Translate
ہفتہ، 12 اگست، 2017
جمعرات، 10 اگست، 2017
منگل، 8 اگست، 2017
ہفتہ، 29 جولائی، 2017
جمعہ، 28 جولائی، 2017
جمعرات، 27 جولائی، 2017
بدھ، 26 جولائی، 2017
جمعہ، 21 جولائی، 2017
شاعری اور اصلاحِ شاعری
اردو ادب کا تابندہ ستارہ حضرت مشفق خواجہ علیہ الرحمتہ بلاشبہ پاکستان میں اردو ادب کی آبرو تھے ۔انہوں نے جہاں کئی ادبی تحقیقی منصوبوں پر کام کیا ،وہیں ہفت روزہ " تکبیر" میں وہ برسوں ادبی کالم بھی لکھتے رہے ۔وہ اپنا ادبی کالم "سخن در سخن " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خامہ بگوش کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے ۔اردو کا یہ مقبول ترین ادبی کالم اندرون و بیرون ملک بڑے شوق سے پڑھا بھی جاتا اور اردو اخبارات و جرائد میں بکثرت نقل بھی کیا جاتا ۔۔۔ایک روایت کے مطابق بڑے بڑے شاعر اور ادیب اپنے بارے میں کالم لکھوانے کے لئے خواجہ صاحب کو سفارشیں کرایا کرتے تھے ۔۔۔اور اپنے بارے میں خامہ بگوش کا لکھا ہوا تنقیدی کالم چٹخارے لے لے کر پڑھا کرتے تھے ۔خواجہ صاحب کے ان کالموں کے مجموعے "خامہ بگوش کے قلم سے "،"سخن در سخن " اور "سخن ہائے ناگفتنی "کے نام سے چھپ چکے ہیں۔شاعری کے بارے میں خواجہ صاحب کی تحریر کا مزہ لیجے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"تیسری دنیا کے بعض ممالک میں اتنی آسانی سے تو مارشل لا نہیں لگتا جتنی آسانی سے ہمارے ملک میں ہر تیسرا آدمی صاحبِ دیوان بن جاتا ہے ۔اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اچھے خاصے معقول لوگ بھی شاعری کرنے اور دیوان چھپوانے کی فکر میں ہیں۔شاعری کوئی زیادہ بُری چیز نہیں لیکن " جس کا کام اسی کو ساجھے " والا اصول پیش نظر رہنا چاہیے ۔اگر قتیل شفائی اور محسن بھوپالی جیسے لوگ شعر کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات فطری شاعر ہیں ،یعنی شعر کہنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے ۔لیکن جو لوگ اچھے خاصے معقول کام کر سکتے ہیں یا کر رہے ہیں ،انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ معقول کاموں کو چھوڑ کر شاعری کریں۔جب شاعری غالب جیسے بڑے شاعر کے لئے ذریعہ عزت نہیں تھی تو کسی اور کے لئے کیسے ہو سکتی ہے ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ایک مرتبہ کسی شاعر نے اپنی ایک غزل اصلاح کے لئے اپنے استاد کو دی ۔کچھ دنوں بعد شاگرد نے غز ل واپس مانگی تو استاد نے کہا کہ ،"میاں طبیعت پر زور دے کر شعر کہا کرو۔تمہاری غزل بڑی بے مزہ تھی ۔اصلاح کی گنجائش بالکل نہیں تھی ۔اس لئے میں نے پھاڑ کر پھینک دی "۔کچھ عرصے بعد استاد نے وہی غزل اپنے رسالے میں اپنے نام سے شائع کردی ۔شاگرد نے دیکھی تو شکوہ کیا کہ ،"استاد! آپ نے تو کہا تھا کہ غزل پھاڑ کر پھینک دی ،پھر یہ رسالے میں آپ کے نام سے کیسے چھپ گئی ۔"استاد نے فرمایا ،"میاں غلطی ہو گئی ۔جیب میں تمہاری غزل رکھی تھی اور میری بھی ۔اپنی غزل میں نے پھاڑ کر پھینک دی اور تمہاری غزل کاتب کے حوالے کر دی ۔آیندہ اصلاح کے لئے تم مجھے دو غزلیں دینا تاکہ ایک پھاڑ کر پھینک دوں تو دوسری اصلاح کے بعد تمہیں واپس کردوں "۔
جمعرات، 20 جولائی، 2017
ضرورت جیون ساتھی
فکر تونسوی ہندوستان کے مشہور مزاح نگار تھے ۔ان کی شگفتہ بیانی کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک عورت (بدستور کنواری )عمر بظاہر اٹھارہ سال ،بباطن پینتیس سال ،شباہت زنانہ ،وزن مردانہ ،ہنستی ہوں تو گولر کے پھول بکھیرتی ہوں۔روتی بالکل نہیں ،البتہ رلا دیتی ہوں۔،(آزمائش شرط ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرکیف سماج چونکہ ابھی سائنٹیفک نہیں ہوا ،ابھی راشن کارڈ میں ہی گرفتار ہے ۔اس لئے مجھے صرف ایک بچے کی ((سوشل )ماں بننے کے لئے ایک خاوند چاہیے ۔میں خود وکالت کا پیشہ کرتی ہوں۔اگر امیدوار بھی وکیل ہو تو بہتر رہے گا کیونکہ اس طرح ہم ایک دوسرے کا کچھ بگاڑ سکیں گے ۔بظاہر میں مرد سی لگتی ہوں ،اس لئے شادی بھی مردانہ وار کروں گی اور ازدواجی زندگی بھی مردانہ وار گزاروں گی ۔صرف وہی حضرات درخواست کریں جو میری طرح شادی کے خلاف ابھی تک کنوارے بیٹھے ہیں۔مگر اس کے باوجود ایک بچے کے باپ بننا چاہتے ہیں۔کیونکہ بنیادی چیز تو وہی بچہ ہے ۔ہم دونوں تو اس کے پنگھوڑے کا کام آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امید وار دولہا کی شکل جیسی بھی ہو ،منظور کر لی جائے گی ۔میرے یعنی بیٹی کے باپ کے پاس کافی دولت ہے ۔اس امر پر افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ سے کمائی گئی ہے ۔اس شاعری کی بدقسمتی سمجھئے یا میری کہ ایک بلیک مارکیٹ کے گھر میں شاعرہ پیدا ہو گئی ۔سچ بات ہے کہ نہ شادی کا کوئی اعتبار ہے نہ دولت کا ۔ہمیشہ غلط گھرانے کا رخ کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ڈبل ایم اے پاس نوجوان بے روزگار بھی ہے اور بے بیوی بھی ۔اس کے لئے کسی ایسی کنیا کی ضرورت ہے جس کا باپ اسے نوکری دلوا سکے ۔کیونکہ نوکری کے لئے جتنے دروازے اس نے کھٹکھٹائے ،دروازہ کھلنے پر لڑکی نکلی نوکری نہیں۔لڑکا شریف ،ذہین اور پُرکشش ہے ،میں چاہتا تو مارکیٹ میں اس کی بولی دے سکتا تھا کہ تازہ ترین رواج یہی ہے ۔میرا خیال ہے کہ شہر میں کئی کنواریاں اس کی گھوڑی اور سہرے کا انتظار کر رہی ہوں گی ۔مگر ان کے والدین نامعقول ہیں جو جہیز اور لڑکی تو دیتے ہیں ،نوکری نہیں۔میرا صرف ایک مطالبہ ہے کہ وہ صرف اس لڑکی سے بیاہ کرئے گا جس کے باپ کی رسائی کرپٹ افسروں یا لیڈروں تک ہو ۔اور جو اسے نوکری دلوا سکے ۔۔۔نوکری پہلے ،لڑکی بعد میں۔منظور ہو تو جس اخبار میں آپ یہ اشتہار پڑھ رہے ہیں ،وہیں ٹیلی فون کر دیجئے ۔
بدھ، 19 جولائی، 2017
سکھا شاہی انصاف
ریاست بھرت پور کا حکمران مہاراجہ کیشن سنگھ ڈنر پارٹیوں ،شراب نوشی کی محفلوں اور خوش رو چہروں سے دل بہلانے کا بڑا شوقین تھا ۔ان مشاغل کے لیے مہاراجہ کے محل کا کانفرنس روم استعمال کیا جایا تھا۔کانفرنس روم میں اتنی بڑی میز رکھوائی گئی تھی کہ بیک وقت 100مہمان اس کے گرد بیٹھ سکتے تھے ۔مہاراجہ اپنی اکثر پارٹیاں اسی میز پر منعقد کیا کرتا تھا۔مہاراجہ نے اپنے عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے بڑا "منفرد "طریقہ اختیار کیا ۔۔۔۔۔۔مہاراجہ کی طرف سے اس کے پرائیویٹ سیکرٹری کنور بھرت سنگھ کو ہدایت کی گئی کہ مہاراجہ کے فیصلوں کی منتظر تمام سرکاری فائلوں کو ہر اتوار کی صبح کانفرنس روم کی بڑی میز پر رکھ دیا کرئے تاکہ مہاراجہ انہیں ملاحظہ کرسکے ۔جب مہاراجہ ان فائلوں پر اپنے احکامات جاری کرچکے ،تو کنور بھرت سنگھ اگلی صبح وہ تمام فائلیں میز سے اٹھا لیا کرئے ۔چنانچہ مہاراجہ کے حکم پر اس کا پرائیویٹ سیکرٹری ہر اتوار کی صبح قتل کے مقدمات ،لاکھوں کروڑوں روپے کے دیوانی مقدمات ،حکمران خاندان سے متعلق اہم شخصی مقدمات ،حکومت ہند کے پولیٹیکل ڈپارٹمنٹ اور اعلیٰ حکومتی افسران کی تعیناتی اور برطرفی کی فائلیں میز پر رکھ دیا کرتا ۔مہاراجہ اتوار کی رات کانفرنس روم میں آ جاتا ۔اس کی مہارانیاں اور دیگر منظور نظر خواتین بھی ہمراہ ہوتیں ۔مہاراجہ کئی گھنٹے ان خواتین کے ساتھ چہلیں کرتا اور اپنا دل بہلاتا ۔اس دوران وہ انتہائی تیز شرابیں پیتا ۔کانفرنس روم سے واپس جانے سے پہلے وہ اپنی سب سے پسندیدہ مہارانی کو حکم دیتا کہ وہ میز پر پڑی فائلوں کے دو ڈھیر بنا دے ۔مہاراجہ فائلوں کو دیکھے بغیر ایک ڈھیر والی فائلوں کی زبانی منظوری دے دیتا اور دوسرے ڈھیر کی فائلوں کو نامنظور کر دیتا۔اس دوران وہ کسی فائل کو کھول کر دیکھتا تک نہیں تھا۔اگلے دن اس کا سیکرٹری فائلوں پر فیصلے لکھتا اور لوگوں کو سنا دیتا۔دیوان جرمنی داس اپنی کتاب "مہاراجہ" میں یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس انصاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں بے گناہوں کو سزا ملی اور مجرم آزاد ہو گیے۔حکومت کے ریونیواور دیوانی مقدمات کا بھی یہی حشر ہوتا تھا ۔بعض مقدمات میں رقم لینے والوں کو الٹا رقم ادا کرنی پڑ جاتی تھی۔مہاراجہ کے اس اندازِ فراہمی انصاف نے عوام میں بے چینی پھیلا دی ۔چنانچہ وائسرائے کو حکمرانی کے مکمل اختیارات کے ساتھ ایک وزیر اعظم ریاست بھرت پور میں مقرر کرنا پڑا جس کے نتیجے میں مہاراجہ موصوف صرف نام کے حکمران رہ گئے ۔
اتوار، 16 جولائی، 2017
جمعہ، 14 جولائی، 2017
ذکر کچھ ایڈیٹر صاحبان کا ۔۔۔۔۔
ایڈیٹر " ریاست "دیوان سنگھ مفتون نے اپنی یادداشتوں میں کچھ ایڈیٹر صاحبان کا بھی بڑے شگفتہ انداز میں تذکرہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ بہت برس ہوئے میرٹھ سے ایک ہفتہ وار اردو اخبار " چنچل "جاری ہوا جو کبھی کبھی شائع کیا جاتا ۔"چنچل" کے ایڈیٹر صاحب کبھی کبھی ہمارے پاس "ریاست " کے دفتر بھی آیا کرتے ۔ایک روز آپ اپنے ایک دوست کے ہمراہ تشریف لائے ۔اور باتوں باتوں میں یہ ذکر ہوا کہ اگر " چنچل " کی بجائے اخبار کا کوئی اور ادبی یا سیاسی نام رکھ لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔میری اس بات کے جواب میں ایڈیٹر" چنچل "تو خاموش رہے لیکن ان کے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ،"دراصل بات یہ ہے کہ میرٹھ میں چنچل کماری نام کی ایک بہت خوبصورت پہاڑی طوائف رہتی ہے ۔چونکہ ایڈیٹر صاحب اس طوائف سے محبت کرتے ہیں ،لہٰذا صرف اس طوائف کو خوش کرنے کی خاطر جناب نے "چنچل " نام کا اخبار نکالا ہے ۔یہ سن کر میں بھی مسکرا دیا اور صرف اتنا کہا کہ ہاں انسان کو محبت کے لئے سب کچھ ہی کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دہلی کی ایک تقریب میں وزیر اعظم پنڈت نہرو شریک تھے ۔ایک طرف فوٹو گرافر وزیر اعظم کی تصاویر لینے میں مصروف تھے اور دوسری طرف تقریب میں شریک ہر شخص کی کوشش تھی کہ وہ پنڈت جی کے قریب کھڑا ہو تاکہ پنڈت جی کے ساتھ اس کی تصویر بھی اخبارات میں شائع ہو سکے ۔۔۔۔دہلی کے ایک اردو ماہنامے کے ایڈیٹر صاحب بھی اس تقریب میں موجود تھے ۔پنڈت جی کی واپسی سے پہلے جب ان کے ساتھ شرکا کا گروپ فوٹو بننے لگا تو ایڈیٹر صاحب بھی گروپ میں جا کھڑے ہوئے ۔تصویر بن گئی اور پنڈت جی واپس چلے گئے ۔،ایڈیٹر صاحب نے ایک فوٹو گرافر سے کہہ کر اس گروپ فوٹو میں صرف اپنی اور پنڈت نہرو کی فوٹو کے علاوہ باقی لوگوں پر سیاہی لگوا دی تاکہ فوٹو میں صرف پنڈت نہرو اور ایڈیٹر صاحب ہی نظر آئیں ۔۔۔۔۔۔۔سیاہی والا یہ فوٹو جب بلاک کی صورت میں ایڈیٹر صاحب کے رسالے میں شائع ہوا تو معاملہ پریس ایڈوائزر تک پہنچ گیاتاکہ ایڈیٹر صاحب پر جعلسازی کا مقدمہ چلایا جائے ۔لیکن مذکورہ ایڈیٹر صاحب صرف اس لئے بچ گئے کیونکہ سرکاری وکیل نے متعلقہ حکام کو رائے دی کہ اس تصویر کو بگاڑ کر شائع کرنا اگرچہ جعلسازی اور اخلاقی طور پر انتہائی شرمناک جرم ہے لیکن قانونی طور پر یہ جعلسازی قابل تعزیر نہیں ہے ۔۔۔لہٰذا ایڈیٹر صاحب کی کاریگری کا یہ معاملہ داخل دفتر کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ یہ مرض موجودہ دور کا ہے لیکن دیوان سنگھ مفتون کے بیان کردہ یہ واقعات پڑھ کر اندازہ ہوا کہ آج سے 60،70 برس پہلے بھی یار لوگ معروف شخصیات کے ساتھ اپنی تصویر بنوانے اور اخبارات میں چھپوانے کے لئے ہلکان ہوئے جاتے تھے ۔۔۔آج بھی کچھ دوست ہر مشہور شخصیت کے ساتھ بنوائی گئی تصویریں جیب میں رکھتے ہیں اور اپنی تسکین طبع کے لئے انہیں گاہے گاہے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں ۔بعض حضرات کی تصویریں دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ غالب کی طرح انہوں نے بھی نوحہ گر کی بجائے کرایے کا فوٹو گرافر ہمہ وقت ساتھ رکھا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعرات، 13 جولائی، 2017
بدھ، 12 جولائی، 2017
منگل، 11 جولائی، 2017
نيرنگي سياست دوراں
"راقم الحروف كے ايك سكه دوست ذاتي طور پر بهت دلچسپ اور لطيفه گو آدمي هيں ۔آپ لدهيانه ميں رهتے هيں اور پنجاب اسمبلي كے ركن ره چكے هيں۔آپ جب اليكشن ميں اميدوار كهڑے هوئے تو اپنے حلقے ميں گئے ۔اليكشن ميں صرف تين روز باقي تهے اور آپ پروپيگنڈا اور اپنا اثرورسوخ استعمال كرنے ميں بے حد مصروف تهے ۔كوئي اپنے ووٹ كي قيمت دس روپے اور كوئي ايك سو روپے طلب كرتا ۔كوئي شراب كي ايك بوتل پر هي مطمئن تها اور كوئي چاهتا تها كه ووٹ كي قيمت كے طور پر اميدوار اس كے مقدمے كے حق ميں تحصيلدار يا مجسٹريٹ سے سفارش كرئے ۔ليكن اسي مهم كے دوران ايك ووٹر نے عجيب مطالبه كيا ۔اس ووٹر كا كهنا تها كه اگر اميدوار سردار صاحب گانے كي ايك محفل منعقد كريں جس ميں كسي طوائف كو بلوايا جائے اور گانے كے علاوه وهاں شراب كا دور بهي چلے تو اس ووٹر كے زير اثر پچاس سے زائد ووٹر سردار صاحب كو ووٹ ديں گے ۔چنانچه " قهر ووٹر برجان اميدوار " كے مصداق سردار صاحب نے اسي روز اپنا ايك نمائنده فيروز پوربهيج كر وهاں سے مجرا كرنے والي ايك طوائف ساٹه روپے نقد اور ريل كا كرايه دے كر منگوائي ۔شراب كي ايك درجن بوتليں بهي منگوائي گئيں اور ووٹر صاحبا ن كي خوب دعوت كي گئي جس سے ووٹر بهت خوش هوئے ۔ان حالات كو ديكهتے هوئے مذكوره اميدوار نے اپنے ايك دوست سے كها كه ،" يه كم بخت ووٹر اگلے تين روز ميں جو بهي مطالبه كريں ،ميں اسے ضرور پورا كروں گا كيونكه يه لوگ ووٹ دينے تك اپنے آپ كو ميرا داماد سمجهتے هوئے مجه سے هر طرح كے جائز وناجائز مطالبات كئے جا رهے هيں ۔ مگر ميں اگلے پانچ برس تك ان كا داماد بنا رهوں گا اور ان كے ووٹ كے طفيل زياده سے زياده ذاتي مفاد حاصل كروں گا ۔اور بعد ميں ايسا هي هوا ۔سردار صاحب نے پيسه او ر هرطرح كے جائز و ناجائز ذرائع استعمال كركے اليكشن جيت ليا اور ركن اسمبلي منتخب هونے كے بعد ڈنكے كي چوٹ پر ليڈري كا لطف اٹهايا "۔۔۔اب اليكشن ميں كانگرس كے عروج و زوال كا بهي ايك دلچسپ قصه سن ليجے ۔انگريز كے زمانے ميں ايك اليكشن هوا جس ميں سيالكوٹ كے ايك حلقے سے كانگرس كا ايك ايسا اميدوار كهڑا هوا جو نه صرف دنياوي لحاظ سے بلكه قابليت كے لحاظ سے بهي ايك معمولي آدمي تها جبكه اس كے مقابلے ميں ايك رائے بهادر تهے جو خانداني رئيس اور اعلي تعليم يافته تهے ۔رائے بهادر كے حاميوں كا ايك وفد ووٹ مانگنے جب ايك شخص كے پاس پهنچا تو وفد كے ايك ممبر نے ترغيب كے طور پر كها كه كانگريسي اميدوار كے مقابلے ميں رائے بهادر بهت لائق آدمي هيں۔جس پر اس ووٹر نے جواب ديا كه رائے بهادر چاهے جتنے بهي لائق هوں مگر وه كانگرسي نهيں هيں اور هم تو كانگرس كے اميدوار كو ووٹ ديں گے ۔خواه كانگرس كسي بازاري كتے كو كيوں نه كهڑا كر دے ۔ليكن پهر وه ووٹ بهي آيا كه تقسيم هند كے بعد سيالكوٹ كا وهي آباد پرانا قلعه دهلي كے قريب آكر آباد هوا ۔ايك اليكشن ميں جب كانگرس كے لوگ اس كے پاس ووٹ كے لئے گئے تو اس نے كها ،"كانگرس كو ووٹ نهيں دوں گا ،چاهے كسي بازاري كتے كو ووٹ دينا پڑے "
(سردار ديوان سنگه مفتونؔ كي كتاب " سيف و قلم "كا ايك ورق )
(سردار ديوان سنگه مفتونؔ كي كتاب " سيف و قلم "كا ايك ورق )
پیر، 10 جولائی، 2017
فصلی بٹیرے
وه 1956 كا سال تها اور ملك ميں سكندر مرزا سياه و سفيد كے مالك تهے ۔ پاكستان ميں محلاتي سازشيں اور جوڑ توڑ کی سياست اپنے عروج پر تهي ۔خان عبدالغفار خان كے بهائي ڈاكٹر خان صاحب بهي سياست ميں خاصے متحرك تهے ۔سكندرمرزا نے اقتدار پر اپني گرفت مزيد مضبوط كرنے كے لئے ايك نئي سياسي جماعت بنانے كا فيصله كيا ۔باهمي مشورے كے بعد گورنر مغربي پاكستان نواب مشتاق گورماني كي تجويز اور سكندر مرزا كي تائيد پر ڈاكٹر خان صاحب نے 23اپریل 1956 کو ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کیا جس کا نام ری پبلکن پارٹی رکھا گیا ۔اگلا مرحلہ اس نئی پارٹی کو صوبے میں اقتدار دلانے کا تھا ۔لیکن اس سلسلے میں مسلم لیگ رکاوٹ تھی جو اس وقت کی مغربی پاکستان اسمبلی میں واضح اکثریت رکھتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ معروف محقق جناب سید عقیل عباس جعفری اپنی شہر ہ آفاق تحقیقی کتاب " پاکستان کے سیاسی وڈیرے " میں لکھتے ہیں کہ سکندر مرزا ،نواب گورمانی اور ڈاکٹر خان صاحب نے مسلم لیگ کو سرعام چت کرنے کا منصوبہ بنایا ۔اس سلسلے میں مسلم لیگ اور ری پبلکن کے مابین پہلا معرکہ 20 مئی 1956 کو نئی اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب کے موقعہ پر ہوا ۔مسلم لیگ کے امیدوار میر غلام علی تالپور اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار چوہدری فضل الہیٰ تھے ۔جب مقابلہ ہوا تو ری پبلکن پارٹی نے دھونس ،دھاندلی اور جوڑ توڑ سے اپنا امید وار کامیاب کرا لیا جبکہ مسلم لیگ کے میر تالپور ہار گئے ۔مسلم لیگ نے اس دھونس دھاندلی پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اگلے ہی روز ہائی کورٹ میں اس انتخاب کے خلاف انتخابی عذر داری دائر کر دی ۔مسلم لیگی رکن اسمبلی پیرزادہ عبد الستار اس کیس میں اپنی جماعت کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوئے ۔انہیں نے عدالت میں انتخابی عذر داری دائر کی ۔ہائی کورٹ سے نکل کر وہ سیدھے گورنر ہائوس پہنچے اور اور پھر یہ خبر بچی کچھی مسلم لیگ پر بجلی بن کر گری کہ سپیکر کے انتخاب کے خلاف انتخابی عذرداری میں ان کے وکیل اور رکن اسمبلی پیر زادہ عبدالستار نے ری پبلکن پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے ڈاکٹر خان صاحب کی کابینہ میں وزیر قانون و پارلیمانی امور کا قلمدان سنبھال لیا ہے ۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جب سکندر مرزا اور نواب گورمانی کے اشارہ ابرو پر پوری کی پوری اسمبلی راتوں رات ایڑی کے بل گھوم کر ری پبلکن پارٹی میں تبدیل ہو گئی تھی ۔فصلی بٹیروں کی طرف سے سیاسی چھتریاں بدلنے کے ایسے واقعات ہماری سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن ہمیں یہ واقعہ آج صبح تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری صاحب کو ٹی وی چینلز پر چہچہاتے دیکھ کر یاد آیا ۔۔۔۔۔۔یادش بخیر ابھی چند سال پہلے ہی قبلہ چوہدری صاحب جنرل(ر)پرویز مشرف کے ترجمان ہوا کرتے تھے ۔گجرات کے چوہدری برادران کی محبت کا دم بھرا کرتے تھے ۔لیکن جیسے ہی پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو چوہدری صاحب نے چھتری تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائی ۔2012میں جب پہلی بار اخبارات میں فواد چوہدری کے پرویز مشرف کو خیرباد کہنے کی خبر چھپی تو اپنے چیف ایڈیٹر صاحب کے حکم پر ہم نے چوہدری صاحب کا انٹرویو کیا ۔ہمیں ان کے کہے ہوئے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں کہ "چونکہ پاکستانی سیاست میں اب پرویز مشرف کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آرہا ،اس لئے میں نے اب پیپلز پارٹی کو جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ 2013کا جنرل الیکشن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین ہی ہو گا "اور پھر وہ پی پی کو پیارے ہو گئے ۔کچھ عرصہ پہلے انہوں نے عمران خان کی ترجمانی کی ڈیوٹی سنبھال لی ۔یقینی طور پر اب انہیں اگلے الیکشن میں تحریک انصاف بڑی پارٹی کی صورت میں نظر آرہی ہوگی کیونکہ پی پی کا تو پنجاب سے بوریا بستر اب گول ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھنا یہ ہے کہ اگر اگلے الیکشن میں بھی تحریک انصاف کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی اور عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب ایک بار پھر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو پھر چوہدری صاحب اپنے لیے کس نئی چھتری کا انتخاب کریں گے ۔
اتوار، 9 جولائی، 2017
بھرم
ایرانی بادشاہ نادر شاہ کو اس کی عسکری صلاحیتوں کی وجہ سے مورخین ایشیا کا نپولین اور سکندر ثانی بھی کہتے ہیں۔خراسان کے ایک خانہ بدوش گھرانے میں آنکھ کھولنے والے نادر شاہ نے محض اپنی دلیری ،بہادر ی اور عسکری صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایران کی بادشاہت حاصل کی ۔ایرانی بادشاہ طہماسپ دوم کی فوج میں ملازمت کے دوران جب نادر شاہ نے روس اور ترکی کے خلاف عسکری جوہر دکھائے تو اہل ایران نے انہیں اپنا نجات دہندہ خیال کرتے ہوئے تختِ ایران پر جلوہ افروز ہونے کی پیش کش کی.ثروت صولت نے اپنی کتاب "ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ "میں لکھا ہے کہ ایرانیوں کی اس درخواست پر نادر شاہ نے ان کے سامنے یہ مطالبہ رکھا کہ وہ جب تک خلفائے راشدین اور اصحاب رسول کے خلاف تبرا اور اہل سنت مسلمانوں کو ستانا بند نہیں کریں گے ،وہ ان کے ملک کی بادشاہت قبول نہیں کریں گے۔اہل ایران نے ان کا یہ مطالبہ قبول کیا جس کے بعد انہوں نے 1736میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا۔ ایک روایت کے مطابق نادر شاہ ایک روز کسی مسجد میں نماز عصر کے لئے وضو کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک گیند انہیں آ کر لگی ۔ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی طرف گیند پھینکنے کی جرات کس نے کی ہے کہ اسی اثنا میں ایک نوعمر بچہ بھاگتا ہوا آیا اور اپنی گیند اٹھا کر بھاگ گیا ۔بچے کی اس جرات پر نادر شاہ حیران رہ گیے کہ ایک چھوٹے سے بچے نے بھی بادشاہ کا خوف اپنے اندر محسوس نہیں کیا اور نہ بادشاہ سے معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔کہتے ہیں کہ اسی شام جہاں دیدہ نادر شاہ نے اپنے کسی قریبی ساتھی سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ "ایسے لگتا ہے کہ میرا وقتِ آخر آن پہنچا ہے ۔کیونکہ جب عوام کے دلوں سے حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ جاتا رہے تو پھر ان کا اقتدار زیادہ دیر باقی نہیں رہ رہتا ۔"۔۔۔۔روایت کے مطابق اس واقعے کے چند روز بعد ہی 1747 میں نادر شاہ کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات ان کے خیمے میں داخل ہو کر انہیں نیند کی حالت میں قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔ایک دوسری روایت کے مطابق کمیونسٹوں کے ہاتھوں روس کے آخری مطلق العنان زار نکولس دوم کی موت اگرچہ سرخ انقلاب کے ایک برس بعد ہوئی لیکن مورخین کہتے ہیں کہ زار کا انتقال دراصل اسی روز ہو گیا تھا جب انقلاب کا طبل بجتے ہی زار نے دیکھا کہ بدتمیز مزدور اور کسان شاہی محل میں زبردستی گھسنے کے بعد قالین پر کیچڑ بھرے جوتوں کے ساتھ چل رہے ہیں ۔فی الحال ہمیں ان دونوں روایتوں کے مصدقہ یا غیر مصدقہ ہونے کی بحث میں الجھنے کی بجائے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ان دونوں روایتوں کے اندر بلاشبہ عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو تین روز پہلے حویلی بہادر شاہ میں خطاب کرتے وزیر اعظم کا سُتا ہوا چہر ہ دیکھا جس پر پریشانی کی پرچھائیں صاف دکھائی دے رہی تھی ۔ہفتے کی شام چار وفاقی وزیروں کا اکٹھے ہو کر دھواں دھار پریس کانفرنس کرنا بھی اس امر کی علامت تھی کہ کہیں اندرون خانہ آگ لگی ہوئی ہے جس کا دھواں اس پریس کانفرنس میں بھی اڑ رہا ہے ۔۔۔۔علاوہ ازیں ٹی وی ٹاک شوز میں سرشام سیاسی تجزیہ کرتے ہوئے شریف فیملی کی تعریف اور حمایت میں رطب اللسان رہنے والے کچھ سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ایک دور روز سے بدلا بدلا سا لہجہ بھی یہ احساس دلا رہا ہے کہ شاید ان صحافتی پنڈتوں کو بھی ہوا کا رخ بدلنے کی خبر مل گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے لگتا ہے کہ نواز شریف ،شہباز شریف ،حسن ،حسین ،مریم اور اسحا ق ڈار کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد حکمران فیملی کے حاکمانہ دبدبے اور رعب کا بھرم کچھ ٹوٹ سا گیا ہے ،اس لیے نادر شاہ کے تجزیے کے مطابق نہ جانے کیوں ایسے لگ رہا ہے کہ اب جی کا ٹھہر گیا ہے ،صبح گیا یا شام گیا ۔۔۔۔۔
ہفتہ، 8 جولائی، 2017
طولِ شبِ فراق
روایت مشہور ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین احمد اور بانی خاکسار تحریک علامہ عنایت اللہ المشرقی ایک مجلس میں اکٹھے بیٹھے تھے ۔ علامہ صاحب کا علم ریاضی میں بڑا نام تھا ،دوسری طرف ڈاکٹر ضیاالدین احمد کو بھی اسی علم کا بڑا ماہر خیال کیا جاتا تھا ۔سو علامہ صاحب نے انہیں چھیڑتے ہوئے فرمایا،۔۔ارے پروفیسر صاحب !کئی روز سے ایک عجب مسئلے نے ہمیں الجھا رکھا ہے ۔چونکہ مسئلہ ریاضی کا ہے جس کے آپ بھی بڑے ماہر ہیں ،اس لئے ذرا رہنمائی تو فرمائیے ۔اتنا کہہ کر علامہ صاحب نے یہ شعر پڑھا ،
شہرہ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے
ڈاکٹر ضیاالدین احمد نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ،
طولِ شب ِ فراق جو ماپا گیا حضور
نکلا وہ زلف ِ یار سے دو چار ہاتھ کم
حسن اتفا ق سے رئیس المتغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی بھی اسی مجلس میں تشریف فرما تھے ۔انہوں نے دونوں بزرگوں کی اس ادبی بحث کو سنتے ہی اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ،
طول ِ شب ِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں پہلے زمیندار کالج گجرات کی لائبریری سے مستعارلی گئی ایک کتاب میں ہم نے یہ قصہ پڑھا تھا کہ مراد آباد میں ایک طرحی مشاعرے کا بڑا چرچا تھا ۔ہر سال وہ مشاعرہ ہوتا جس میں ایک مصرعہ دیا جاتا جس پر شعرا اپنے اپنے ذوق کے مطابق غزل کہتے ۔ایک سال اس مشاعرے کے لئے یہ مصرعہ دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ رہی ہے چمن سے بوئے کباب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بزرگ شاعر صبح کی سیر کرتے ہوئے دھیمی آواز میں مسلسل اس مصرعے کو دہرا رہے تھے لیکن دوسرا مصرعہ ان سے بن نہیں پا رہا تھا ۔باغ کی روش پہ چلتے چلتے انہوں نے ایک بار جب یہی مصرعہ ذرا بلند آواز میں دہرایا تو قریب سے گزرنے والے ایک نوعمر بچے نے جھٹ سے پلٹ کر کہا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کسی بلبل کا دل جلا ہو گا ۔۔۔۔۔۔لیجے شعر مکمل ہو گیا۔بزرگ شاعر نے بھاگ کے بچے کو جا پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور نام پوچھا تو اس نے بتایا ،" علی سکندر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی علی سکندر نے بعد ازاں جگر مرادآبادی کے نام سے شاعری کی دنیا پر راج کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ جگرؔ اپنی ابتدائی زندگی میں شراب بہت پیتے تھے ۔اسی لئے جب ایک نعتیہ مشاعرہ میں انہیں بھی نعت پڑھنےکی دعوت دی گئی تو کچھ لوگوں نے اس پر بڑی ناک بھوں چڑھائی کہ دیکھو میاں،وہ شرابی بھلا کیا نعت پڑھے گا ۔دوسری طرف جگر کے لئے بھی امتحان تھا کہ انہیں اپنی رندی کا بھی احسا س تھا اور یہ بھی خبر تھی کہ انہیں کس بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،اس لئے وہ کانپ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاجاتا ہے کہ اس مشاعرے کے لئے انہوں نے جو نعت لکھی ،اس نے بھی ان کی زندگی میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔راوی کے مطابق وہ نعت مندرجہ ذیل تھی ،
ایک رند ہے اور مدحت ِ سلطان مدینہ
بس ایک نظر ِ رحمت سلطان مدینہ
اے خاک مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطان مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظر دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم ،یاد خدا اور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امتِ عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِ سلطان مدینہ
شہرہ بہت سنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے
ڈاکٹر ضیاالدین احمد نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا ،
طولِ شب ِ فراق جو ماپا گیا حضور
نکلا وہ زلف ِ یار سے دو چار ہاتھ کم
حسن اتفا ق سے رئیس المتغزلین حضرت جگرؔ مرادآبادی بھی اسی مجلس میں تشریف فرما تھے ۔انہوں نے دونوں بزرگوں کی اس ادبی بحث کو سنتے ہی اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ،
طول ِ شب ِ فراق سے گھبرا نہ اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔
مدتوں پہلے زمیندار کالج گجرات کی لائبریری سے مستعارلی گئی ایک کتاب میں ہم نے یہ قصہ پڑھا تھا کہ مراد آباد میں ایک طرحی مشاعرے کا بڑا چرچا تھا ۔ہر سال وہ مشاعرہ ہوتا جس میں ایک مصرعہ دیا جاتا جس پر شعرا اپنے اپنے ذوق کے مطابق غزل کہتے ۔ایک سال اس مشاعرے کے لئے یہ مصرعہ دیا گیا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آ رہی ہے چمن سے بوئے کباب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بزرگ شاعر صبح کی سیر کرتے ہوئے دھیمی آواز میں مسلسل اس مصرعے کو دہرا رہے تھے لیکن دوسرا مصرعہ ان سے بن نہیں پا رہا تھا ۔باغ کی روش پہ چلتے چلتے انہوں نے ایک بار جب یہی مصرعہ ذرا بلند آواز میں دہرایا تو قریب سے گزرنے والے ایک نوعمر بچے نے جھٹ سے پلٹ کر کہا ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضرور کسی بلبل کا دل جلا ہو گا ۔۔۔۔۔۔لیجے شعر مکمل ہو گیا۔بزرگ شاعر نے بھاگ کے بچے کو جا پکڑا ۔۔۔۔۔۔۔شفقت سے سر پہ ہاتھ پھیرا اور نام پوچھا تو اس نے بتایا ،" علی سکندر "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی علی سکندر نے بعد ازاں جگر مرادآبادی کے نام سے شاعری کی دنیا پر راج کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ جگرؔ اپنی ابتدائی زندگی میں شراب بہت پیتے تھے ۔اسی لئے جب ایک نعتیہ مشاعرہ میں انہیں بھی نعت پڑھنےکی دعوت دی گئی تو کچھ لوگوں نے اس پر بڑی ناک بھوں چڑھائی کہ دیکھو میاں،وہ شرابی بھلا کیا نعت پڑھے گا ۔دوسری طرف جگر کے لئے بھی امتحان تھا کہ انہیں اپنی رندی کا بھی احسا س تھا اور یہ بھی خبر تھی کہ انہیں کس بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی دعوت دی گئی ہے ،اس لئے وہ کانپ کانپ جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاجاتا ہے کہ اس مشاعرے کے لئے انہوں نے جو نعت لکھی ،اس نے بھی ان کی زندگی میں تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔راوی کے مطابق وہ نعت مندرجہ ذیل تھی ،
ایک رند ہے اور مدحت ِ سلطان مدینہ
بس ایک نظر ِ رحمت سلطان مدینہ
اے خاک مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت سلطان مدینہ
اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت
دیکھوں میں درِ دولتِ سلطان مدینہ
اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظر دید
صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ
کونین کا غم ،یاد خدا اور شفاعت
دولت ہے یہی دولتِ سلطان مدینہ
ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطان مدینہ
اس امتِ عاصی سے نہ منھ پھیر خدایا
نازک ہے بہت غیرتِ سلطان مدینہ
کچھ ہم کو نہیں کام جگرؔ اور کسی سے
کافی ہے بس اک نسبت ِ سلطان مدینہ
جمعہ، 7 جولائی، 2017
Very Clever ,Cunning And Faithful Dog
ایک سنیئر تجزیہ کار کا یہ خیال ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب میں ان کے نشانے کی تعریفیں کرنے والے اور اس کو عزت و احترام کے ساتھ امریکہ بھیجنے کا بندوبست کرنے والے حکام کی پھرتیوں کی تفصیلات پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہر بندہ تین پاکستانیوں کے قاتل اس امریکی جاسوس سے تفتیش کرنے کی بجائے اپنا گرین گارڈ پکا کرنے ،ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ میں نوکری حاصل کرنے یا پھر اپنے بچوں کے لئے کسی امریکی یونیورسٹی سے سکالرشپ حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھا ۔لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی اپنے ان دیسی "خدام""کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گورے حاکم نے کم و بیش سو برس تک ہم پر حکومت کی ۔اس دوران انہوں نے اپنے اور مقامی لوگوں کے مابین ایک فاصلہ برقرار رکھا۔حتیٰ کہ برصغیر میں گورے حاکم کے اقتدار کو مضبوط کرنے والا دیسی جاگیردارطبقہ بھی جب 31دسمبر کی شب ہیپی نیو ایئر کی مبارک دینے اپنے اپنے ضلع کے گورے ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی پر حاضر ہوتا تو صاحب بہادر انہیں شرف دیدار بخشنے کی بجائے نوکر کے ذریعے کہلوا دیتا کہ صاحب تک ان کا سلام پہنچ گیا ہے ۔برصغیر کے ممتاز اخبار نویس سردار دیوان سنگھ مفتون اپنی یادداشتوں کے مجموعے "سیف و قلم " میں لکھتے ہیں کہ انگریز کو ہم ہندوستانیوں سے صرف اتنا سا تعلق ہے کہ جب اسے ہماری ضرورت ہو تو وہ ہمیں اپنے قریب بلاتا ہے اور کام نکل جانے کے بعد وہ ہمیں اپنے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔اپنے اس دعوے کے حق میں انہوں نے بطور دلیل ایک "عبرتناک "واقعہ بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مرحوم قاضی عزیز الدین احمد تقسیم ہند سے قبل کی ان ہندوستانی شخصیات میں سے تھے جنہیں گورے حاکم اور ہندوستانی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کی خاصی قربت حاصل تھی ۔قاضی صاحب سیلف میڈ آدمی تھے ۔انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز نائب تحصیلدار کی حیثیت سے کیا ۔بے حد محنتی ،وضعدار،اصول پسند اور قابل آدمی تھے۔سرکاری ملازمت میں ترقی کرتے کرتے پہلے تحصیلدار اور پھر ڈپٹی کلکٹر کے عہدے تک پہنچے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ریاست دھولپور اور ریاست دتیا کے وزیر اعظم بھی رہے ۔نظام دکن ،نواب آف بہاولپور ،مہاراجہ پٹیالہ اور مہاراجہ بیکانیر سمیت متعدد والیان ریاست کی خواہش تھی کہ قاضی صاحب ان کے ساتھ بطور وزیر اعظم کام کریں۔لیکن قاضی صاحب نے ان والیان ریاست سے معذرت کرلی کیونکہ ان والیان کے ساتھ ان کے گہرے ذاتی دوستانہ تعلقات تھے اور دوستوں کے ہاں ملازمت کرنے کو وہ اصولاً نامناسب خیال کرتے تھے ۔مفتونؔ کے بقول ،"قاضی صاحب بے حد مخلص ،ایماندار ،انگریزوں کے خیر خواہ اور دلداہ تھے ۔میں نے اپنی زندگی میں ہندوستانیوں میں سے کوئی ایسا دوسرا شخص نہیں دیکھا جو قاضی صاحب سے زیادہ انگریزوں کا مخلص اور بے ریا دوست ہو ۔"لیکن گورا حاکم قاضی صاحب کے بارے میں کیا رائے رکھتا تھا ،اس سلسلے میں انہوں نے خود ایک واقعہ مفتونؔ کو سنایا ۔۔۔۔۔۔قاضی سر عزیز الدین احمد مراد آباد میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے ۔ان کا انگریز کلکٹر انڈین سول سروس کا ممبر تھا۔مراد آباد کی پوسٹنگ کے دوران ہی جب انگریز کلکٹر تین ماہ کی رخصت پر لندن گیا تو قاضی صاحب کو اس کی جگہ تین ماہ کے لیے قائم مقام کلکٹر مقرر کیا گیا۔انگریز کلکٹر نے رخصت پر جانے سے پہلے قاضی صاحب کو کلکٹر آفس کا چارج دیتے ہوئے اپنی کوٹھی کی اس آہنی الماری کی چابیاں بھی دیں جس میں افسران کی سروس بکس رکھی ہوئی تھیں۔قاضی صاحب کو کلکٹری کا چارج لئے قریباً ایک ماہ ہو چکا تھا کہ ایک روز بیٹھے بیٹھائے انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنی سروس بک بھی دیکھیں کہ ان کے بارے میں ان کے سیئر انگریز افسران گاہے گاہے کیا ریمارکس لکھتے رہے ہیں۔قاضی صاحب نے اس کانفیڈینشل الماری کو کھولا اور اس میں سے اپنی سروس بک نکال کر پڑھنے لگے ۔بعض انگریز کلکٹر اورکمشنر صاحبان نے اپنے ریمارکس میں انہیں بے حد شریف ،ایماندار ،انگریزوں کے انتہائی مخلص اور وفاشعار قرار دیا ۔لیکن ایک انگریز کلکٹر نے قاضی صاحب کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ،،،،،،،،،
"very clever ,cunning and faithful dog"
(بہت چالاک ،ہوشیار اوروفادار کتا)
مفتونؔ کے بقول اپنے بارے میں انگریز کلکٹر کے یہ ریمارکس پڑھ کر قاضی سر عزیز الدین احمد ہکا بکا رہ گیے کہ گورے حاکم کے ساتھ ان کی محبت اور وفاشعاری کا صلہ انہیں کن الفاظ کے ساتھ دیا گیا۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کو سزا دلوانے کی بجائے اسے عزت و احترام سے امریکہ بھجینے والے قاضیوں کو خبر ہو کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اور خیالات تبدیل نہیں ہوتے ۔
"very clever ,cunning and faithful dog"
(بہت چالاک ،ہوشیار اوروفادار کتا)
مفتونؔ کے بقول اپنے بارے میں انگریز کلکٹر کے یہ ریمارکس پڑھ کر قاضی سر عزیز الدین احمد ہکا بکا رہ گیے کہ گورے حاکم کے ساتھ ان کی محبت اور وفاشعاری کا صلہ انہیں کن الفاظ کے ساتھ دیا گیا۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کو سزا دلوانے کی بجائے اسے عزت و احترام سے امریکہ بھجینے والے قاضیوں کو خبر ہو کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اور خیالات تبدیل نہیں ہوتے ۔
ممبئي ميں حقه
شاعر مشرق علامه محمد اقبال ؒ كا حقه بهي بهت مشهور تها۔1931ميں جب وه ممبئي كے دورے پر تشريف لے گئے تو روانگي سے قبل انهوں نے اپني آمد كي اطلاع دينے كے لئے خلافت كميٹي كے مقامي ذمه داران كو ايك تار ارسال كيا جس ميں بتايا گيا كه علامه صاحب اگلي صبح ممبئي تشريف لا رهے هيں۔تار موصول هوتے هي خلافت كميٹي كے صدر دفتر خلافت هائوس ممبئي ميں خوشي كي لهر دوڑ گئي ۔دلچسپ بات يه هے كه علامه صاحب نے تار ميں اپنے ميزبانوں كو اپني آمد كي اطلاع دينے كے علاوه حقه تيار ركهنے كي هدايت بهي فرمائي تهي۔اب مسئله يه تها كه علامه صاحب حقے كے بے حد شوقين اور خلافت كميٹي ممبئي كے مقامي رهنما حقے سے ناآشنا۔سو حقے كي دستيابي خلافت كميٹي والوں كے ليے اچها خاصا مسئله بن گئي ۔خير علامه صاحب كي تشريف آوري سے پهلے هي حقے كي تلاش شروع هو گئي ۔ايك جهونپڑي والے سے منت سماجت كركے چلم حاصل كي گئي ۔بڑي خوشامد كے بعد ايك هوٹل والے سے حقے كي نَے اور نيچه ليا گيا۔ايك صاحب نے تمباكو فراهم كر ديا ۔الغرض علامه كي آمد سے قبل خلافت هائوس والوں نے حقے كے تمام اجزائے تركيبي اِدهر اُدهر سےاكٹهےكركے حقه تيار كر هي ليا ۔علامه تشريف لائے تو جهٹ سے حقه ان كي خدمت ميں پيش كيا گيا ۔انهوں نے حقے كي نَے هاته ميں لي ،درمياني حصے كو چهوا تو فرمايا كه ،ارے آپ لوگوں نے حقه تازه تو كيا هي نهيں۔بے چارے خلافت هائوس والوں كے هاته پير پهول گئے كه كيا حقه تازه بهي هوتا هے ۔اسي اثنا ميں حاضرين ميں سے كسي نے حقه اٹهايا اور "تازه" كرنے كے لئے صحن ميں لگے نل كے نيچے ركه ديا ۔پاني پڑتے هي چلم ميں سے شعله بهڑكا ،آگ بجهي اور تمباكو سميت راكه بهه گئي ۔علامه صاحب معاملے كو سمجه گئے ۔تهوڑي دير بعد خود نل پر تشريف لائے ۔ميزبانوں كو حقه تازه كرنے كے چكر ميں چلم ،تمباكو اور آگ سے الجهے ديكها تو بهت هنسے اور فرمايا كه ،معلوم هوتا هے كه آپ ميں سے كسي كو حقه بهرنے كي تميز اور اس كي لطافت كا ذوق نهيں هے ۔يه تو بڑي كمي هے ،جبهي تو يك ناله مستانه ز جائے نه شنيدم ۔۔۔۔۔۔ايك ناله مستانه هے كه كسي طرف سنائي نه ديا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔1931ميں شاعر مشرق كي خلافت هائوس ممبئي ميں يه تشريف آوري اور حقه تازه كرنے كا يه قصه خلافت هائوس والوں كومدتوں ياد رها ۔
(ڈاكٹر نديم شفيق ملك كي كتاب " علامه اقبال كي تابنده ياديں " كا ايك ورق )
(ڈاكٹر نديم شفيق ملك كي كتاب " علامه اقبال كي تابنده ياديں " كا ايك ورق )
جمعرات، 6 جولائی، 2017
دو متضاد رویے
جب سے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی خود نوشت منظر عام پر آئی ہے ،ہمیں ڈاڑھی اور پگڑی والا وہ خوبصورت شخص بہت یاد آ رہا ہے جسے دنیا ملا عبد السلام ضعیف کے نام سے جانتی ہے ۔اس افغان حکومت کا سفارتکار جسے 1947 کے بعد کابل میں بننے والی پہلی پاکستان دوست حکومت کہا جاتا ہے ۔ایک ایسی حکومت جس کا قلندر صفت حکمران اپنے ساتھیوں کو یہ تاکید کیا کرتا تھا کہ اگر کبھی پاکستان اور افغانستان پر بیک وقت کڑا وقت آجائے تو تم لوگ افغانستان کی فکر چھوڑ دینا اور پاکستان کے دفاع کے لئے لڑنا کہ وہ ہمارا استاد گھرانہ ہے ۔ایک ایسی حکومت جس کے چھ سالہ دور میں حکومت پاکستان کو پاک افغان بارڈر پر نگرانی کے لئے اپنی فورس کھڑی کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی ۔ایک ایسی حکومت جس نے افغانستان کو اسلحے ،پوست اور جرائم سے پاک کرنے کا خواب سچ کر دکھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک ایسی حکومت جس کو صرف اس لئے ختم کیا گیا کہ اس کے حاکم کا یہ جرم تھا کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔نائن الیون اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد جب ہوا ئوں کا رخ بدلا ،پرویز مشرف کی طرف سے قوم کو"سب سے پہلے پاکستان"کا چورن دیا گیا ،تو اس وقت پاکستان دوست افغان حکومت کے عزت مآب سفیر محترم ملا عبد السلام ضعیف کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ،اس کی تفصیل ان کی خودنوشت میں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتاہے ۔۔۔۔۔۔۔سفارتکاروں کو ہر دور میں احترام حاصل رہا ہے ۔کسی ملک کی طرف سے سفارتکاروں کے ساتھ کی گئی بدسلوکی پر جنگیں چھڑ جایا کرتی تھیں۔لیکن پرویز مشرف کے عہد سیاہ میں افغان سفیر کو اپنے ہاتھوں امریکیوں کے حوالے کیا گیا ۔امریکی اہلکاروں نے پاکستانی افسران کے سامنے ملاصاحب کو برہنہ کرکے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت "مائی لائف وِد دی طالبان" میں کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوسری طرف ایک امریکی جاسوس پلس ٹھیکیدار ہے جس نے دن دیہاڑے لاہور کی ایک مصروف شاہراہ پر فائرنگ کرکے دو پاکستانی نوجوانوں کو قتل کر ڈالا ۔اس کو بچانے کے لئے آنے والی امریکی قونصل خانے کی گاڑی نے ایک تیسرے پاکستانی کو بھی کچل ڈالا ۔لیکن وہ امریکی جاسوس عزت و احترام کے ساتھ اپنے ملک واپس چلا گیا ۔اسے سزا دینے کی بجائے پاکستانی افسران اس کے بہترین نشانے کی تعریفیں کرتے رہے ۔اس کو عزت و احترام کے ساتھ واپس بھیجتے ہوئے پاکستانی ارباب بست و کشاد میں سے کسی کی بھی رگ حمیت نہ پھڑکی ۔حکمران طاقتوں کا یہ وہ متضاد رویہ ہےجو اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اگرچہ 1947میں ہم نے جسمانی طور پر گورے حاکم سے آزادی حاصل کر لی لیکن ذہنی طورپر آج بھی ہم اسی کے غلام ہیں۔ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے کئی مقدس چہروں پر پڑے ہوئے نقاب نوچ ڈالے ہیں۔اب خواہ کسی کی طرف سے اس کی کوئی بھی تاویل پیش کی جائے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ہم نے پاکستان دوست ملاعبد السلام ضعیف کو تو ہتھکڑیاں لگا کر امریکیوں کے حوالے کر دیا اور پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا ۔۔۔۔۔۔دیکھنا ! کہیں آنے والے دنوں میں شکیل آفریدی اور کلبھوشن یادو کو بھی اسی طرح عزت و احترام کے ساتھ دہلی اور واشنگٹن روانہ نہ کر دیا جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کا نچوڑ یہی ہے کہ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس صد افسوس
تاریخی و فکری بددیانتی
ہر سال پانچ جولائی آتے ہی ہمارے لبرلر اور سیکولر حلقے "یوم سیاہ "کا نعرہ لگا کر شہید جنرل ضیاالحق پر تبرا بازی شروع کردیتے ہیں۔دہائی یہ دی جاتی ہے کہ جنرل نے ایک منتخب حکومت پر شب خون مار کر بدترین آمریت کی بنیاد رکھی تھی ۔اس کے ساتھ ہی جنرل ضیا کے "شخصی اوصاف "کا طنزیہ انداز میں تذکرہ شروع ہو جاتا ہے ۔کوئی انہیں چاپلوس اورخوشامدی کہتا ہے ۔کوئی محسن کش کے لقب سے نوازتا ہے ۔کسی کو وہ چنگیز اور ہلاکو سے بھی بڑے ظالم نظر آتے ہیں۔کوئی انہیں جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن قراردیتا ہے ۔بعض بزرجمہر انہیں ملک میں جاری دہشت گردی کا بانی کہتے نہیں تھکتے۔۔.....لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ضیا کو ملاحیاں سنانے والے یہ نام نہاد دانشور دراصل تاریخی و فکری بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہ لوگ چاپلوسی ،محسن کشی ،ظلم و تشدد اور جمہوریت دشمنی کی تاریخ جنرل ضیا سے شروع کرتے ہیں۔حالانکہ وطن عزیز میں چاپلوسی ،محسن کشی ،ظلم و تشدد اور جمہوریت دشمنی کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں جمہوریت پر شب خون صرف جنرل ضیا نے ہی مارا تھا۔ملکی تاریخ ہمیں اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے ۔یہاں جنرل ایوب اور جنرل پرویز مشرف نے بھی جمہوریت کی بساط لپیٹی تھی ۔جنرل یحیحیٰ بھی مارشل لا حکمران رہے ۔لیکن ہمارے لبرل دانشوروں کی سار ی تان جنرل ضیا پر ہی آن کر ٹوٹتی ہے ۔۔۔۔آخر کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دانشور دیگر طالع آزمائوں سے صرف نظر کیوں کرتے ہیں؟۔۔۔کیا صرف اس لیے کہ جنرل ضیا اسلام پسند آدمی تھے ۔دین سے محبت رکھتے تھے ۔اس لیے ان کا نام آج تک سیکولر و لبرل حلقوں کو چھبتا ہے ۔جہاں تک چاپلوسی و خوشامد کا تعلق ہے تو ہم دور کیوں جائیں ،اپنے بھٹو صاحب کی ہی مثال لے لیجئے ۔انہوں نے میر جعفر کے پڑپوتے سکندر مرزا کی انگلی پکڑ کر ایوان ہائے اقتدار کی غلام گردشوں میں قدم رکھا ۔اور پھر خوشامد اور چاپلوسی کے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ سکندر مرزا کے نام اپنے ایک خط میں انہیں قائد اعظم سے بھی بڑا لیڈر قرار دے دیا لیکن جیسے ہی جنرل ایوب نے ڈنڈے کے زور پر سکندرمرزا اور ان کی بیگم ناہید مرزا کو لندن کی راہ دکھائی تو بھٹو نے بھی سکندر مرزا کی طرف سے آنکھیں پھیرنے میں دیر نہ لگائی کیونکہ اب ان کے "ڈیڈی " جنرل ایو ب تھے ۔ایوب کے مارشلائی دور میں انہوں نے کئی وزارتوں کو انجوائے کیا۔بعد میں خود بھی موصوف سول مارشل ایڈمنسٹریٹر رہے لیکن اس کے باوجود وہ آج بھی جمہوریت کے خادم اور چیمپئین ہیں۔اور اس سے بڑی محسن کشی اور کیا ہوگی کہ جب جنرل ایوب پر مشکل وقت آیا تو انہی بھٹو صاحب نے معاہدہ تاشقند کا پاکھنڈ رچا کر ان کی کمر میں چھرا گھونپنے میں دیر نہ لگائی ۔کیا جنرل ضیا کو صبح و شام گالیاں بکنے والے نام نہاد دانشور بھٹو صاحب کی محسن کشی کی اس تاریخ کو پڑھنا پسند کریں گے ۔۔۔۔۔۔اب ذرا آگے چلیے ۔۔۔۔۔آپ دلائی کیمپ کو بھی چھوڑ دیجیے ۔۔۔۔۔بھٹو صاحب اپنے دور میں اپوزیشن کے ساتھ کیا سلوک کرتے رہے ،اس کا ذکر بھی جانے دیجئے ۔ان کی فیڈرل سکیورٹی فورس بھٹو کے مخالفین کی "منجی پیڑھی " ٹھوکنے کے لیے کیا کیا سفاکانہ حربے اختیار کرتی تھی ۔۔۔۔۔اس موضو ع کو بھی کسی اگلی نشست کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش یہ دانشور صرف اتنا ہی بتا دیں کہ بھٹو صاحب اپنی پارٹی کے اندر اختلاف رائےکی جرات کرنے والے اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا کرتے تھے ۔جے رحیم ۔معراج محمد خان ،اور دیگر کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔کہ معراج محمد خان جب جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے اپنے سابق قائد بھٹو کو "میکاولی کی بدروح" قرار دیا تھا ۔جنرل ضیا کے کوڑوں پر آنسو بہانے والے قوم کو یہ بتاتے ہوئے کیوں شرماتے ہیں کہ بھٹو دور میں دائیں بازو کے صحافیوں ،اخبارات و جرائد کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا تھا۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو ہمارے یہ فکری طور پر بانجھ دانشور منہ دھو رکھیں ۔افغانستان میں مداخلت بھٹو کا فیصلہ تھا ۔جب افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت بڑھنے لگی تو کچھ افغان رہنما پاکستان چلے آئے تو بھٹو نے ان سے ملاقات کے بعد اس وقت کے ڈی جی ایف سی جنرل نصیر اللہ بابر اور کرنل امام کو ہدایت کی تھی کہ انہیں چراٹ سینٹر میں عسکری تربیت دی جائے ۔،،۔۔۔۔واضح رہے کہ یہ تربیت لینے والے کوئی عام افغان خانہ بدوش نہیں بلکہ احمد شاہ مسعود ،حکمتیار اور ربانی جیسے بڑے لوگ تھے ۔واضح رہے کہ یہ بات کرنل امام نے ہمیں نومبر 2009میں ایک انٹرویو کے دوران خود بتائی تھی ۔جنرل ضیا نے تو بھٹو کی اس پالیسی کو جاری رکھنے کا گناہ کیا تھا۔افسو س یہ ہے کہ ہمارے لبرلر و سیکولر دوست جھوٹ بولنے اور منافقت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔یہ صرف اپنے مطلب کی بات لکھتے اور بولتے ہیں لیکن پورا سچ نہیں بولتے ۔ایسے ہی نام نہاد دانشوروں کی وجہ سے سندھ کی حالت آج تک نہیں بدلی اور وہ آج بھی زرداری جیسے کرپٹ عناصر کے تسلط میں ہے ۔ہمارے دوست عاطف بٹ نے بالکل درست کہا کہ ضیا کے تلوے چاٹنے والے بھی اب پانچ جولائی کو یوم سیاہ مناتے ہیں جس کی ایک تازہ ترین مثال ایک معروف انگریزی اخبار بھی ہے ۔
بدھ، 22 مارچ، 2017
منگل، 21 مارچ، 2017
بدھ، 15 مارچ، 2017
پیر، 13 مارچ، 2017
ہفتہ، 11 مارچ، 2017
جمعہ، 10 مارچ، 2017
جمعرات، 9 مارچ، 2017
بدھ، 8 مارچ، 2017
منگل، 7 مارچ، 2017
کپتان کے " میٹھے" بول
ایک فقیر صبح سویرے اپنا کشکول لیے حسب معمول گھر سے نکلا ۔وہ جس دروازے پر بھی دستک دیتا ،جواباً اسے خیرات میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا کیونکہ یہ اس دور کا قصہ ہے جب لوگوں کے دل بہت بڑے اور وسیع ہوا کرتے تھے ۔وہ رہتے اگرچہ کچے گھروں میں تھے لیکن ان کے اندر اک دوجے کا احساس بہت زیادہ تھا ۔ابھی رشتوں کا تقدس اور احترام باقی تھا ابھی یہ احساس باقی تھا کہ اگر گھر کے دروازے پر کھڑا کوی حاجت مند اللہ کے نام پر سوال کرے تو اسے خالی واپس نہیں لوٹانا چاہیے ۔گھر کی بزرگ خواتین گھر میں پکنے والے دو وقت کے کھانے میں پنڈ کے کسی غریب مسکین کا حصہ ضرور رکھتی تھیں تاکہ رزق میں بھی برکت رہے اور صدقہ خیرات بھی نکلتا رہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس صدقہ خیرات کے اشتہار نہیں لگاے جاتے تھے بلکہ یہ سارا عمل خاموشی سے ہوتا تاکہ حاجت مند کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔اورہاں ابھی فقیر کو دھتکارنے کا رواج نہیں تھا۔اس فقیر کو بھی کہیں سے آٹا ملا ۔کسی نے اناج کی ایک مٹھی کشکول میں ڈال دی ۔کسی نے پانی یا لسی پلا ی اور کسی نے صرف دعا دیتے ہوے دوبارہ آنے کی تاکید کی ۔چلتے چلتے آدھا دن گزر گیا ۔ادھر سورج ڈھلنے لگا،ادھر فقیر کی بھوک چمکنے لگی ۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے ایک دروازے پر دستک دی ۔بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا تو فقیر بولا،"اماں روٹی کھانی ہے ۔میرے پاس آٹا تو ہے لیکن روٹی کیسے پکاوں "۔بوڑھی اماں نے اسے اندر بلالیا کہ لاو میں تمہیں روٹی پکا دیتی ہوں۔اماں نے آٹا پرات میں ڈالا اور اسے گوندھنے کی تیاری کرنے لگیں ۔فقیر بھی چولہے کے قریبی رکھی پیڑ ھی پر بیٹھ گیا۔اماں ابھی آٹے میں پانی ہی گھول رہی تھیں کہ فقیر کی نظر صحن میں بندھی بھینس اور اس کے اردگرد پھدکتی چھوٹی سی کٹی {بھینس کا مادہ بچہ }پر جا پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقیر کو نجانے کیا سوجھی کہ بولا۔اماں کیا تمہاری بھینس نے سجرا بچہ دیا ہے ۔اماں نے کہا کہ ہاں ہماری بھینس نے دو روز پہلے ہی کٹی دی ہے ۔۔۔۔۔۔فقیر بولا کہ اماں اگر تمہاری بھینس مر جاے تو پھر یہ دو دن کی کٹی کیا کرے گی ۔۔۔۔۔۔اماں کو فقیر کا یہ احمقانہ سوال اچھا تو نہ لگا لیکن انہوں نے اسے ڈانٹنے کی بجاے نرمی سے صرف اتنا ہی کہا کہ پتر،اللہ ہماری بھینس کو سلامت رکھے۔ اس طرح کی باتیں نہیں کرتے ،تمہیں تو دعا دینی چاہیے ۔اس پر وہ احمق آدمی سر ہلا کر رہ گیا ۔اسی اثنا میں گھر کے اندرونی کمرے سے ایک پیاری سی لڑکی باہر آی جس نے نیے کپڑے پہن رکھے تھے اور مناسب طریقے سے بنی ٹھنی ہوی تھی ۔اس کی دونوں کلایوں میں کھنکتی چوڑیاں صاف بتا رہی تھیں کہ اس کی نیی نیی شادی ہوی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اسے دیکھتے ہی فقیرکی رگ حماقت پھر پھڑک اٹھی اور اس نے اماں سے لڑکی کے بارے میں پوچھ لیا ۔اماں نے خوشی سے بتایا، پتر یہ میری بہو ہے ۔۔۔،میں نے ابھی پچھلے مہینے ہی اپنے بڑے بیٹے کا بیاہ کیا ہے ۔فقیر اگر عقلمند ہوتا تو اس کے لیے اتنا جواب کافی تھا لیکن عقلمند ہوتا تو تب نا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اماں پر جھٹ سے اگلا سوال داغ دیا کہ ۔۔۔اماں اگر تمہارا بیٹا مر جاے تو تمہاری یہ بہو کیا کرے گی ،۔۔۔۔۔۔اماں کا تو میٹر گھوم گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کہاں کا آٹا اور کہاں کی روٹی ۔۔۔۔۔انہوں نے فقیر کو دوچار موٹی موٹی گالیاں دیں ،پرات میں گھولا ہوا آٹا اور پانی اس کی چادر میں الٹا اور باہر کی راہ دکھای ۔اب سچویشن کچھ یوں بن گیی کہ فقیر گلی گلی چلا جا رہا تھا ۔اس کی چادر میں سے آٹے اور پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔رستے میں اگر کوی آدمی اس بارےمیں پوچھتا تو فقیر شرمندہ ہو کر کہتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میری زبان کی شیرینی اور مٹھاس ہے جو چادر میں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے بچپن میں یہ کہانی اپنی نانی اماں سے سنی تھی۔کیونکہ ہماری ساری تربیت اپنی نانی اماں کی آغوش میں ہی ہوی ،اس لیے وہ ہمیں اس طرح کی چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج جب تحریک انصاف کے کپتان پی ایس ایل فاینل میں شرکت کے لیے پاکستان آنے والے غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلوکٹے کہہ رہے تھے تو ہمیں نانی اماں سے سنی ہوی یہ کہانی بے اختیار یاد آی۔ایک قومی ہیرو ،سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی کی زبان کی یہ " شیرینی اور مٹھاس" بے حد افسوس ناک ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ تین خوبیاں انسان کو باکمال بنا دیتی ہیں ،ٹھنڈا دماغ ،میٹھی زبان اور نرم دل ۔۔۔۔۔۔۔۔افسو س اس معاملے میں کپتان کا دامن خالی نظر آتا ہے ۔
پیر، 6 مارچ، 2017
ہفتہ، 4 مارچ، 2017
جمعہ، 3 مارچ، 2017
جمعرات، 2 مارچ، 2017
بدھ، 1 مارچ، 2017
دنیا نیوز سے نکالے گیے صحافی دوستوں سے اظہار یکجہتی
ہم آج شام ہی گاوں سے واپس لوٹے تو یہ افسوس ناک خبر سننے کو ملی کہ گزشتہ دو روز سے دنیا نیوز میں ہمارے صحافی بھایوں پر آزمایش آی ہوی ہے ۔ان دو دنوں میں 30صحافی دنیا نیوز کی ملازمت سے فارغ کردیے گیے ہیں، جن میں چار اینکر ،دو اساینمنٹ ایڈیٹر ،کچھ سینیر پروڈیوسر اور بیورو دفاتر کے کچھ ذمہ داران شامل ہیں ۔ہمارے نزدیک زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اطلاعات کے مطابق یہ " کارنامہ "برادرم سہیل وڑایچ صاحب کے ہاتھوں انجام دلایا گیا ہے ،جو خود کوی تعلیم فروش ،گھی فروش ،تمباکو فروش سیٹھ نہیں بلکہ ایک صحافی ہیں ۔۔۔۔اس معاملے میں ان کا نام سن کر ہمیں شاید اس لیے بھی زیادہ تکلیف پہنچی کہ ان جیسے وضعدار ،اعلیِ تعلیم یافتہ اور خاندانی آدمی سے ہمیں ایسے کسی اقدام کی توقع نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن یہ ہماری خوش فہمی تھی ۔چندسال پہلے جب ہم نواے وقت گروپ کے ساتھ وابستہ تھے تو انہی دنوں ادیبانہ اسلوب میں دل کو چھو لینے والا کالم لکھنے والے ایک معروف کالم نویس نواے وقت کو خیر باد کہہ کر جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ ہو گیے ۔شنید یہ تھی کہ نواے وقت انہیں ہزاروں میں تنخواہ دیتا تھا لیکن جنگ لاکھوں روپے کے بھاری معاوضے پر لے کر گیا تھا۔اس موقعہ پر ہم نے ایک بزرگ صحافی سے یہ جملہ سنا ،جو آدمی لاکھوں روپے تنخواہ پر جاے گا ،اسے عام صحافی کے مسایل کا کیا احساس ہو گا اور عام آدمی کی پریشانیوں سے کیا سروکار ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید سہیل وڑایچ صاحب بھی اب اسی قبیل میں شامل ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔وڑایچ صاحب کے اس اقدام کے سلسلے میں دو آرا ابھی تک صحافی برادری میں گردش کررہی ہیں ۔۔۔۔پہلی یہ کہ سہیل وڑایچ صاحب چونکہ جنگ گروپ سے برسوں پرانا تعلق توڑ کر بڑی بھاری تنخواہ پر دنیا گروپ میں تشریف لاے ہیں ،اور اس سطح کے لوگ جب اپنی نیی دنیا بساتے ہیں تو وہاں اپنی ٹیم ساتھ لاتے ہیں ۔۔۔۔ممکن ہے کہ وڑایچ صاحب نے اس لیے یہ تلوار چلای ہو ۔ہماری اطلاع کے مطابق وڑایچ صاحب روزنامہ دنیا کے کچھ سینیر کالم نویسوں کے کالموں پر بھی آج کل اعتراض کرتے پاے جاتے ہیں ۔اور ممکن ہے کہ اگلے چند روز میں روزنامہ دنیا سے چند سینیر کالم نویسوں کو فارغ کیے جانے کی خبر بھی آجاے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں دوسری راے یہ گردش کر رہی ہے کہ سہیل وڑایچ صاحب جس میڈیا گروپ کو چھوڑ کر دنیا گروپ میں آے ہیں ،اس گروپ کا یہ پرانا طریقہ واردات ہے کہ وہ اپنے مدمقابل میڈیا گروپ کی جڑیں کاٹنے کے لیے اپنے لوگ اس گروپ میں شامل کر دیتے ہیں جو مدمقابل کو اندر ہی اندر نقصان پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے صحافی برادری میں یہ راے بھی زیر بحث ہے کہ سہیل وڑایچ صاحب کا یہ اقدام کہیں ایسی ہی کوی چال تو نہیں۔۔۔۔۔ہم سہیل وڑایچ صاحب اور دنیا گروپ کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اپنے ان صحافی بھایوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں جنہیں دنیا نیوز کی ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے ۔اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ اس مشکل گھڑی میں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس سلسلے میں صحافتی تنظیموں اور لاہور پریس کلب کی طرف سے احتجاجی تحریک چلانے کی جو باتیں سامنے آ رہی ہیں ،وہ بے حد خوش آیند ہیں۔لیکن یہ اعلان صرف اعلان تک ہی محدود نہیں رہنے چاہییں بلکہ اس سلسلے میں عملی اقدام بھی ہونا چاہیے ۔۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صحافی برادری کے نمبرداروں اور نمایندوں کی کمزوری ہے کہ ایک کارکن صحافی لوگوں کے مسایل کی خاطر صبح سے شام تک بھاگتا رہتا ہے لیکن جب خود اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ خود کو تنہا اور بے بس محسوس کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔کم از کم اس بار تو صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کی قیادت کو اپنے وجود اور طاقت کا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔۔۔۔
پیر، 27 فروری، 2017
میڈیا اور دہشت گردی
دو ڈھای برس پہلے کی بات ہے ۔گرمیوں کے دن تھے اور دوپہر کے وقت ہم اپنے دفتر میں بیٹھے معمول کے کام کاج میں مصروف تھے کہ یکایک ٹی وی چینلز نے بریکنگ نیوز کا شور مچا دیا ۔پہلے ایک چینل پر ٹکر چلا کہ "نشتر ہسپتال ملتان میں دھماکے کی آواز سنای دی ہے" ۔اس کے ساتھ ہی چینلز کے نیوز اینکر چیخنے چلانے لگے اور سب سے پہلے خبر دینے کی دوڑ شروع ہو گیی۔فطری طور پر ہمیں بھی پریشانی لاحق ہوی کہ خدا خیر کرے کہ نشتر ہسپتال جنوبی پنجاب کا بڑا سرکاری ہسپتال ہے ۔۔۔نجانے کتنا نقصان ہوا ہو گا۔۔۔۔۔صرف ہم ہی نہیں بلکہ یقینی طور پر اس وقت ٹی وی دیکھنے والا ہر شخص ہی پریشان ہوا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن حیرت اس وقت ہوی جب کچھ دیر بعد چینلز پر خاموشی چھا گیی اور پھر ایک آدھ چینل پر یہ ٹکر چلا کہ "نشتر ہسپتال میں دھماکے کی آواز پانی کا ایک پایپ پھٹنے کی وجہ سے پیدا ہوی "۔۔۔۔۔کچھ چینلز نے تو اس وضاحت کی ضرور ت بھی محسوس نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔23فروری کو بھی چینلز نے یہی حرکت کی ۔ابھی چینلز پر ڈیفنس میں ہونے والے دھماکے کی تفصیلات آ رہی تھیں ۔شہر بھر میں خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا ۔والدین اپنے بچوں کو لینے کے لیے سکولوں کی طرف بھاگ رہے تھے کہ اسی اثنا میں چینلز نے شور مچا دیا کہ گلبرگ میں بھی دھماکے کی آواز سنی گیی ہے ۔یہ نام نہاد بریکنگ نیوز سنتے ہی پوری قوم ہیجان میں مبتلا ہو گیی کہ الہیِ خیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی روز محض ایک گھنٹے کے اندر لاہور میں دو دھماکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الہی خیر۔۔۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران بھی فوری طور پر گلبرگ کی طرف بھاگے ۔لیکن جب تحقیق ہوی تو پتہ چلا کہ وہاں سے گزرتے کسی رپورٹر نے کسی گاڑی کا ٹایر پھٹنے کی آواز سنی تھی اور فوراً اپنے چینل پر گلبرگ میں بھی دھماکے کی خبر چلوا دی اور باقی چینلز نے تحقییق کرنے کی بجاے بھیڑ چال کے اصول پر عمل کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہشت گردوں کا ایک ہدف خوف و ہراس پھیلانا بھی ہوتا ہے ۔اور یہی کام ہمارا الیکٹرانک میڈیا بھی کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔تو پھر دونوں میں کیا فرق باقی رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم شاید پہلے بھی کہیں ذکر کر چکے ہیں کہ ہم گزشتہ پانچ سال سے رپورٹنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔اگر ایک ہی خبر کی کسی دوسرے سورس سے تصدیق نہ ہو تو اس خبر کو فایل کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے ۔۔۔۔ہمارے اساتذہ نے تو ہمیں یہ سبق سکھایا کہ اگر تمہیں کوی یہ کہے کہ میاں ایک کتا تمہارا کان منہ میں دباے بھاگے جا رہا تھا تو کتے کے پیچھے لپکنے سے پہلے ایک بار اپنا کان ضرور دیکھ لیا کرو۔۔۔۔آج کل کے رپورٹرز ۔۔۔۔۔۔۔ہماری مراد الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹرز کی اکثریت سے ہے { اکثریت اس لیے کہا کہ یہاں بھی سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں }۔۔۔۔۔۔۔۔کی پھرتیوں کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ شاید انہیں یہ سبق الٹ پڑھایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل ہر شخص ہی راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچنا چاہتا ہے ۔۔۔۔ہر شخص چشم زدن میں صف اول کا اینکر بننے کے خواب دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے ٹھیک سے چند جملے لکھنے نہیں آتے ،وہ بھی چاہتا ہے کہ صحافت کا ابتدای سبق "خبر نویسی" پڑھنے اور سیکھنے کی بجاے راتوں رات کالم نویس بن جاے ۔۔۔۔۔۔۔لیکن بعض لوگ اس سلسلے میں رپورٹر کو بے قصور قرار دیتے ہیں ۔۔۔۔اس طبقہ فکر کا کہنا ہے کہ دراصل جب سے میڈیا نے انڈسٹری کی صورت اختیار کی ہے اور اس کی باگ ڈور تمباکو فروش ،گھی فروش، ،آٹا فروش اور تعلیم فروش لوگوں کے ہاتھ میں آی ہے ،،،،ہمارے ٹی وی چینلز میں سے ایڈیٹر کا عہدہ تو جیسے غایب ہی کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔اوپر سے نیچے تک صرف ریٹنگ کی فکر ہوتی ہے ،اس کے لیے خواہ اپنے کپڑے اتارنے پڑیں یا ایف سی کے کسی جوان سے تھپڑ کھانے پڑیں مالکان کی بلا سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کپڑے اتارنے والی بات ہم نے ازراہ طنز بالکل نہیں کہی بلکہ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ کے لیے کپڑنے اتارنےیا اتروانے میں کوی شرم محسوس نہیں کی جاتی اور بدقسمتی سے یہ کام اعلی ترین سطح سے ہوتا ہے ۔۔۔۔ایک معروف ٹی وی چینل پر نیوز پروڈکشن کے شعبے میں فرایض انجام دینے والے ایک دوست گزشتہ دنوں ہم سے ملنے آے تو انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ اپنا ایک ذاتی واقعہ سنایا کہ گزشتہ موسم گرما میں ایک روز وہ کسی دوسرے شہر میں موجود اپنی خاتون رپورٹر کا بیپر ریکارڈ کر رہے تھے کہ اتنے میں ان کے نیوز ڈایریکٹر ان کے پاس آ گیے ۔خاتون رپورٹر خوبصورت بھی تھی اور صحت مند جسم کی مالک بھی ،اسے دیکھتے ہی ڈایریکٹر نے نیوز پروڈیوسر سے کہا کہ " دیکھو اس لڑکی کا بیپر دوبارہ ریکارڈ کرو ۔اور اسے کہو کہ ڈوپٹہ اتار کر کیمرے کے سامنے آے اور صرف اس کا چہرہ کور کرنے کی بجاے اسے سر سے پاوں تک دکھاو "۔۔۔۔۔۔۔جب چینلز میں اہم پوسٹوں پر ایسے لوگ براجمان ہونگے تو پھر جو بھی ہو کم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور نیوز اینکرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔محلے میں باہم لڑ پڑنے والی خواتین اتنی نہ چیختی ہونگی ،جتنا یہ لوگ خبر پڑھتے ہوے چیختے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیوز کاسٹر کو تو سپاٹ لہجے میں خبر پڑھنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔نیوز کاسٹر اور رپورٹر خبر پڑھتے اور سٹوری فایل کرتے وقت اپنے جذبات ایک طرف رکھ دیتا ہے تاکہ معروضیت برقرار رہے لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔۔۔۔ہم کبھی کبھی بی بی سی اردو یا وایس آف امریکہ کا اردو بلیٹن سنتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے نیو ز کاسٹر ہمارے کانوں میں رس گھول رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گلبرگ دھماکے کی غلط خبر چلانے والے چینلز کو پیمرا نے نوٹس تو جاری کیا ہے لیکن صرف نوٹس کافی نہیں بلکہ اس سلسلے میں کوی ضابطہ طے کرنی کی ضرورت ہے اور ان چینلز کو کسی قاعدے قانون کے تابع کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم جب چینلز پر مچی اس ہڑبونگ کو دیکھتے ہیں تو اکثر سوچتے ہیں کہ کاش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ وقت واپس لوٹ آے جب رات نو بجے کے خبرنامے کے بعد پی ٹی وی کی نشریات بند ہو جاتی تھیں اور لوگ چین کی نیند سو جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اے کاش
اتوار، 26 فروری، 2017
ہفتہ، 25 فروری، 2017
جمعہ، 24 فروری، 2017
جمعرات، 23 فروری، 2017
بدھ، 22 فروری، 2017
منگل، 21 فروری، 2017
پیر، 20 فروری، 2017
صرف ایک تھپکی
ہماری اما ں مرحومہ کو بڑا شوق تھا کہ ان کا اکلوتا بیٹا ایک اچھا مقرر بنے۔ چونکہ ہمارے بڑے ماموں ٹیچرتھے تو وہ ان سے اکثر کہا کرتیں کہ آپ منصور کو بھی کبھی کبھار سٹیج پر کھڑا کیا کریں تاکہ اسے لوگوں کے سامنے کھڑے ہونے اور بولنے کی عادت ہو جاے ۔ہم اس وقت پہلی جماعت میں تھے ۔سکول میں سالانہ تقریری مقابلہ ہونے والا تھا ۔پہلی جماعت کا چھوٹا سا بچہ بھلا کیا تقریر کر سکتا تھا۔لیکن مقابلے سے ایک دن پہلے ریہرسل کے دوران ماموں جان نے اچانک ہمیں اپنی طرف بلاتے ہوے اعلان کر دیا کہ آج منصور تلاوت کرے گا ۔ہمیں آج بھی یاد ہے کہ پرایمری سکول میں لگے بڑے سے کیکر کے درخت کے نیچے سب طلبہ بیٹھے تھے اورمجمع کےسامنے چند اساتذہ کرسیوں پر تشریف فرما تھے ۔ہمیں اپنی جگہ سے اٹھ کر اساتذہ کے سامنے پہنچنے تک محاورتاً نہیں حقیقتاً زمانے لگے ۔ٹانگیں تھرتھر کانپ رہی تھیں۔گلا خشک ہوا جا رہا تھا۔جب ہم مجمع کے سامنے پہنچے تو ماموں فرمانے لگے کہ سورت فاتحہ پڑھ دو ۔ہم نے کانپتے کانپتے تلاوت شروع کی اور اس کے ساتھ ہی ہمار ی آواز بھرا گیی ،گلا رندھ گیا اور ابتدای دو تین آیتیں پڑھنے کے بعد ہی ہم رو پڑے ۔طلبہ کے مجمع میں سے دبے دبے قہقہے بلند ہوے ۔اتنے میں ہمارے پیچھے تشریف فرما ایک سینیر ٹیچر ماسٹر محمد منیر مرحوم نے آگے بڑھ کر ہمیں اپنی گود میں لے لیا ۔ ہماری پیشانی چومی ، سر پر پیار سے پھیرا اور ہماری دل جوی کے لیے چند تعریفی کلمات بھی ارشاد فرماے ۔۔۔۔اس طرح اگلے چند منٹوں میں ہم خاصے سنبھل گیے لیکن پھر بھی آیندہ کیی رو ز تک ہماری طبیعت پر اس حادثے کا اثر باقی رہا اور ہم ساتھی طلبہ کا سامنا کرنے سے کتراتے رہے۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ہم نے اگلے چھ سات برسوں تک سکول کے سٹیج کا رخ نہ کیا۔اماں اکثر ڈانٹتی رہتیں کہ ہم تقریری مقابلوں میں حصہ کیوں نہیں لیتے ۔لیکن ہم ٹال مٹول کردیتے ۔بالآخر ہم ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھے ،جب ہم ایک بار پھر سکول کے سٹیج پر نمودار ہوے ۔مقبوضہ کشمیر کے سلسلے میں تقریری مقابلہ تھا اور ہم نے اس میں ایک نظم پڑھی تھی جس پر ہمیں بطورانعام ایک کتاب بھی ملی ۔اب کی بار تھوڑا سا حوصلہ بڑھا۔ دسویں جماعت میں تھے جب پہلی بار ہم نے تقریر کرنے کے لیے اپنا نام لکھوایا ۔غالباً ربیع الاول کی مناسبت سے سیرت نبوی پر لب کشای کرنی تھی ۔مقابلے سے ایک روز پہلے ریہرسل کے دوران جب ہم نے بھی اپنی باری پر تقریر کی تو ہمارے ایک استاذ صاحب نے ہماری تعریف کرتے ہوے فرمایا کہ ،اس طالب علم کے شعر پڑھنے کا ایک خاص انداز ہے جو بہت اچھا ہے ۔یہ جب شعر پڑھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ مقرر شعر پڑھ رہا ہے ۔باقی مقررین میں یہ خوبی ذرا کم دیکھنے میں آی ہے ۔"سچ پوچھیے تو ہمیں یوں لگا کہ ہمیں ہماری تقریر کا انعام ابھی مل گیا ہے ۔استاذ گرامی کا یہ تعریفی جملہ آج بھی ہمارے کانوں میں رس گھولتا رہتا ہے ۔ان کی یہ ایک تھپکی قدم قدم پر ہمارا حوصلہ بڑھاتی رہی ۔اس ایک تھپکی نے ہی یہ دن بھی دکھاے کہ علما کی میڈیا ورکشاپ میں لیکچر ہو یا سیاسی جلسے میں سیاسی تقریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلی جماعت میں تلاوت کرتے ہوے رو پڑنے والا بچہ اب نہیں گبھراتا اورنہ ہی سٹیج پرکھڑے ہو کر مجمع کا سامنا کرتے ہوے اس کی ٹانگیں کانپتی ہیں۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ استاذ کی صرف ایک تھپکی شاگرد کو کہیں کا کہیں پہنچا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔تلاوت کے دوران روپڑنے کا یہ واقعہ گزشتہ دنوں ہمیں تب یاد آیا ،جب جماعت اول میں زیر تعلیم ہمارے بیٹے نے اپنے مکتب میں بارہ ربیع الاول کے موقعہ پر تلاوت کی ۔ہم بھی قریب ہی بیٹھے ہوے تھے اور سات سالہ عبداللہ کے چہرے کی طرف بغور دیکھ رہے تھے ۔اس نے جلدی سے سورۃ کوثر تلاوت کی ۔اس دوران اس کا چہرہ لال سرخ ہو چکا تھا ۔صدق اللہ العظیم کہتے ہی وہ گولی کی طرح اپنی نشست کی طرف لپکا جس پر ہم مسکرا کر رہ گیے ۔ہمیں خدشہ تو تھا کہ کہیں صاحبزادہ اپنے ابا کی بچپن کی روایت زندہ نہ کردے لیکن برخوردار اپنے ابا سے زیادہ باہمت نکلا ۔....سیانے سچ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک شاباش ،ایک تھپکی ،حوصلہ افزای کے لیے کہا گیا صرف ایک جملہ وہ اثر دکھاتا ہے جو لمبے چوڑے لیکچر نہیں دکھا سکتے ۔ہمارے ایک استاذ فرمایا کرتے تھے کہ غلطی کرنے پر بچے کے کان ضرور ضرور کھینچنے چاہییں ،لیکن کسی امتحان میں ناکامی پر اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ناکامیوں سے ہی انسان سیکھتا ہے۔اسی لیے تو کسی نے کہا ہے کہ
مجھے پستیوں سے گلہ نہیں کہ ملی ہیں ان سے بلندیاں
میرے حق میں دونوں مفید ہیں ،کہ نشیب ہی سے فراز ہے
مجھے پستیوں سے گلہ نہیں کہ ملی ہیں ان سے بلندیاں
میرے حق میں دونوں مفید ہیں ،کہ نشیب ہی سے فراز ہے
اتوار، 19 فروری، 2017
ہفتہ، 18 فروری، 2017
Who Was Major Target In Blast At Mall Road Lahore??
In a recent suicide attack on DIG Traffic Capt (R) Mobeen, an eyewitness Rana Naseer informed that the suicide bomber was 15 feet away from his target and blew himself coming closer to DIG. The witness further added that he lost his senses for few minutes and assumed himself as dead. Another witness Awais Bashir, resident of Kala Shah Kaku told that the blast was at his back while he was on Mall road. One of the victim Umair Riaz who works for a pharmaceutical company told "Daily Ummat",s correspondent Mansoor Asghar Raja that he was just ten feet away from the place of blast, his legs got badly injured. According to Umair blast occurred exactly four minutes after the successful discussions with the protesters.
Workers of Falah e Insaniyat Foudation were the first ones who came to rescue. Several employees of pharmaceutical companies got injured in this blast outside Punjab Assembly. The injured were shifted to Ganga Ram hospital, Meu hospital and Services hospital Lahore. Senior politicians from different parties visited the injured though the attendants of the injured didn't appreciate this act. In the presence of correspondent "Daily Ummat" , Qamar Zaman Kaira (PPP) and Khurram Nawaz Gandapur (PAT) visited the injured while one of the attendants exclaimed," We are fed-up of such people, they do not have any idea how a common man is surviving but they visit us to take the photographs for gaining popularity".
Seventeen years old Umair Riaz also got seriously injured in the blast, he is a resident of Sheikhupura and an employee of pharmaceutical company. He told "Daily Ummat" that the senior police officials reached there few minutes before the blast. Once DIG Traffic reached he asked the protesters to move to the foot path so that the road opens for traffic. Exactly four minutes after the discussion there was a blast. Since there was a truck between me and the place of blast therefore I survived.
جمعہ، 17 فروری، 2017
جمعرات، 16 فروری، 2017
شامی جیل میں اجتماعی پھانسیاں۔۔۔3
۔۔۔"نصف شب گزر چکی تھی جب مجھے دوبارہ تفتیشی کمرہ میں لے جایا گیا جہاں راید ثلجہ نامی ایک افسر میرا منتظر تھا۔مجھے دیکھتے ہی بولا ،"تم اخوان کے ساتھ اپنے تعلق اور ان کے لیے کام کرنے کا اعترا ف نہیں کر رہی لیکن آج اللہ نے ایک ایسا شخص ہمارے پاس بھیج دیا ہے جس نے تمہارے سارے پول کھول دیے ہیں۔تمہاری سہیلی ماجدہ ہمیں بتا چکی ہے کہ اس نے خود تمہارے پاس اسلحہ دیکھا تھا۔"۔۔۔میں نے جواباً کہا کہ ،"آپ لوگ ماجدہ کو میرے سامنے لاییں تاکہ وہ یہی بات میرے منہ پر کہے "۔۔۔وہ بولا ،"ماجدہ جھوٹ نہیں کہہ رہی ،وہ تم سے زیادہ سچی ہے ۔تمہارا تو لیموں کی طرح پیلا پڑتا رنگ ہی تمہارے جھوٹا ہونے کی گواہی دے رہا ہے "۔۔۔۔میں نے کہا کہ ،"میں گزشتہ دو راتوں سے مسلسل جاگ رہی ہوں۔اس دوران میں نے کچھ کھایا نہ پیا ۔اور نہ ہی تم لوگوں نے مجھے بیت الخلا تک جانے کی اجازت دی ۔اس دوران مجھے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔مجھے مارنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی گیی۔اس کے بعد بھی تم کہتے ہوکہ میرا رنگ پیلا کیوں ہو گیا ہے "۔۔۔۔اس نے میری با ت کا جواب دینے کی بجاے دربان کو بلا کر مجھے دوبارہ سیل میں بند کرنے کا حکم دیا ۔میں شدید خوف کے عالم میں سیل کے اندر سکڑ ی سمٹی بیٹھی تھی ۔میں نے اس ڈر سے کمبل بھی نہ کھولا کہ کہیں میری آنکھ نہ لگ جاے اور اگر اس دوران کوی اہلکار آگیا اور اس نے مجھے سویا پایا تو خفا ہو گا۔کچھ ہی دیر بعد اچانک باہرسے چیخنے چلانے ،ہانکنے اور بھاگنے کی آوازیں آنے لگیں۔مجھے خیال آیا کہ کچھ اور مظلوموں کی نیی کھیپ آی ہے ۔اور واقعی ایسا ہی تھا۔چند لمحوں بعد ہی اہلکار چھ سات نوعمرلڑکوں کو دھکیلتے ہوے اندر لے آے ،جن کی عمریں بمشکل بارہ سے پندرہ برس تک تھیں۔ان سب کو کسی مسجد سے گرفتار کر کے لایا گیا اور جس سیل میں بند کیا گیا ،اس کا رقبہ میٹر ڈیڑھ میٹر سے زیادہ نہ تھا۔وہ سب سخت خوفزدہ تھے ۔ان میں سے ایک لڑکا بار بار بیت الخلا جانے کی درخواست کر رہا تھا لیکن اہلکار سال نو کی خوشی میں موج مستی میں مصروف تھے یا شاید جان بوجھ کر انہوں نے اس پر کوی توجہ نہ دی۔اس دوران وہ لڑکا چیختا چلاتا اور مدد کے لیے پکارتا رہا ۔اس نے یہاں تک کہا کہ میرے پیٹ میں شدید درد ہے ۔میں خود پر زیادہ دیر کنٹرول نہیں رکھ سکوں گا۔اہلکاروں پر اس چیخ و پکار کا محض اتنا اثر ہوا کہ ہر تھوڑی دیر بعد ایک اہلکار آتا ،سیل کی کھڑکی کھول کر اس لڑکے کو دو چار بید رسید کرتا اور یہ کہہ کر چلا جاتا کہ اوے اپنا حلق مت پھاڑو۔ایسے ہی مار کھاتے ہوے لڑکا اچانک خاموش ہو گیا اور پھر اس کے بعد سیل میں اس قدر بدبو پھیلی کہ دم گھٹنے لگا۔اس نیی صورتحال پر ایک اہلکار بکتا جھکتا اندر آیا اور اس لڑکے کو گھسیٹے ہوے سیل سے باہر نکال کر پاگلوں کی طرح مارنے لگا۔کچھ دیر کے شور شرابے کے بعد پھر خاموشی چھا گیی۔وہ رات مجھے پہاڑ جیسی طویل محسوس ہوی جو کاٹے نہیں کٹ رہی تھی۔ساری رات مجھے وسوسوں نے گھیرے رکھا کہ کیا خبر اب یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریںگے ۔مجھے کتنی بار گھسیٹ کر تفتیشی کمرے میں لے جایا جاے گا۔مجھ پر اور کتنا تشدد ہو گا ۔کیا وہ دوبارہ میرا لباس نوچیں گے ۔مجھے قتل کرنے سے پہلے کتنی اذیتیں دی جاییں گی ۔بس یہی سوچتے سوچتے فجر ہوگیی۔اسی دوران سیل کی دیوار دوسری طرف سے کسی نے ہولے سے بجای۔میں سمجھ گیی کہ دوسری طرف سے ماجدہ دیوار بجا کر مجھے فجر کا وقت ہونے کی خبر دے رہی تھی ۔لیکن میں اس قبر نما قید خانے میں وضو کہاں کرتی ۔سو تیمم کرکے نماز ادا کرنے کا سوچا لیکن قبلہ معلوم نہیں تھا ،اس لیے بادل نخواستہ کسی اہلکار کو بلانے کے لیے سیل کی کھڑکی بجای تو حسین نامی اہلکار آگیا۔قبلہ کے بارے میں میرے استفسار پراس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ "میں نے کبھی نماز نہیں پڑھی ،اس لیے مجھے قبلے کے بارے میں علم نہیں۔لیکن یہاں آنے والے قیدی اسی رخ پر نماز پڑھتے ہیں۔"میں نماز پڑھ رہی تھی کہ اسی دوران ایک اور اہلکار آن ٹپکا اور مجھے نماز میں مصروف دیکھ کر طنزیہ انداز میں کر بولا ،"اچھا تو اب نمازیں یاد آ گیی ہیں"تھوڑی دیر بعد وہی بوڑھا اہلکار ناشتہ لے کر آیا جس نے رات مجھے سیل کے اندر جانے کو کہا تھا ۔اس وقت ہر طرف سکوت طاری تھا کہ اس نے اچانک مجھے بتایا کہ یہاں لاے گیے سب لوگ رہا کردیے گیے ہیں۔صرف تم ،تمہاری امی اور ماجدہ باقی رہ گیی ہو ۔یہ سن کر میرا دل بھر آیا ،میں نے کہا کہ ہم نے ایسا کون سا جرم کیا ہے جو ہمیں رہا نہیں کیا گیا ۔وہ کہنے لگا ،میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔میں تو یہاں ادنیِ سا ملازم ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمہیں بھوک لگی ہو گی ۔ناشتہ کر لو۔دیکھو میں اپنے ناشتے میں سے مکھن اور جام تمہارے لیے بچا کر لایا ہوں ۔۔۔۔۔۔لیکن اس نے ابھی جو خبر سنای ،اس کی وجہ سے میری بھوک تو کب کی اڑ چکی تھی ۔میں نے اس کا شکریہ اداکرتے ہوے ناشتے سے معذرت کرلی۔،اور پھر اگلے آٹھ دن اسی قید تنہای میں اور اسی پریشان حالی میں گزار دیے۔ کفر السوسہ نامی اس بدنام زمانہ جیل میں دن کا آغاز نماز فجر کے دو گھنٹے بعد ہوتا تھا ۔یہاں صبح کے وقت سب سے پہلے قیدیوں کو گالیاں دیتے ہوے اور کوڑے اور زنجیریں ان کی پیٹھ پر برساتے ہوے انہیں " الخط" لے جایا جاتا تھا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔
بدھ، 15 فروری، 2017
منگل، 14 فروری، 2017
شامی جیل میں اجتماعی پھانسیاں ۔۔۔۔2
۔۔۔۔۔۔۔"اس کی دھمکی نے مجھے دہلا کر رکھ دیا ۔میں نے چیختے ہوے کہا ،لیکن میں کچھ نہیں جانتی ۔جواب میں اس نے مجھے سر سے سکارف اتارنے کا حکم دیا۔میں اسے پتھرای نظروں سے دیکھنے لگی ۔میرا رواں رواں کانپ رہا تھا۔اتنے میں اس نے یہ کہتے ہوے میرے سر کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ ،اگر تم اسے خود نہیں اتارتی تو میں اتار دیتا ہوں۔۔۔۔لیکن میں نے اپنا سکارف مضبوطی سے پکڑے رکھا ،اس لیے وہ کوشش کے باوجود مجھے بے حجاب نہ کر سکا ۔بالآخر زچ ہو کر اس نے سکارف کے نیچے میرے بندھے ہوے بالوں کو پکڑ لیا جو اس وقت کافی لمبے ہوتے تھے ۔اس نے بالوں سے پکڑ کر مجھے اپنی جانب کھینچا اور پھر اچانک میرا سر پوری قوت سے دیوار کے ساتھ دے مارا۔ساتھ ہی اس کے منہ سے گندی گالیوں کا طوفان پھوٹ پڑا،اور وہ سخت غصے میں بولا،"تمہارے انکار کے باوجود تمہارا لباس اور حجاب بتا رہا ہے کہ تم اخوان المسلمون سے تعلق رکھتی ہو "۔اس کے ساتھ ہی اس نے ایک اہلکار کو زنجیر اور کوڑا لانے کا حکم دیا ۔میری اس وقت یہ صورتحال تھی کہ تشدد کے باعث میرے پاوں سوج کر کپا ہو چکے تھے کہ جوتے پہننا بھی ممکن نہ رہا تھا۔میں سزا سے بچنے کے لیے پیچھے ہٹنے لگی۔ناصیف چڑ کر بولا،"اسے میری نظروں سے دور منفردہ ،قید تنہای کا سیل ،میں لے جاو ۔میں اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔"مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی " ٹارچر پارٹی" اختتام پذیر ہو گیی ہے۔دراصل مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ منفردہ کسے کہتے ہیں۔ایک اہلکار مجھے مختلف زینوں اور راستوں سے گزارتا ایک نیی جگہ لے گیا۔راستے میں مجھے وہ کہنے لگا کہ ،"تم اصل بات بتا کیوں نہیں دیتی۔کم از کم اپنے حال پر ہی رحم کرو۔دیکھو ،تمہارا چہرہ کس قدر سوج گیا ہے ۔تمہارے ہاتھ نیلے ہو گیے ہیں۔پاوں جوتے پہننے کے قابل نہیں رہے۔اور تم ہو کہ مر کر بھی راز دباے بیٹھی ہو"۔میرا دل بھر آیا اور میں نے صرف اتنا کہا کہ ،"اللہ ان ظالموں کو عافیت نہ دے "۔ہم چلتے چلتے ایک سیل کے پاس پہنچے تو سامنے حسین کھڑا تھا۔اسے میں پہلے بھی دیکھ چکی تھی جب مجھے پہلی بار تفتیشی کمرے میں لایا گیا تو وہاں ایک نوجوان کو ڈنڈوں اور زنجیروں کے ساتھ بڑے وحشیانہ طریقے سے مارا جا رہا تھا اور یہ آدمی مارنے والوں میں پیش پیش تھا۔اب یہاں مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ تمسخرانہ انداز میں ہتھکڑیاں لیے یہ کہتے ہوے میری جانب بڑھا،"اھلاً و سھلاً۔۔۔زہے نصیب"۔اس نے مجھے کندھے سے پکڑ کر پانچ سیڑھیاں نیچے اتارا اور ایک چھوٹے سے سیل کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ ،"یہ رہا تمہارا کمرہ ۔یہاں تم مزے سے سویا کرو گی "۔میں نے اس کی تاریکی اور وحشت سے گھبرا کر بے ساختہ کہا کہ ،"نہیں ،بخدا میں اس کے اندر نہیں جاوں گی "۔اسی اثنا میں مجھے قریبی سیل میں اپنی روم میٹ فاطمہ نظر آی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور سیل سے اپنی امی کی آواز سنای دی ۔انہوں نے شاید میری آواز سن لی تھی ،اسی لیے بلند آواز سے ان ظالموں کو برا بھلا کہنے لگیں کہ ،"ظالمو ان عورتوں پر تم اپنی طاقت آزما رہے ہو۔تم رحم سے نا آشنا ہو۔میں نے ساری عمر تمہارے بارے میں یہی سنا کہ تمہارے سینوں میں دل نہیں ہوتا لیکن اب تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے"۔مجھ میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گیی اور میں چھلانگ لگا کر یہ کہتے ہوے امی کی آواز کی طرف بھاگی کہ اللہ تمہیں برباد کرے۔ان کو کیوں لے آے ہو ۔میری بہنیں چھوٹی اور والد بیمار ہیں۔کوی اور ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں۔جواب میں حسین قہقہہ لگا کر بولا ،ہمیں تمہارے باپ اور بہن بھایوں سے کیا غرض ،ہمیں صرف تمہاری ماں مطلوب تھی۔پھر اس نے سب سیلوں کی کھڑکیاں بند کیں اور مجھ سے کہاکہ ،تم سیل کے اندرخود جاتی ہو یا میں یہاں موجود اہلکاروں سے کہوں کہ تمہیں اٹھا کر اندر پھینکیں۔میں نے کہا کہ ،یہ تو بالکل مرغیوں کا ڈربہ ہے اور اندر سخت اندھیرا ہے ۔۔۔۔۔۔وہ تمسخرانہ انداز میں بولا ،"تم اندر جاو ۔تمہارے وجود سے سب تاریکی چھٹ جاے گی"۔سیل کے اندر ایک تھالی میں چاول اور دوسرے برتن میں پانی رکھا تھا۔وہ بولا کہ ،" یہ تمہارا ڈنر ہے ۔اگر دل مانے تو کھا لینا "۔اسی اثنا میں ایک بڑی عمر کا اہلکار وہاں آ گیا ۔اس نے بڑی نرمی سے مجھے کہا کہ بہن خدارا تم سیل کے اندر چلی جاو اور ان لوگوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقعہ نہ دو "میں فوراً سیل کے اندر چلی گیی۔کچھ دیر بعد ہی وہاں شرا ب کی بُو پھیل گیی کیونکہ وہ لوگ سال نو کا جشن منا رہے تھے ۔۔۔۔میں مسلسل ایک ہی جگہ بیٹھی ہوی تھی اور اس وحشت ناک تاریکی میں میرا دم گھٹ رہا تھا۔خاص طور پر مجھے اپنی روم میٹ ماجدہ کا رہ رہ کر خیال آ رہا تھا کیونکہ میرے بعد ماجدہ کو ہی تفتیشی کمرے کی طرف لے جا یا گیا تھا ۔میں یہ سو چ کر کانپ رہی تھی کہ کیا اس گھڑی ماجدہ پر بھی تشدد کے وہی حربے آزماے جا رہے ہوں گے جو کچھ دیر پہلے مجھ پر آزماے گیے "۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے ۔
پیر، 13 فروری، 2017
تذکرہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ
خواجہ سید محمد صاحب نے راجکمار ہردیو کو حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے جانشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمہ کے بارے میں بتایا کہ ،"۔۔۔۔۔خواجہ صاحب ترکستان کے شہر فرغانہ کے نواحی علاقے کے رہنے والے تھے ۔آپ ڈیڑھ برس کے تھے جب والد سید کمال الدین انہیں یتیم چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گیے ۔والدہ کے زیر سایہ اپنی تعلیم مکمل کی ۔اسی دوران حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ اصفہان تشریف لاے تو آپ ان کے دست حق پرست پر بیعت ہو گیے ۔حضرت نے آپ کو خرقہ و خلافت عنایت فرمانے کے بعد ہندوستان جا کر دلی میں قیام کا حکم دیا ۔چنانچہ آپ مرشد کے حکم پر دلی تشریف لے آے جہاں اس وقت سلطان شمس الدین التمش علیہ الرحمہ کی حکومت تھی جو آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے ۔راجکمار ہردیو نے ایک بار خواجہ سید محمد صاحب سے پوچھا کہ ،حضرت کو ، کاکی ،کیوں کہتے ہیں ؟۔۔۔۔۔اس پر خواجہ سید محمد صاحب نے بتایا کہ ،"میں نے اپنے حضرت سلطان المشایخ {خواجہ نظام الدین اولیا علیہ الرحمہ } سے سنا ہے کہ حضرت قطب صاحب کو غیب سے کاک {یعنی روغنی روٹی }ملا کرتے تھے ،اس وجہ سے آپ کاکی مشہور ہو گیے "۔۔۔۔اسی حوالے سے ایک لطیفہ تب پیش آیا ،جب آپ ایک بار سلطان شمس الدین التمش کے پاس تشریف لے گیے ۔اسی اثنا میں اودھ کا حاکم رکن الدین حلوای بھی سلطان کے پاس آیا اور قطب صاحب سے اونچی جگہ پر بیٹھ گیا ۔بادشاہ کو یہ بات بہت ناگوار گزری ۔حضرت نے سلطان کی اس ناراضی کو محسوس کیا تو مسکرا کر فرمایا ،"یہ کوی ناراضی کی بات نہیں ہے ۔میں کاکی ہوں اور رکن الدین حلوای ہے ۔۔۔اور حلوہ کاک {روغنی روٹی}کے اوپر ہی رکھا جاتا ہے ۔پس رکن الدین مجھ سے اونچی جگہ پر بیٹھ گیا تو کچھ حرج نہیں "۔۔۔۔خواجہ سید محمد صاحب کے مطابق حضرت قطب صاحب پر ہر وقت استغراق کی کیفیت طاری رہتی تھی ۔جب اہل دنیا آپ کے پاس آتے تو حضرت کبھی کبھی عالم استغراق سے باہر آ کر ان سے بات کرلیا کرتے تھے ۔اس کے بعد پھر آپ پر محویت کی حالت طاری ہو جا تی تھی ۔۔۔۔۔۔ایک بار ایک عقیدت مند آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور خواب میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوے عرض کی کہ ،" آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کہا ہے "۔یہ سن کر آپ فوراً تعظیم کے لیے کھڑے ہو گیے اور پھر خواب کی پوری تفصیل سماعت فرمای ۔۔۔۔۔۔۔۔خواجہ سید محمد صاحب نے راجکمار ہردیو کو مزید بتایا کہ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے حضرت {محبوب الہی علیہ الرحمہ }فرماتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت خواجہ قطب صاحب اپنے قرابت داروں اور مریدوں کے ساتھ نماز عید پڑھ کر آ رہے تھے ۔جب اس مقام پر پہنچے جہاں حضرت کا مزار ہے تو وہاں خاموش کھڑے ہو گیے ۔قرابت داروں نے عرض کی کہ آج عید کا دن ہے ۔بہت سے لوگ حضور سے ملنے اور کھانا کھانے حاضر ہونگے ۔آپ یہ سن کر عالم استغراق سے باہر آے اور فرمایا کہ مجھے اس زمین سے اہل کمال کی خوشبو آتی ہے ۔اس کے بعد حضرت مکان پر آے اور کھانے کے بعد حکم دیا کہ اس زمین کا جو مالک ہے ،اسے میرے پاس لاو۔جب وہ حاضر ہوا تو آپ نے وہ زمین اس سے خرید لی ۔آپ کو وفات کے بعد وہیں دفن کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔خواجہ سید محمد صاحب نے بتایا کہ "۔۔۔۔۔۔۔میرے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ حضرت خواجہ قطب صاحب قوالی کی مجلس میں حضرت احمد جام کا یہ شعر بار بار سنتے تھے کہ
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
{ترجمہ :جو لوگ رضا و تسلیم کے خنجر سے کشتہ ہو جاتے ہیں ،ان کو ہر وقت غیب سے ایک نیی زندگی ملتی رہتی ہے }
آپ پر اس شعر کا ایسا اثر تھا کہ تین چار دن لگاتار اس کو سنتے رہے ۔اس دوران آپ پر ایک خاص کیفیت طاری رہی ،یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پای ۔
{نظامی بنسری ۔۔۔۔۔تصنیف: راجکمار ہر دیو ۔۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ : خواجہ حسن نظامی ۔صفحہ۔91تا96}
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
{ترجمہ :جو لوگ رضا و تسلیم کے خنجر سے کشتہ ہو جاتے ہیں ،ان کو ہر وقت غیب سے ایک نیی زندگی ملتی رہتی ہے }
آپ پر اس شعر کا ایسا اثر تھا کہ تین چار دن لگاتار اس کو سنتے رہے ۔اس دوران آپ پر ایک خاص کیفیت طاری رہی ،یہاں تک کہ اسی حالت میں وفات پای ۔
{نظامی بنسری ۔۔۔۔۔تصنیف: راجکمار ہر دیو ۔۔۔۔فارسی سے اردو ترجمہ : خواجہ حسن نظامی ۔صفحہ۔91تا96}
اتوار، 12 فروری، 2017
ہفتہ، 11 فروری، 2017
شامی جیل میں اجتماعی پھانسیاں ۔۔۔1
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کی سا ت فروری کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شام کی صیدنایا جیل میں گزشتہ چار برسوں کے دوران خفیہ طور پر قریباً 13ہزار افراد کو پھانسی دی گیی ۔اس جیل میں ستمبر 2011 سے دسمبر2015تک ہر ہفتے اجتماعی پھانسیاں دی جاتی رہیں۔رپورٹ کے مطابق پھانسی پانے والوں میں سے بیشتر لوگ شامی حزب مخالف کے حامی تھے ۔تنظیم نے یہ رپورٹ مذکورہ جیل کے 84سابق قیدیوں اور محافظین کے انٹرویوز کی روشنی میں تیار کی۔اس جیل کے ایک سابق قیدی انس احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جیل حکام تشدد کے لیے دو تین قیدیوں کو الگ کر لیتے اور پھر دوران تشدد ان کی چیخیں باقی قیدیوں کو سنوای جاتیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق انہوں نے جنوری کے آغاز میں بشار حکومت سے اس سلسلے میں موقف مانگا لیکن بشار حکومت کی طرف سے اس پر تاحال کوی موقف نہیں دیا گیا البتہ ماضی میں شامی حکومت اس طرح کے الزامات کو رد کر چکی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔حکومتیں ،خاص طور پر ظالم و جابر اورغیر جمہوری و غیر آیینی حکومتیں عام طور پر اس طرح کے الزامات کو رد ہی کیا کرتی ہیں لیکن مورخ کا بے رحم قلم اصل حقایق کو بے نقاب کرکے ہی رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشار الاسد نے اپنی جیلوں میں مخالفین کو پھانسیاں دے کر اور ان پر ظلم و ستم ڈھا کر کوی نیا کام نہیں کیا بلکہ اپنے ابا حافظ الاسد کی پیروی کی ہے ،کیونکہ اپنے دور میں حافظ الاسد بھی یہی کچھ کرتا تھا ۔اس کے دور میں بھی اسلام سے محبت رکھنے والے شامی مسلمانوں پر اسی طرح عقوبت خانوں میں زندگی تنگ کر دی جاتی تھی ۔ان کی جیلوں میں شیطان برہنہ ناچ ناچتا تھا ۔حافظ الاسد کے عمال پورے پورے خاندانوں کو جیل میں ڈال کر بھول جاتے تھے کہ انہیں ایک دن رہای بھی دینی ہے ۔اسی جیل میں ماں بھی قید ہوتی اور بیٹی بھی ۔دونوں کو وطن دشمن قرار دے کر بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ۔یہ شامی حکومتوں کے خلاف محض الزام تراشی نہیں ہے بلکہ دمشق یونیورسٹی کی سابق طالبہ ہبہ الدباغ کی داستان اسیری " صرف پانچ منٹ "اس پر گواہ ہے ۔ہبہ الدباغ دمشق یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھیں۔دسمبر 1980کی ایک سرد رات وہ اپنے گھر میں بیٹھی فاینل اییر کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھیں کہ اسی دوران ان کے گھر کے بیرونی دروازے پر دستک ہوی اور وہاں موجود شامی انٹیلی جنس کے اہلکاروں نے انہیں صرف پانچ منٹ کے لیے باہر بلایا اور اس کے بعد وہ واپس نہ آسکیں اور اگلے 9 برسوں تک حافظ الاسد حکومت کے عقوبت خانوں میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنتی رہیں۔انہیں صرف پانچ منٹ کے لیے باہر بلایا گیا لیکن وہ پانچ منٹ 9برسوں پر پھیل گیے تھے ۔بعد ازاں وطن دشمنی کے الزام میں ان کے والدین اور دیگر بہن بھایوں کو بھی گھر سے اٹھا کر زنداں کے حوالے کر دیا گیا۔ان کے ایک بھای نوارف الدباغ اسیری کے دوران ہی شہید کر دیے گیے ۔9برس بعد جب ہبہ الدباغ کی رہای عمل میں آی تو انہوں نے اپنی دل خراش داستان اسیری " خمس دقایق و حسب" کے نام سے کتابی صورت میں لکھی جس کا اردو ترجمہ " صرف پانچ منٹ "کے نام سے شایع ہو چکا ہے ۔گرفتاری کے فوراً بعد جب ٹارچر سیل میں لے جا کر سرکاری گماشتوں نے ہبہ الدباغ پر فرد جرم عاید کی اور اس نے ان کے الزامات کو ماننے اور اپنے ایک بھای کے بارے میں مطلوبہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کیا تو پھر اس کے ساتھ کیا ہوا ۔اس بارے میں ہبہ الدباغ لکھتی ہیں کہ ،" میرے انکار پر ایک اہلکار نے مجھے لکڑی کے تختے پر لٹا کر میری گردن ،کلاییاں ،پیٹ ،گھٹنے اور پاوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا ۔میرے پاوں فضا میں تھے اور ان سے کپڑا ہٹ چکا تھا ۔صرف جرابیں ان کو ڈھانپ رہی تھیں۔میں اپنے جسم کو حرکت نہ دے سکتی تھی ۔انہوں نے ٹکٹکی کو چھت سے لٹکی زنجیر کے ساتھ ٹانگ دیا ۔آپریشن ہیڈ ایک لمبا سا ڈنڈا پکڑے آگے بڑھا اور بولا ،تمہیں سب کچھ بتانا پڑے گا ۔میں نے کہا کہ میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں ۔اسی اثنا میں پاس کھڑے ایک دوسرے اہلکار نے ایک پلگ میری انگلی کے ساتھ لگایا جس میں کرنٹ تھا ۔اور ساتھ ہی ڈنڈے سے میرے پاوں کے درمیان ضرب لگای ۔مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرے پورے بدن میں آگ لگ گیی ہو ۔وہ میرے چیخوں کو خاطر میں لاے بغیر بولا ،تمہیں بکواس کرنی پڑے گی ۔تم نے دیکھا نہیں کہ بجلی کی طاقت کیا ہوتی ہے اور یہ ہمارے پاس سب سے ہلکا ٹارچر شمار ہوتا ہے ۔۔۔۔میں نے کہا کہ میں ان چیزوں کا اعتراف کیسے کروں جو میں نے نہیں کیں۔میرے انکار پر تشدد کا سلسلہ شرو ع ہو گیا ۔آپریشنل ہیڈ پوری قوت سے میرے پاوں پر کوڑے برسانے لگا،۔۔ایک اہلکار بید سے مارنے لگا اور سر کی طرف کھڑا آدمی میری انگلیوں پر کرنٹ لگانے لگا۔اتنی شدید تکلیف ہوی کہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی۔شرو ع میں چیختی رہی ،زبان پر " یا اللہ " کا کلمہ جاری رہا ۔لیکن کچھ دیر بعد آواز نکالنا بھی میرے بس میں نہ رہا ۔میں کچھ دیر تک سر پٹختی رہی اور پھر مجھے کسی بھی چیز کا احساس نہ رہا ۔وہ مسلسل دس منٹ تک تشدد کرنے کے بعد اچانک رک جاتے ،کچھ دیر گالی گلوچ اور توہین آمیز الفاظ کے استعمال کے بعد دوبارہ مارنے لگتے۔کچھ دیر بعد میری رسیاں کھول دی گییں اور مجھے باہر لے جا کر ایک گاڑی میں بٹھایا گیا۔دوبارہ سے فردجرم میرے سامنے رکھی گیی۔میری طرف سے دوبارہ انکار پر وہ مجھے پھر عقوبت خانے کے اندر لے آے اور اس مرتبہ تشدد پہلے سے بھی بڑھ کر کیا گیا ،حتیِ کہ مجھے یہ بھی خبر نہ رہی کہ کتنے لوگ مجھ پر تشدد کر رہے ہیں اور کتنے کوڑے اور ڈنڈے میرے پاوں پر برس رہے ہیں۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ پورا کمرہ ہی کوڑوں اور ڈنڈوں پر مشتمل ہے ۔جب میں کسی بھی طرح ان کی مرضی کا بیان دینے پر راضی نہ ہو ی تو ایک اہلکار نے بجلی کی ننگی تار میری زبان پر رکھ دی اور کہنے لگا ،کیا اب بھی نہیں بولو گی ؟۔۔۔۔۔۔۔میں نے جواب میں کہا ،تم مجھے کوڑے مارو یا کرنٹ لگاو ،میرے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ۔اس پر پاس کھڑے انٹروگیشن سینٹر کے سربراہ نے ایک اہلکار سے کہا کہ ،"اسے اٹھا لاو اور کاغذ قلم دو تاکہ جو کچھ یہ جانتی ہے ،اس پر مبنی اپنا تحریری بیان لکھے۔"پھر وہ مجھے سے کہنے لگا ،"اگر تم نے سچ سچ نہ لکھا تو یاد رکھو کہ ہمارے پاس ایسے ایسے وحشی اہلکار ہیں جو دروازہ بند کر دیتے ہیں ۔ "انہوں نے جب مجھے ٹکٹکی سے اتارا تو میرے کپڑے بھیگے ہوے تھے ۔مجھے گزشتہ دو تین گھنٹے مسلسل ٹارچر کیا گیا تھا۔اتنے میں ایک اہلکار نے مجھے کاغذ قلم پکڑاتے ہوے کہا کہ " سنو ،اگر سچ لکھو گی تو اپنے آپ کو عذاب سے بچا لو گی ،ورنہ کسی کو تمہارا نام و نشان بھی نہیں ملے گا"۔میں نے جب کاغذ پر بھی ان کا مطلوبہ بیان نہ لکھا توادارے کے سربراہ ناصیف نے مجھے پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی اور انتہای گندی زبان استعمال کرتے ہوے بولا،"اگر ابھی اور اسی وقت تم نے ہر چیز کا اعتراف نہ کیا تو میں سب کے سامنے تمہارے کپڑے اتار دوں گا "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔جاری ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)