Translate

ہفتہ، 8 جولائی، 2017

طولِ شبِ فراق

روایت مشہور ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین احمد اور بانی خاکسار تحریک علامہ عنایت اللہ المشرقی ایک مجلس میں اکٹھے بیٹھے تھے ۔ علامہ صاحب کا علم ریاضی میں بڑا نام تھا ،دوسری طرف ڈاکٹر ضیاالدین احمد کو بھی اسی علم کا بڑا ماہر خیال کیا جاتا تھا ۔سو علامہ صاحب نے انہیں چھیڑتے ہوئے فرمایا،۔۔ارے پروفیسر صاحب !کئی روز سے ایک عجب مسئلے نے ہمیں الجھا رکھا ہے ۔چونکہ مسئلہ ریاضی کا ہے جس کے آپ بھی بڑے ماہر ہیں ،اس لئے ذرا رہنمائی تو فرمائیے ۔اتنا کہہ کر علامہ صاحب نے یہ شعر پڑھا ،
شہرہ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا 
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے 
ڈاکٹر ضیاالدین احمد نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ،
طولِ شب ِ فراق جو ماپا گیا حضور 
نکلا وہ زلف ِ یار سے دو چار ہاتھ کم 
حسن اتفا ق سے رئیس المتغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی بھی اسی مجلس میں تشریف فرما تھے ۔انہوں نے دونوں بزرگوں کی اس ادبی بحث کو سنتے ہی اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ،
طول ِ شب ِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ 
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو 
۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں پہلے زمیندار کالج گجرات کی لائبریری سے مستعارلی گئی ایک کتاب میں ہم نے یہ قصہ پڑھا تھا کہ مراد آباد میں ایک طرحی مشاعرے کا بڑا چرچا تھا ۔ہر سال وہ مشاعرہ ہوتا جس میں ایک مصرعہ دیا جاتا جس پر شعرا اپنے اپنے ذوق کے مطابق غزل کہتے ۔ایک سال اس مشاعرے کے لئے یہ مصرعہ دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ رہی ہے چمن سے بوئے کباب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بزرگ شاعر صبح کی سیر کرتے ہوئے دھیمی آواز میں مسلسل اس مصرعے کو دہرا رہے تھے لیکن دوسرا مصرعہ ان سے بن نہیں پا رہا تھا ۔باغ کی روش پہ چلتے چلتے انہوں نے ایک بار جب یہی مصرعہ ذرا بلند آواز میں دہرایا تو قریب سے گزرنے والے ایک نوعمر بچے نے جھٹ سے پلٹ کر کہا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کسی بلبل کا دل جلا ہو گا ۔۔۔۔۔۔لیجے شعر مکمل ہو گیا۔بزرگ شاعر نے بھاگ کے بچے کو جا پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور نام پوچھا تو اس نے بتایا ،" علی سکندر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی علی سکندر نے بعد ازاں جگر مرادآبادی کے نام سے   شاعری کی دنیا پر راج کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ جگرؔ اپنی ابتدائی زندگی میں شراب بہت پیتے تھے ۔اسی لئے جب ایک نعتیہ مشاعرہ میں انہیں بھی نعت پڑھنےکی دعوت دی گئی تو کچھ لوگوں نے اس پر بڑی ناک بھوں چڑھائی کہ دیکھو میاں،وہ شرابی بھلا کیا نعت پڑھے گا ۔دوسری طرف جگر کے لئے بھی امتحان تھا کہ انہیں اپنی رندی کا بھی احسا س تھا اور یہ بھی خبر تھی کہ انہیں کس بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،اس لئے وہ کانپ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاجاتا ہے کہ اس مشاعرے کے لئے انہوں نے جو نعت لکھی ،اس نے بھی ان کی زندگی میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔راوی کے مطابق وہ نعت مندرجہ ذیل تھی ،
ایک رند ہے اور مدحت ِ سلطان مدینہ 
بس ایک نظر ِ رحمت سلطان مدینہ 
اے خاک مدینہ تری گلیوں کے تصدق 
تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہ 
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت 
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطان مدینہ 
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظر دید 
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ 
کونین کا غم ،یاد خدا اور شفاعت 
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ 
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم 
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ 
اس امتِ عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا 
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے 
کافی ہے بس اک نسبت ِ سلطان مدینہ 

9 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. Poot ke paoun paalny se nazar aa jaaty hain....waqaie un Asataz e karaam ki to kia hi baat thi.

    جواب دیںحذف کریں
  3. کیسے کیسے مافوق العقل اور مافوق الفطرت واقعات منسوب کر دئیے گئے ہیں مقتدر شعراء کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ کہیں اختر شیرانی کو بلا نوش کَہہ دیا اور کہیں جگر مراد آبادی کو نشے میں دھت لکھنے سے گریز نہیں کیا۔۔۔۔ کبھی غالب پہ جواری اور مےنوش ہونے کا ٹھپہ لگا دیا اور کبھی ساغر صدیقی کو نشئی کہنے سے بھی باز نہیں آئے۔۔۔غرض یہ کہ ہم نے اپنی شخصیت کو نمایاں کرنے کی خاطر شاعِر مشرق کو بھی "القابات" عطاء کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا۔۔۔۔۔ میرزا اسدؔ اللہ خان غالب نے تو زندگی کی شدید آزمائشیں برداشت کیں۔۔۔۔روکھی سوکھی اور ایک معذور بھائی کی پرورش۔۔۔۔بہت مشکل کام ہیں۔۔لیکن انہوں نے کئے۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔۔ انکسار۔۔۔۔۔جبکہ ہمارے لئے ایک نارمل گھر کو پالنا۔۔۔۔جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔۔۔۔یہ الگ بات کہ ہم نے ان کو جواری شرابی عیاش اور غیر سنجیدہ ظاہر کرنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔۔۔۔ہم۔۔۔۔نقاد جو ٹھہرے!!۔۔۔۔جتنی بدنامی ساغر صدیقی نے سمیٹی وہ۔۔۔الگ داستان ہے۔۔۔۔ان سب نے سرکار رسالتمآب صلّی اللّٰہُ علَیہ وَآلِہ وسلّم کی خدمت میں جس عقیدت اور عجز کے ساتھ مناجات پیش کی ہیں وہ۔۔۔۔یقیناً۔۔۔۔جام پہ جام چڑھانے والے کے قلَم کا حصہ نہیں بن سکتی۔۔۔کیونکہ نعت لکھنا اور بات ہے۔۔۔۔عقیدت اور ادَب کو ملحوظ رکھنا اور بات۔
    جب قادِر مطلق کا کلام اور فرمانِ رسُول صلّی اللّٰہُ علَیہ وَآلِہ وسلّم یہ ہے کہ ام الخبائث عقل و حواس کو معطل کرتی ہے تو پِھر "بلا نوش" کا تمغہ پانے والے اختر شیرانی یا جگر کا عِشق رسُول صلّی اللّٰہُ علَیہ وَآلِہ وسلّم بلانوشی کے بعد ہی کیسے جاگ جاتا تھا؟۔۔۔۔۔بلکہ"ناقدین" تو مذکورہ شاعروں کو تو شاعر ہی نہیں مانتے۔۔۔۔ لیکن جو شعرائے کرام واقعی حسن و شباب کے مارے ہُوئے تھے انہیں ہم نے اکابرین کی فہرست میں شامل کر کردیا ۔۔۔۔😲۔۔۔۔۔ ویسے بھی ضروری تو نہیں ناں کہ ایک شخص "شعلہ بیان" مقرر یا خطیب کے طور پہ مشہور ہو تو۔۔۔۔۔حقیقت ہی بیان کرتا ہو!! تواریخ بتاتی ہے کہ سچے اور کھرے لیڈر کبھی شعلہ بیان مقرر نہیں تھے۔۔۔۔یعنی یہ لازمہ نہیں ہے کہ مجمع لوٹنے والا خطیب۔۔۔۔اپنی یادداشتوں پہ مبنی کتاب لکھے تو۔۔۔۔۔تمام باتیں سچ ہوں اور " رنگ" سے پاک ہوں۔( حکیم خلیق الرحمٰن)

    جواب دیںحذف کریں