑی کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ایک ایسی حکومت جس نے افغانستان کو اسلحے ،پوست اور جرائم سے پاک کرنے کا خواب سچ کر دکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک ایسی حکومت جس کو صرف اس لئے ختم کیا گیا کہ اس کے حاکم کا یہ جرم تھا کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔نائن الیون اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب ہوا ئوں کا رخ بدلا ،پرویز مشرف کی طرف سے قوم کو"سب سے پہلے پاکستان"کا چورن دیا گیا ،تو اس وقت پاکستان دوست افغان حکومت کے عزت مآب سفیر محترم ملا عبد السلام ضعیف کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ،اس کی تفصیل ان کی خودنوشت میں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتاہے ۔۔۔۔۔۔۔سفارتکاروں کو ہر دور میں احترام حاصل رہا ہے ۔کسی ملک کی طرف سے سفارتکاروں کے ساتھ کی گئی بدسلوکی پر جنگیں چھڑ جایا کرتی تھیں۔لیکن پرویز مشرف کے عہد سیاہ میں افغان سفیر کو اپنے ہاتھوں امریکیوں کے حوالے کیا گیا ۔امریکی اہلکاروں نے پاکستانی افسران کے سامنے ملاصاحب کو برہنہ کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت "مائی لائف وِد دی طالبان" میں کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسری طرف ایک امریکی جاسوس پلس ٹھیکیدار ہے جس نے دن دیہاڑے لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر فائرنگ کرکے دو پاکستانی نوجوانوں کو قتل کر ڈالا ۔اس کو بچانے کے لئے آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے ایک تیسرے پاکستانی کو بھی کچل ڈالا ۔لیکن وہ امریکی جاسوس عزت و احترام کے ساتھ اپنے ملک واپس چلا گیا ۔اسے سزا دینے کی بجائے پاکستانی افسران اس کے بہترین نشانے کی تعریفیں کرتے رہے ۔اس کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجتے ہوئے پاکستانی ارباب بست و کشاد میں سے کسی کی بھی رگ حمیت نہ پھڑکی ۔حکمران طاقتوں کا یہ وہ متضاد رویہ ہےجو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اگرچہ 1947میں ہم نے جسمانی طور پر گورے حاکم سے آزادی حاصل کر لی لیکن ذہنی طورپر آج بھی ہم اسی کے غلام ہیں۔ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے کئی مقدس چہروں پر پڑے ہوئے نقاب نوچ ڈالے ہیں۔اب خواہ کسی کی طرف سے اس کی کوئی بھی تاویل پیش کی جائے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ہم نے پاکستان دوست ملاعبد السلام ضعیف کو تو ہتھکڑیاں لگا کر امریکیوں کے حوالے کر دیا اور پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا ۔۔۔۔۔۔دیکھنا ! کہیں آنے والے دنوں میں شکیل آفریدی اور کلبھوشن یادو کو بھی اسی طرح عزت و احترام کے ساتھ دہلی اور واشنگٹن روانہ نہ کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا نچوڑ یہی ہے کہ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس
Right
جواب دیںحذف کریںThanks Maya
جواب دیںحذف کریں